کیا سٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے حوالے کیا جا رہا ہے
منگل 30 مارچ 2021
میں تو کوئی ماہر معیشت نہیں ہوں لیکن دوستوں کا فالورز کا دباؤ ہوتا ہے کہ اس پر لکھا جائے ویسے بھی ہر دوسرے دن ایک نیا ٹاپک تیار ہوتا ہے پیٹنے کے لیے میڈیا کو ملندریاں ڈالنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو چاہیے ظاہر ہے انہوں نے تو موجودہ حکومت کے ہر اقدام پر تنقید ہی کرنی ہے لیکن کچھ سوال بہت واضح ہیں میں نے بہت سی تحریریں پڑھیں موقف جانے پرگرام دیکھے لیکن محترم عاصم چودھری کا موقف حقیقت سے بہت قریب لگا سو میں نے انہیں فالو کیا ۔
(جاری ہے)
اور وہ ہے وزیر خزانہ، یعنی پورے ملک کا مالک و مختار ہوتا ہے وزیر خزانہ جو جب چاہے کسی کا بھی ناطقہ بند کر سکتا ہے ،چونکہ وزیر خزانہ ایک سیاسی عہدہ ہوتا ہے لہذا اس کی پالیسیوں میں اس کی پارٹی کا مفاد واضح جھلکتا ہے اس کی ایک مثال ” تین ارب لودھراں والو تم پر قربان “ جو مفاد ختم ہونے پر کبھی نہ ملے ۔۔کیونکہ ہو سکتا ہے تین ارب سٹیٹ بینک کے پاس ہوں ہی ناں سیاستادان میلہ لوٹنے کے لیے ایسے نعرے لگا دیتے ہیں یہی وجہ تھی فسکل ڈیفی سٹ قرضوں اور منصوبوں کو کنٹرول کرنے کے لیے سٹیٹ بینک کو فیصلہ سازی کا اختیار دینا بہت ضروری تھا
یہ نہیں کہ آپنے کہا مجھے سو ارب چاہیں تو سٹیٹ بینک آپ کو سو ارب فورا دے دے
لہذا سٹیٹ بینک کو حکومتی تسلط سے آزاد کر کے اس کو پارلیمنٹ کے اندر مشترکہ طور پر دے دیا گیا تاکہ پاور کا اختیار ایک بندے کی بجائے پوری پارلیمنٹ کے پاس ہو اور پھر میٹرو ٹرین جیسے منصوبے ایک شخص کے دماغی خلل کے باعث دوبارہ نہ بنیں ،گورنر کو پہلے وزارت خزانہ کی ایک کمیٹی اپوائنٹ کرتی ہے لیکن اس قانون میں یہ تبدیلی کی گئی ہے کہ گورنر کا فیصلہ کابینہ کرے گی جو کہ صدر پاکستان کو اپروول کے لیے بھجوائے گی اس قوم کو استعمار یقوتوں اور مذہب کے نام پر چونا لگانا کتنا آسان ہے کہ بڑے بڑے دانشور دلیل سے بات کرنے کی بجائے یہی دو باتیں ہی کرتے نظر آ رہے ہیں اندازہ کریں ،کیا صدر پاکستان آئی ایم ایف لگاتی ہے یا ورلڈ بینک ؟کیسے سٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے تسلط میں چلا گیا ؟اگلی چیز جو اس قانون میں لکھی ہوئی وہ یہ ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک کے خلاف ،نیب ،ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن یونٹ کوئی کاروائی نہیں کر سکے گا ،تو کیا گورنر سٹیٹ جو مرضی کرپشن کرتا رہے اس کو کچھ نہیں کہا جائے گا ؟؟؟
اس سوال کے جواب سے پہلے یہ سن لیں کہ گورنر کو ہٹایا کیسے جا سکے گا ؟اگر گورنر کوئی مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوتا ہے تو پارلیمانی کمیٹی اس کی تحقیقات کر کے اس کیس کو کورٹ آف لاء میں پیش کرے گی کورٹ آف لا اس کمپنی کی تحقیقات کی روشنی میں خود انویسٹی گیشن کروائے یا اس کمپنی کی رپورٹ پر فیصلہ دے وہ اس کی مرضی یوں اس کے بعد گورنر کو صدر پاکستان ہٹا سکیں گے ،اگر گورنر کو صدر ،وزیر اعظم کابینہ کی ریکمینڈیشن پر اپوائنٹ کرتا ہے اور ہٹا بھی سکتا ہے تو گورنر صدر اور وزیراعظم سے طاقتور کیسے ہو گیا ؟اور کورٹ آف لاء اس کے خلاف انویسٹی گیشن کر سکتی ہے تو وہ احتساب سے بالا تر کیسے ہو گیا ؟؟؟
تیسرا سوال ،اس قانون میں یہ چیز لکھی ہوئی ہے کہ اگر گورنر سٹیٹ بینک کے مانیٹری پالیسی ،شرح سود یا کسی بھی قسم کے فیصلے سے کوئی نقصان ہوتا ہے تو اس کا زمہ دار گورنر نہیں ہوگا بلکہ گورنر کو اسی طرح امیونٹی حاصل ہو گی جیسے کسی ممبر آف پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ میں ہر طرح کی بکواس کرنے کی آزادی حاصل ہے جس طرح ایاز صادق کھلا پھر رہا ہے لیکن اس کی بھی شرط ہے کہ اگر اس فیصلے میں گورنر سٹیٹ بینک کے فیصلے میں کسی قسم کی میلا فاینڈ انٹیشنثابت ہوئی تو گورنر کو یہ امیونٹی ختم ہو جائے گی اور اس کا فیصلہ کورٹ آف لاء کرے گا اگر میلا فاینڈ انٹیشن ثابت ہوئی تو اس پر قانون کے مطابق کیس چلے گا
میں یہ سب تفصیل اس لیے لکھ رہی ہوں کہ ہمارے ہاں بات بات پر افواہوں کا بازار گرم ہو جاتا ہے ظاہر ہے عوام ان باریکیوں میں نہیں جاتے اور افواہ ساز مرضی کے طومار باندھتے ہیں اگلی افواہ جو پھیلائی جا رہی ہے کہ سٹیٹ بینک گورنر کسی کو جواب دہ نہیں ہوگا ،پوچھنا یہ ہے کیا پچھلے قانون میں گورنر سٹیٹ بینک جواب دہ تھا ؟پچھلے قانون میں صرف یہ درج تھا کہ سٹیٹ بینک سالانہ پارلیمنٹ میں ایک رپورٹ جمع کروائے گا اب اس رپورٹ میں کیا جمع کروائے گا کیا نہیں یہ مینشن نہیں ہے جب کہ نئے قانون میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک ان پرسن پارلیمنٹ میں پیش ہو کر سالانہ پارلیمنٹ کو بریفنگ دے گا جس میں مانیٹری پالیسی ،اکانومی ،فنانشل سسٹم ،بینکنگ سیکٹر اور مختلف اکانومک فیکٹرز کی وضاحت کرے گا
اور پارلیمنٹ سال میں جب چاہے گورنر سمیت سٹیٹ بینک کے کسی ممبر کو پارلیمنٹ میں طلب کر سکتی ہے اور سٹیٹ بینک یہ رپورٹ سال میں کم از کم دو بار پبلش کرنے کا زمہ دار ہو گا تاکہ ساری عوام کوپتہ چلے کہ ملک میں معیشت ،مانیٹری پالیسی ،اور فنانشل سسٹم کس طرف جا رہا ہے اس پراپیگنڈے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مستقبل میں کوئی مداری جیبیں چھنکاتا یہ اعلان نہیں کر سکے گا جیبیں بھر کرلایا ہوں قربان قربان
اور یہی وہ تکلیف ہے جس پر اپوزیشن چیخیں مار رہی ہے اور اپنے اپنے رینٹڈ ماہر معیشت دان مارکیٹ میں چھوڑ دیے ہیں کہ جاؤ عوام کو گمراہ کرو اور ان میں سب سے بڑا مداری چچا قیصر بنگالی بابا ہے جس نے یہ شوشہ چھوڑا ہے کہ سٹیٹ بینک ملازمین کی تنخواہیں دینا بند کر دے گا اس طرح کے سطحی لیول کے لوگوں کو پتہ نہیں ماہر معیشت کون بناتا ہے قانون یہ نہیں پاس ہوا کہ سٹیٹ بینک جب چاہے تنخواہیں بند کر دے گا نہ ہی اس کا کوئی ذکر ہے اس لیے عوام ان جھوٹے پروپیگنڈوں سے اپنا وقت خراب نہ کریں کسی کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو مسٹر عاصم چودھری سے رابطہ کر سکتے ہیں ! ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مسز جمشید خاکوانی کے کالمز
-
صرف خواب دیکھنے والے
اتوار 12 دسمبر 2021
-
ہمیشہ ہی نہیں رہتے چہرے نقابوں میں
منگل 9 نومبر 2021
-
افغانستان کل اور آج
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
ان آنکھوں نے کیا کیا دیکھا
ہفتہ 12 جون 2021
-
مریم نواز کو ہر بات میں جلدی کیوں ہوتی ہے
بدھ 7 اپریل 2021
-
کیا سٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے حوالے کیا جا رہا ہے
منگل 30 مارچ 2021
-
ہائے اللہ یہ تو کتابیں تھیں
ہفتہ 13 فروری 2021
-
دھیرے دھیرے اب وہ مقام آگیا
بدھ 3 فروری 2021
مسز جمشید خاکوانی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.