حقوق کی صدائیں

منگل 10 مارچ 2020

Mufti Mohiuddin Ahmed Mansoori

مفتی محی الدین احمد منصوری

میں آزاد ہوں ، مجھے آزادی چاہئے ، آزادی میرا حق ہے ، میری زندگی میری مرضی ، میں اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارونگی، میرا جسم میری مرضی، یہ سب وہ نعرے ہیں جن کو ہمارے معاشرے میں کسی وائرس کی طرح پھلایا جارہاہے ،اس کے علاوہ مغرب کی تقلید میں فادرڈے، مدرڈے ، مزدور ڈے ، خواتین ڈے ، ٹیچر ڈے سمیت مختلف ڈے بھی ہمارے ملک میں باقاعدہ جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے ان نعروں ریلیوں اور مخصوص ایام منانے کی اصل وجہ مطلوبہ شعبوں اور ان سے وابستہ مغرب نواز افراد کو متحرک رکھنا ہے ۔


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی خواتین ، مزدور، اساتذہ سمیت مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افرادحقوق سے محروم ہیں؟ جواب یہ ہے کہ جی بلکل محروم ہے پر کیا ملک میں موجود انجمنیں ، اداریں ، جماعتیں اور NGO سوفیصد ان کے حقوق کے لئے اقدمات کررہے ہیں اور ان کے جائز حقوق کے لئے جائز مطالبات پیش کررہے ہیں ، کیا سال میں ایک دو مارچ ریلی حصول ِحقوق کے لئے کافی ہے؟ ان سوالات کے جوابات یقینا نفی میں ہے بلکہ حقیقتاََ بدقسمتی سے ان مجبور و مظلوم طبقے کو ڈھال بناکر ملک میں موجود انجمنیں اور NGOکے اداریں مخصوص ایجنڈے کے تحت ملک میں انارکی پھلانے کی کوشش میں مصروف عمل ہے کیونکہ ان کے مطالبات میں کوئی ایک نقطہ ایسا نظرنہیں آتا جس سے متاثرہ طبقے کو کوئی فائدہ ہو یا ان کی صحیح معنوں میں نمائندگی ہو بلکہ ان کے نعروں سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے حقوق کے حصول میں سب سے بڑی رکارٹ آئین پاکستان اور اسلام ہے۔

(جاری ہے)

 8مارچ کو خواتین مارچ کے عنوان سے نکالی جانے والی ریلی نے کچھ ایسا ہی پیغام دینے کی بھرپور کوشش کی ہے جسکی وجہ سے پورا ملک شش وپنج میں مبتلا ہے،پرکیا واقعی اسلام حصولِ حقوق کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ مطالعہ مذاہب عالم سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو ہرطبقے سے وابستہ افراد کے حقوق کا پاسبان ہے ، دنیا کے دیگر مذاہب ، قوم یا کلچر دنیا کو سلیقہء زندگی و آدابِ معاشرت دینے سے قاصر ہے اس کے برعکس اسلام مکمل ضابطہء حیات ہے اس کے دامن میں پوری کائنات چاہے اس کا تعلق کسی مذہب ، رنگ ، نسل و جنس سے ہو محفوظ و معمور ہے ، اسلام نے جس اہتمام کے ساتھ حقوق العباد کا درس دیا اور اس پر عمل کرنے پر زور دیا مذاہب عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں، اسلامی تعلیمات سے دوری نے ہمیں احساس کمتری میں مبتلا کردیا وگرنا مسلمانوں کا وجود صدیوں تک سراپا اجالا تھا۔

 ہمارے علم میں ہونا چاہئے کہ آئین پاکستان اصول دین سے ماخوذ ہے ۔بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح سے پوچھا گیاکہ پاکستان کا آئین کیا ہوگا آپ نے فرمایا! پاکستان کا آئین قرآن ہوگا، اسی طرح 12جون1938 کو میمن چیمبر آف کامرس کیجانب سے ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا! مسلمانوں کو کسی پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ان کے پاس ایک پروگرام 13 سو سال سے موجود ہے اور وہ '' قرآن کریم '' ہے ، قرآن کریم میں ہمارے معاشی ، ثقافتی اور تہذیبی مسائل کا حل موجود ہے۔

 شیخ الاسلام جسٹس(ر) مفتی تقی عثمانی فرماتے ہے کہ ! ''آج ہمارے معاشرے میں ہرطرف حقوق حاصل کرنے کی صدائیں گونج رہی ہیں اسی مقصد کے تحت بیشمار ادارے اور انجمنیں قائم ہیں اور ہرشخص اپنے حقوق کے نام پر زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کرنے کی فکر میں منہمک ہے لیکن اس پہلو کی طرف توجہ بہت کم لوگوں کی ہوتی ہے کہ حقوق(Rights)ہمیشہ فرائض (Obligations) سے وابستہ ہوتے ہیں'' معاشر ے کا ہر فرد اگر اپنا فرائض کما حقہ‘ ادا کردیں توکسی کا کوئی حقوق باقی نا رہے بلکہ سب کے حقوق خود بخود ادا ہونے شروع ہوجائیں گے مثلاََ شوہر اپنے فرائض ادا کرے تو بیوی کے حقوق ادا ہوجائینگے اور بیوی اپنے فرائض ادا کردیے تو شوہر کے حقوق ادا ہوجائینگے اسی طرح حکومت اور اعلیٰ حکام اپنے فرائض ادا کریں تو ماتحتوں اور عوام کے حقوق ادا ہوجائینگے اور عوام ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فرائض ادا کردیں تو سب کے حقوق ادا ہوجائینگے ، خوش گوار ماحول کی قیام کے لئے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنے کی ضرورت ہے پرامن ، اخوت اور انصاف پر مبنی معاشرے کا خواب اسی صورت پورا ہوسکتا ہے کہ ہمارا زور حصولِ حقوق پر نہیں بلکہ ادائیگی فرائض و ذمہ داری پر ہو۔

آخرمیں خواتین مارچ کے شرکاء کی خدمت میں گزارش ہے کہ عورت ہمارے معاشرے میں بہن، بیٹی ، بیوی اور ماں جیسے مقدس رشتوں سے وابستہ ہوکر ہمارے خون و جگر میں شامل ہیں انکی عزت و احترام سر آنکھوں پر ہے ہمارے معاشرے کا ہر ذمہ دار شخص عورت کے حقوق کا علمبردار ہے ان کے بنیادی مسائل پر توجہ دیں جس کی وجہ سے واقعتا عورت کی حق تلفی ہوتی ہے نا کہ ان انفرادی مسائل کو عیاں کریں جن کا تعلق خانہ داری سے ہیں خداراں ایسی معمولی مسائل کو چھیڑ کر عورتوں کی بنیادی مسائل کو پس پشت نا ڈالیں، اور ان کے مسائل کے حل کے لئے مغرب کی تقلید کے بجائے قرآنی تعلیمات پر عمل کریں امام مالک  فرماتے ہیں کہ ! اس امت کے آخری دور کی اصلاح اسی چیز سے ہوگی جس سے ابتدائی عہد کی ہوئی تھی، خلیفة المسلمین سیدنا عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ ! ہم اونٹوں کی طرح پیشاب کرتے تھے ہم ذلیل و خوارتھے اللہ نے اسلام کے ذریعے سے ہمیں عزت دی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :