ان آنکھوں نے کیا کیا دیکھا

ہفتہ 12 جون 2021

Mrs Jamshaid Khakwani

مسز جمشید خاکوانی

پہلے تو میں ضیا شاہد صاحب کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گی مرحوم کہنے کو دل نہیں کرتا وہ ہر محب الوطن پاکستانی کے دل میں ہمیشہ زندہ رہیں گے اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کے درجات بلند کرے جس دن میری آنکھ کا اپریشن ہوا اس سے دوسرے دن مجھے ضیا صاحب کے انتقال کی خبر ملی مجھے بلکل یقین نہیں آرہا تھا کئی لوگوں سے کال کر کے پوچھا ضیا صاحب جنوبی پنجاب کے محسن ہیں ان سے ایک خاص انس تھا ہمیں وہ مجھے اکژ کہتے آپ ہمارے اخبار کی کالم نگار ہیں لیکن نہ کبھی دفتر آئی ہیں نہ کوئی تقریب اٹنڈ کرتی ہیں نہ آپ کو پریس کارڈ چاہیے میں نے کہا سر آپ کے اخبار میں میرا کالم چھپ جاتا ہے یہی میرے لیے اعزاز ہے میں کبھی خواہشوں کو ضرورتیں نہیں بناتی بس اپنے ملک کے لیے آپ کی طرح بغیر کسی صلے کے کام کرنا میرا نصب العین ہے
2009میں میرے سر پر ماتھے کے قریب بہت زور سے چوٹ لگی تھی بلڈ باہر نہیں نکلا آنکھوں کے اندر چلا گیا ڈیدھ ماہ تک مجھے دھندلا نظر آتا لیکن پھر سب ٹھیک ہو گیا میں بھی بھول گئی لیکن سوچا نہ تھا غفلت مہنگی پڑے گی 2016میں مجھے سر میں شدید پین شروع ہوا نیورو سرجن کو دکھایا آئی سپیشلسٹ کو چیک کرایا سٹی سکین بھی ہوا لیکن کسی کو سمجھ نہ آتی تھی بظاہر آنکھیں درست لگتیں ڈیڈھ سال یہ سلسلہ چلتا رہا میں نے ہومیو پیتھک علاج شروع کر دیا جس سے درد میں کچھ آفاقہ ہو گیا لیکن بینائی کم ہونے لگی میرا بیٹا مجھے پنڈی سی ایم ایچ لے گیا وہاں ڈاکٹر صاحب نے چیک کرتے ہی پوچھا آپکو کبھی چوٹ لگی ہے تب مجھے یاد آیا چوٹ تو لگی تھی لیکن اس کو سات آٹھ سال گزر گئے تب انہوں نے افسوس سے کہا کاش جب درد شروع ہوا تھا آپ تب ہی آ جاتیں تو آپ کی بینائی زائل ہونے سے بچ جاتی وہ بلڈ اندر سے ایک اآنکھ کو مکمل کھا چکا ہے یوں سمجھ لیں کینسر بن چکا ہے دوسری آنکھ بھی متاژر ہے خیر انہوں نے میرا لیزر ٹریٹ منٹ کیا جس سے میری کم از کم سر درد سے جان چھوٹ گئی عینک لگ گئی تو میں نے پھر سب کچھ بھول کر لکھنا شروع کر دیا لیکن اس بار میں تھوڑا تھوڑا لکھ سکتی ہوں ابھی میرا دو بار اپریشن ہو چکا ہے لیکن میں اپنی زندگی کا مقصد تو نہیں چھوڑ سکتی جس طرح ضیا صاحب زندگی کی آخری سانس تک لکھتے رہے میں بھی آنکھیں بند ہونے تک لکھتی رہونگی اس ملک کو جو لوگ کینسر کی طرح کھا گئے ہیں انہیں بے نقاب کرتی رہونگی
ابھی دو دن پہلے گھوٹکی میں دو ٹرینیں حادژے کا شکار ہوئیں ایک قیامت لوگوں پر ٹوٹی ہے نہ تو یہ پہلا حادژہ تھا نہ ہی آخری ،کیونکہ جس طرح انگریز دور کی بنی ریلوے کو نقصان پہنچایا گیا اس کی نظیر نہیں ملتی یعنی کسی نے اصلاحات کا سوچا ہی نہیں اپ گریڈ تو کیا کرتے پہلی پٹڑیاں ہی اکھاڑ کر کھا گئے جن کی بھٹیاں تھیں پینتیس سال والے تین سال والے پر طنز کے تبرے لے کر چڑھ دوڑے ہیں جبکہ اب تو عوام بھی اچھی طرح جانتی ہے ریلوے حادثے کیوں کب اور کیسے ہوتے ہیں
ریلوے کو کس کس طرح نقصان پہنچایا گیا اس کا جائزہ لیتے ہیں ،مندرہ چکوال بھون اس روٹ کا سارا لوہا نواز شریف کے دوسری بار وزیر اعظم بننے کے ساتھ ہی اتفاق فاؤنڈری کی بھٹیوں کی نظر ہو گیا تھا ظالم نے انگریزوں کی بنائی ہوئی سو سال پرانی ریلوے لائنوں کو خسارہ ظاہر کر کے ہڑپ کر لیا اسی طرح لارنس پور سے تربیلا غازی تک 45کلو میٹر لائن اور اس پر تمام سٹیل کے پل بھی پانامے شریف کی بھٹیوں کا ایندھن بن گئے صرف دس پیسے فی کلو اپنے فرنٹ مین کھڑے کر کے خریدا اس نے ۔

(جاری ہے)

۔۔قوم اس کا یہ سیاہ کارنامہ کبھی نہیں بھولے گی لارنس پور سے تربیلا کی طرف جائیں تو آج بھی اٹالین کنسٹرکشن کمپنی امپریجیلو (Imprigilo)کی بچھائی ہوئی لائن کے آثار اور سٹیل سٹرکچر کے بغیر پلوں کے کنکریٹ کے ستون نوحہ کناں ہیں جو کہ تربیلا ڈیم کی تعمیر کے لیے بچھائی گئی تھی ڈیم کا تعمیراتی سامان مین لائن سے سائٹ تک لے جانے اور مقامی آبادی دونوں کے لیے یہ لائن بھت کام آتی تھی اسی طرح دینہ سے منگلا جانے والا ریلوے ٹریک بھی ہضم کر گئے شکر گڑھ سے گورداس پور جانے والا ٹریک بارڈر تک اکھاڑ لیا گیا اور راوی پر بنا پرانا ریلوے پل بھی سیالکوٹ سے جموں تک ریلوے لائن سرحد تک بھی شیر مادر سمجھ کر ہضم کر لی گئی خان پور سے ظاہر پیر (ضلع رحیم یار خان )کی ریلوے پٹڑی بھی اتفاق فاؤنڈری والے ہضم کر چکے ہیں یا کھیوڑہ ریلوے اسٹیشن اور ملحقہ لائن دیکھ لیں ویرانی کا منظر پیش کرتی ہے کوہاٹ سے نکلنے والی ایک نیرو گیج ریلوے لائن جس پر بنے کئی اسٹیشن ویران اجڑے پڑے ہیں جن کا زیادہ تر لوہا چوری ہو چکا ہے یا اونے پونے نیلام ہو چکا ہے
بلوچستان میں کئی لوکل روٹ بند ہیں اور تباہ حال اسٹیشن حکمرانوں کی نا اہلی پر نوحہ خواں ہیں کراچی سرکلر ریلوے کو بھی عدم توجہی سے بند کیا گیا حالانکہ کراچی شہر کے لیے بہت ہی فائدہ مند منصوبہ تھا شریف خاندان پاکستان ریلوے کے لیے کینسر ثابت ہوا سینکڑوں پرانے انجن اور بوگیاں ریلوے لائنوں سمیت بہت سا سکریپ ان کی بھٹیوں کا ایندھن بن گیا مگر ان کی پاکستان سے جذبہ انتقام کی آگ پھر بھی ٹھنڈی نہ ہوئی ۔

۔شریف خاندان نے پاکستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا کردار ادا کیا جو لوگ جرنیلوں کی ہر غلطی کا حساب رکھتے ہیں وہ جنرل جیلانی کی اس منحوس غلطی کو ڈیفینڈ کیسے کر سکتے ہیں کہ ہر ادارہ تباہ کرنے کا ذمہ دار یہی خاندان نکلتا ہے
صحافت ،سیاست ،عدالت ،وکالت ،تجارت ،قومیت ،قوم کی تربیت سب انہوں نے برباد کر دیے میر صاحب اچھے بھلے کاوا ساکی پر پھرتے تھے نو روپے میں برگر اور شیزان کی بوتل سے پیٹ بھرتے خوش رہتے جاتی امرا کی رانی بٹیا بھاگی تو ان کے نوکر کے کواٹر کی دیوار پھلانگ کر اس سے سارا کچا چٹھا پوچھ آئے میاں صاحب کو ان کا وہ ایڈ ونچر اتنا پسند آیا کہ انہیں بعد میں مستقل ملازم رکھ لیا حالانکہ میر صاحب خود ایک وڈیو میں اقرار کر چکے ہیں کہ نواز شریف نے انہیں پر تکلف ناشتے پر بلایا خود بھی لسی پی مجھے بھی دو گلاس پلائی اور ڈکار مارنے کے بعد مجھ سے ریزائن کرنے کا مطالبہ کیا جب میں نے انکار کیا تو گرفتار کرنے کی دھمکی دی یہ میاں صاحب کا طریقہ واردات ہے نجم سیٹھی کو بھی آہنی راڈوں سے پٹوایا اور بعد میں اسے ہی اپنا ہمنوا بنا لیا حامد میر کو جانے لفظ ،پھانسی ، سے کیوں پیار ہے اپنے کالموں میں مشرف سے نواز شریف کی پھانسی کا مطالبہ کرتے رہے کیونکہ ان کے خیال میں آئین مشرف نے نہیں نواز شریف نے توڑا تھا جو اپنے ہی حاضر سروس آرمی چیف کو بھارت کے حوالے کرنا چاہتا تھا یہ تو چال الٹ گئی
میر صاحب بنگلہ دیش بنوانے کا ایوارڈ لینے یعنی اپنے باپ کی غداری کا انعام وصول کرنے گئے تو حسینہ واجد تھیں یا خالدہ ضیا ان سے بنگلہ دیش میں بچ جانے والے ستر اسی سال کے معمر بوڑھوں کو پھانسی دینے کا وعدہ لے کر لوٹے بعد میں اس بی بی نے وہ وعدہ پورا کیا سفید ریش بزرگوں کو پھانسی دی گئی حامد میر نے بلوچستان میں وہی کام اپنی نگرانی میں کروایا لوگ ان کو ڈبل ایجنٹ سمجھتے رہے لیکن یہ دو مونہی سانپ ہے جو کسی کو بھی ڈسے بغیر نہیں چھوڑتااس کا خدا پیسہ ہے اسائشات ہیں مراعات ہیں یہ ان کی خاطر کسی بھی سطع تک گر سکتا ہے دھوکہ فریب سے یا ملک بیچ کر اربوں روپے مل بھی جائیں تو کب تک ؟اب موصوف معافی مانگ رہے ہیں مگر کس سے؟آرمی معاف کر بھی دے قوم معاف نہیں کرے گی بات چلی تھی ریلوے کی ،اگر ریلوے کو حادثات سے بچانا ہے تو سب سے پہلے تمام ممبر پارلیمان سے فضائی سفر کی سہولیات واپس لے کر انہیں ریلوے میں سفر کا پابند بنائیں جیسے یہ جیل جائیں تو وہاں اے سی لگ جاتے ہیں جب سفر کرنا پڑے گا تو ریلیں بھی ٹھیک ہو جائیں گی فضائی سفر کو بھی انہوں نے مال غنیمت سمجھ رکھا ہے فضائی سفر کے مزے بند کریں اپنی گاڑیوں میں پارلیمنٹ آئیں یا ریل پر صرف قوم ہی کیوں مرے یہ اپنے بچے سرکاری سکولوں سے پڑھوائیں سارے اسکول ٹھیک ہو جائیں گے یہ اپنا علاج پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں سے کروائیں انکی باہر سے علاج کروانے کی سہولت واپس لی جائے یہ تو طنزیہ کہتے ہیں نا کہ کہاں ہے نیا پاکستان ؟ ان کے نخرے اٹھانا بند کیجیے تب بنے گا نیا پاکستا ن ،ورنہ غریب مرتا رہے گا اور یہ جیلوں سے ہٹے کٹے ہو کر نکلتے رہیں گے گلاب ان پر نچھاور ہوتے رہیں گے اور یہ ملک توڑنے کی سازشیں کرتے رہیں گے!۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :