مردوں کے جرائم بہت بڑے ہیں مگر

جمعرات 5 مارچ 2020

Mrs Jamshaid Khakwani

مسز جمشید خاکوانی

کچھ برسوں پہلے دیکھا ہوا وہ سین بھی کیا سین تھا جو میرے ذہن سے نکلتا نہیں ،نیلے رنگ کے شٹل کاک برقعوں میں لپٹی عورتوں کو ان کے مرد بوریوں کی طرح اٹھا اٹھا کر ہیلی کاپٹر کے اندر پھینک رہے تھے اس ڈر سے کہ کوئی اور ان کی عورتوں کو ہاتھ نہ لگا دے انتہائی مضحکہ خیز سچویشن تھی یہ ایک ریسکیو آپریشن تھا مرد اور بچے تو خود بھاگ بھاگ کر چڑھ رہے تھے مگر عورتیں ،حالانکہ ان عورتوں کو بھی عزت سے آرام سے بٹھایا جا سکتا تھا لیکن ہمارے کچھ علاقوں میں عورت کو گائے بھینس بھیڑ بکریوں سے یا جنس سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور میں حیران ہوتی ہوں کہ انہی علاقوں میں ماروی سرمد اور گلالئی اسماعیل جیسی عورتیں جینز پہن کر سر پر ٹوپی رکھ کر بے تکلفی سے مردوں کے ساتھ گھومتی ہیں پاکستان کے خلاف تھریکیں چلاتی ہیں بلکہ پاک فوج کو ہر قسم کا نقصان پہنچانے میں پیش پیش ہوتی ہیں اور وہ غیرت مند قبائلی انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں جن کو اپنی عورتوں سے اچھے اخلاق سے پیش آنا بھی نہیں آتا ،یہی منافقت ہے جس کی وجہ سے باہر کی دنیا ہمیں تقسیم در تقسیم کر رہی ہے آج ماروی سرمد اور خلیل الرحمن قمر کے درمیان ہونے والے معرکے پر ہم میں سے کسی کو خوش نہیں ہونا چاہیے ،گھر کی چھت ٹپکنے لگے تو اس کی مرمت کرتے ہیں اس کے نیچے کھڑے ہو کر نہاتے نہیں
ہمارا معاشرتی نظام آندھیوں کی زد میں ہے اس کو بچانا ہمارا فرض ہے نہ کہ دشمنوں کو ہنسنے کا موقع دیں مظفر گڑھ میں ایک لڑکی اور اس کے چالیس دن کے بچے کو صرف پسند کی شادی کرنے کے جرم میں زندہ دفن کر دیا گیا کسی عورتوں کے حقوق کی علمبردار نے مارچ نہیں کیا کیونکہ انہیں مارچ کا پیسہ ملتا ہے عورتوں کے حقوق کا نہیں ،کچھ عرصہ پہلے شرمین عبید چنائے نامی ایک عورت میدان میں اتری تھی جو تیزاب سے جلی عورتوں کو خواب دکھا کر لے جاتی کہ تمھارے منہ ٹھیک کرواؤنگی مگر وہ عورتیں تو آج تک جلے ہوئے منہ لیکر پھر رہیں ہیں وہ خود پاکستان کو بدنام کر کے نام اور پیسہ کما کر عیش کر رہی ہے یہ بھی ویسی ہی فنکار ہیں اپنی پرفارمنس کو کیش کرواتی ہیں بھلا ”میرا جسم میری مرضی “
بھی کوئی نعرہ ہے اگر نعرہ ہی دینا تھا تو ”میرا دل میری مرضی “ کا دیتیں
کیونکہ اللہ نے دل سب کو دیا ہے اس میں خواہشیں بھی ایک جیسی رکھی ہیں درد بھی ایک جیسا ہوتا ہے محبت بھی سب کو ہو سکتی ہے عورت ہو یا مرد عورت کو بھی حق ہے وہ اپنی پسند کی شادی کرے ،اپنی پسند کے کپڑے پہنے ،اپنے آرام اپنی صحت کا خیال رکھے اس کو مرد کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے ،جس طرح سندھ میں ہوتا ہے جرم مرد کرے سزا چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں کو ”ونی “ کر کے دی جاتی ہے کسی سے دشمنی نکالنی ہو اپنی عورت قتل کر کے پرائے مرد کی کھاٹ پر ڈال دی کسی سے پیسہ نکلوانا ہو اپنے گھر کی عورتوں کو کسی کے ساتھ کالی کالا کر کے فائدہ اٹھا لیا یہ ہے اصل جرم اصل ظلم ،بلاول صاحب نے آج تک اس کے لیے کیا اقدام کیے ہیں ؟کیا وہ اس پر روشنی ڈالیں گے ؟ سندھی جاگیرداروں اور وڈیروں کے مظالم کس سے پوشیدہ ہیں ؟اسی طرح بگتی سردار جس سے خفا ہو جاتے ان کو زمین سے بیدخل کر دیتے کسی کو معافی مانگنی ہوتی تو اپنی عورتوں کا اوپری لباس اتار کر ننگی چھاتیاں انہی کے بالوں سے ڈھانپ کر سردار صاحب کے پاس بھیجی جاتیں کہ اب تو معاف کر دو ظاہر ہے اس سے زیادہ ذلت تو ہو نہیں سکتی ہم سب عورت کی حمایت کرتے ہیں مگر اس ذلت کی نہیں جو اس نعرے نے عورت کو دیا ہے اس نے عورتوں کو اور بھی زلیل کر دیا ہے اب وہ ادھر کی رہی ہیں نہ اُدھر کی ،مردوں اور عورتوں میں خلیج بڑھتی جا رہی ہے وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگ گئے ہیں اس کا خمیازہ نسلوں کو بھگتنا ہوگا ارے بھئی ایسا کیا ظلم ہے جو صرف پاکستان میں عورتوں پر ہو رہا ہے عورت تو ساری دنیا میں ایک جیسے مسائل کا شکار ہے کیا مغرب کی عورت آسودہ ہے؟ جا کر اس سے پوچھو مرد کے شانہ بشانہ کام ضرور کرتی ہے اس کے برابر تنخواہ نہیں لے سکتی وہاں نہ عورت کی شکل صورت دیکھی جاتی ہے نہ عمر اگر ورکنگ لیڈی ہے تو کوئی رعایت نہیں اس کو کام کے دوران اسٹول پر بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی ایک پاکستانی خاتون جو بڑے کروفر سے پاکستان میں زندگی گذار رہی تھیں ان کو اچانک باہر جانے کا شوق چڑھا چند ماہ وہاں رہیں تنہائی کا شکار ہو کر سوچا کہیں جاب کر لیتی ہوں ایک سٹور میں جاب کر لی ایک دن تھک کر دوران ڈیوٹی اسٹول پر بیٹھ گئیں بس اس کے بعد جو ہوا اب باہر جانے کے نام سے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتیں ہیں پچھلے دنوں کینیڈہ سے آئی ایک خاتون کی باتوں کا بڑا چرچا رہا جو وہیں پیدا ہوئیں پلی بڑھیں شادی وہیں ہوئی بچے بھی یہاں پاکستان میں اپنے کسی رشتے داروں کی شادی میں آئی ہوئی تھیں یہاں جب پاکستانی خواتین کے گہنے کپڑے عیش عشرت ملازم دیکھے تو ان کی ناشکری پر برس پڑیں تم لوگ شہزادیوں کی طرح رہتی ہو اس پر بھی مردوں کے گلے شکوے ہر کام کے لیے ملازم ہے ہمیں دیکھو جاب بھی کریں گھر بھی سنبھالیں بچے بھی پالیں ایک مشین کی طرح زندگی ہے ہماری اور تم لوگ سارا دن ایک دوسرے کی غیبتوں میں گذار دیتے ہو ملازم آگے پیچھے پھرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

۔۔۔
ٹھیک ہے یہ ہر گھر میں نہیں ہوتا امیر غریب تو ہر ملک میں ہوتے ہیں طبقاتی فرق کہاں نہیں ہوتا جس کو بیس بنا کے عورت مرد کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کر دی جائے یہ تو نری تباہی ہے دیہات کی عورت مرد کے برابر کام کرتی ہے اس کی مار بھی سہتی ہے اس کو جہالت کہتے ہیں لیکن اب دیہاتی عورت شہر کی عورت سے زیادہ پر پرزے نکال چکی ہے کیونکہ وہ براہ راست میرا جسم میری مرضی والی خواتین کی زد میں ہے میڈیا بھی انہی کو فوکس کرتا ہے وہ آسان شکار ہیں اس لیے طلاق اور قتل وغارت گری بڑھ گئی ہے
ان کو تعلیم اور ہنر دیں شعور دیں صحت اور صفائی کا نہ کہ مرد سے بغاوت کی ترغیب دے کر ان کا مزید بیڑہ غرق کر دیں کیا عورتیں مردوں سے الگ دنیا بسائیں گی؟دیہاتی معاشرہ بڑا ظالم ہوتا ہے جو مرد عورت سے نرمی کرے اسے طعنوں کی زد پہ رکھ لیتا ہے اس میں صنف کا نہیں چودھراہٹ کا دخل ہے بگاوت کرنی ہے تو اس چودھراہٹ کے خلاف کریں ان ریت رواجوں کے خلاف کریں جنہوں نے جینا مشکل کر دیا ہے اسلام سے پہلے یہی ریت رواج تھے بیٹیاں زندہ دفن ہوتی تھیں تو ان کو جینے کا حق اسلام نے ہی دیا اور آپ اسلام کو ہی بدنام کر رہی ہو
میری ایک ملنے والی مجھے بتا رہی تھیں کہ میری بیٹی بہت لاڈلی ہے اس نے جہاں کہا اسے پڑھنے دیا ہر طرح کی آزادی دی (اس کا مظاہرہ ایک شادی میں اسے سٹیج پر باپ کے ساتھ ڈانس کرتے ہوئے میں دیکھ چکی تھی)ہوسٹل میں رہتی ہے لیکن اس کا کیا ہوگا ہم بڑے پریشان ہیں وہ شادی نہیں کرنا چاہتی عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنا چاہتی ہے بہت جذباتی ہے مرد کو کوئی رعایت دینے پر تیار نہیں کچھ نہیں سمجھتی
میں نے کہا یہ سب تربیت بچپن سے ہی کرنی پڑتی ہے یہ نہیں کہ لڑکی کی تربیت کرو لڑکے کو آزاد چھوڑ دو تربیت دونوں کی کرو لیکن اس وقت جب ان کو تربیت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جب وقت ہاتھ سے نکل جائے پھر تربیت نہیں ہوتی پریشر ہوتا ہے اور پریشر سو فیصد بغاوت کی طرف لے جاتا ہے اب تو وہ جیسا کہے اس کا حق ہے
جس معاشرے میں تعلیمی اداروں کے اندر سیاسی عہدے بانٹے جاتے ہوں اور باپ کی عمر کے بھیڑیا صفت لوگ تعلیم کے لیے آنے والی بچیوں کا جنسی استحصال کریں وہاں پر کون آنکھیں بند کر کے اپنی بچیوں کو شتر بے مہار آزادی دے سکتا ہے ؟جہاں لڑکیاں تو ایک طرف لڑکے بھی محفوظ نہیں ایسی باتوں پر چیک تو رکھنا پڑتا ہے ورنہ یہ حادثے جنم لیتے رہیں گے کیونکہ سیاست ہر برائی کا پردہ بن گئی ہے جو پکڑا جائے وہ کہتا ہے یہ سیاسی انتقام ہے چند دن بعد وہ پاک صاف ہوکر باہر آجاتا ہے اور کہانی پھر وہیں سے شروع ہوتی ہے ایسے میں عورت مرد کے درمیان نفرت پیدا کر کے ہم مزید بے سروسامان ہو جائیں گے لڑنا ہے تو ان درندوں کے خلاف لڑو انہیں بے نقاب کرو عورتوں کو اچھی ماں بننے کی تربیت دو خدا کی قسم انسان اپنی عزت خود کرواتا ہے میرے ساتھ ایک نہیں درجنوں ایسے واقعات ہو چکے ہیں جب بے اختیار میں نے اللہ کا شکر ادا کیا مجھ سے آج تک کسی نے بد تمیزی نہیں کی بلکہ لوگ اس قدر احترام کرتے ہیں کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے جب یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے وہ ملتان آئے تو پروٹوکول لگا ہوا تھا سڑکیں بند تھیں میرے میاں بے خیالی میں گاڑی آگے بڑھاتے گئے اچانک پچھلے شیشے پر تڑاخ کی آواز آئی ایسے لگا شیشہ ٹوٹ گیا ہے سپاہی غصے میں بھاگتا ہوا آیا جونہی اس کی نظر مجھ پر پڑی وہ ایکدم پیچھے ہٹا اور بڑے ادب سے بولا جائیں سر جائیں آئیندہ احتیاط کیجیے گا میرے میاں جو اس اچانک افتاد پر پریشان ہو گئے تھے کہنے لگے یار حد ہے آیا تو ایسے ہے جیسے گولی مار دے گا لیکن ۔

۔۔ہم کاکول اکیڈمی گئے برگیڈیروں جرنیلوں تک کی گاڑیوں کی چیکنگ ہو رہی تھی لیکن ہماری گاڑی کو بغیر چیک کیے اس نے اشارہ کیا جائیں ،ڈاکٹروں کی غفلت کے کتنے قصے مشہور ہیں لیکن مجھے آج تک یاد نہیں میں کہیں گئی ہوں اور کسی نے فوری طور پر اٹینڈ نہ کیا ہو ،کوئی بھی شاپ ہو کوئی ریسٹوران ہو،کوئی تقریب ہو مجھے کبھی کسی سے گلہ نہیں ہوا صرف اس لیے کہ میں سب کی عزت کرتی ہوں کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیتی ،کسی کی دل آزاری نہیں کرتی کروں تو فورا سوری کر لیتی ہوں اپنے شوہر پر کسی کو ترجیع نہیں دیتی غصے میں ہو تو خاموش رہتی ہوں کبھی فرامائشیں نہیں کرتی اس کی ہر ضرورت کا خود خیال رکھتی ہوں اس کے اصولوں کی دھجیاں نہیں اڑا تی اس کی آواز پہ اپنی آواز بلند نہیں کرتی جس چیز سے روک دے ضد نہیں کرتی کہنے کو یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں مگر یہ زندگی کے وہ اصول ہیں جن پر سکون ہے اطمنان ہے مردوں کے اس معاشرے میں ہم مرد سے بغاوت کر کے عزت نہیں کما سکتے ہم مرد کی تربیت ضرور کر سکتے ہیں !۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :