یہی دُنیا کا دستورہے!

منگل 22 جنوری 2019

Muhammad Akram Awan

محمد اکرم اعوان

یہ دُنیا ہے اوریہی دُنیا کا دستورہے،لوگوں کواپنے عیوب دوسروں میں نظرآتے ہیں اورخودکوہرعیب اوربرائی سے محفوظ سمجھتے ہیں۔کاروباردُنیا چالاکی،سازباز،عیاری،مکاری سے چلتاہے۔سادہ سی اورعام فہم بات ہے، کہ یہاں پسند اور ناپسند،محبت اورنفرت سب مفادسے وابستہ ہیں۔جب ہمارے مفاد کوٹھیس پہنچے گی، تواُس کاسبب ہمارے لئے کیسے پسندیدہ ہوسکتاہے۔

یہ بھی دستوردُنیا ہے کہ جب اختیارنہیں رہتا اور طاقت نہیں رہتی تو پھرزبانیں نکل ہی آتی ہیں۔"جس کی بنیاد بری ہووہ نیکیوں کا اثرقبول نہیں کرتا۔نااہل کی تربیت کرنا ایساہے ، جیسا گنبد پر اخروٹ رکھنا"۔
سمجھ نہیں آرہی ،سوشل میڈیا جوایک متبادل اظہار ِرائے کی حیثیت رکھتاہے ،پرجوکچھ کہا جارہا ہے وہ جانے والے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے لئے ہے کیونکہ وہ جتنا عرصہ بھی چیف رہے اس دوران انہیں مسلسل تنقیدکا نشانہ بنایاگیا اوراب ریٹائرمنٹ کے بعدان پر طنزوتنقید میں مزیدشدت اورتیزی آگئی ہے۔

(جاری ہے)

یا پھریہ نئے آنے والے چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ کے لئے پیغام ہے کہ دیکھوجب تمہارے پاس طاقت اوراختیارنہیں رہے گا توہم تمہارا اس سے بھی برا حشر کریں گے، تمہاری زندگی بھرکی مشقت اور ریاضت ہماری ایک تقریر اورتحریریاٹویٹ کی مارہوگی،یادرہے ،تم ہمارے مفادکونہ چھیڑنا ورنہ اورکچھ نہ کرسکے توتمہاری ریٹائرمنٹ کے بعداسی طرح اپنی خفت اور بھڑاس نکالیں گے۔

خبردار ہمیں کچھ نہ کہنا ،جوکچھ جیسا چل رہا ہے ویسے ہی چلتارہے ۔ہم بھی خوش اورتمہیں بھی کچھ نہیں کہا جائے گا۔
سوشل میڈیا پرسابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ پررد ِعمل اورمختلف آراء سامنے آرہی ہیں،ایک طبقہ کہہ رہا ہے ،چیف جسٹس ثاقب نثارنے اپنے عہد کے دوران فرائض کوایمانداری سے سرانجام دیااورملک و قوم کے لئے گرانقدرخدمات انجام دیں۔

پاکستان کی تاریخ میں چیف جسٹس ثاقب نثارکی خدمات ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھی جائیں گی۔عام انسان کی بہتری کے لئے کوشش اور سعی پر ا نہیں معاشرتی اورآئینی سمیت کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔میاں ثاقب نثار پاکستان کے واحد چیف جسٹس ہیں،جنہوں نے طاقتور طبقہ کی چیخیں نکلوائیں،میاں ثاقب نثار نے بطورچیف جسٹس ملک میں کرپشن کے عفریت کو نکیل ڈالنے میں جوکردار ادا کیا،اس سے پہلے کوئی نہیں کرسکا۔

انہوں نے بہت اہم ایشوز پرکام کیا،جنہیں عرصہ دراز سے ہمارے معاشرے میں مکمل طورپر نظرانداز کیا جارہا تھا۔ان ایشوز کواہمیت دی، ان کے لئے آوازاُٹھائی اوران مسائل کے حل کے لئے ،میاں ثاقب نثارکی جانب سے کئے گئے اقدامات کوہمیشہ یادرکھا جائے گا۔
جب ایگزیکٹو اپنا فرض ادانہ کریں،جب بیوروکریسی کرپٹ اورنکمی ہو،جب سارا نظام یرغمال ہو، توایسے میں قدرت خودکوئی وسیلہ پیدافرماتی ہے ،جو عوام کے لئے کچھ کرتاہے، جوغریبوں کے لئے احساس اور درد رکھتا ہے۔

ان کے دُکھ درد کا مدواکرتاہے۔جوریاست کوبے دردی اور بے رحمی سے لوٹنے والوں سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کی کوشش کرتاہے اورریاستی اداروں کوتباہ کرنے کے ذمہ داروں سے حساب لیتا ہے ۔اپنی بساط اورحدود کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثارنے جتنا کیا ،اتنا اورکوئی نہ کرسکا۔پانی جیسے اہم ایشوجس میں ہماری نسلوں کی بقاء ہے ۔اس ایشو کی فکرکرنے اوراس کاشعوراجاگرکرنے میں نہایت اہم کردار اداکیا ۔

ڈیم،جعلی ادویات، دودھ،منرل واٹر، ملاوٹ شدہ خوراک ، سکولوں،میڈیکل کالجوں کوفیس کم کرنے کے احکامات اورموبائیل کارڈ پر ٹیکس ختم کرکے قوم کے دل جیت لئے۔خاص کر کرپشن کے خلاف ان کا واضح موقف رہا۔کرپشن میں ملوث عناصرکی طاقت کوخاطرمیں نہ لاتے ہوئے ،کرپش کے خلاف جدوجہدجاری رکھی ۔اس کے علاوہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے جسٹس ثاقب نثارکی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔


موجودہ صورت حال میں ایک طبقہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی بطور چیف جسٹس تعناتی پربہت زیادہ خوش ہے اورانہیں مبارک باددے رہاہے ،لیکن دوسری جانب صورت حال بالکل مختلف ہے۔کہ ردعمل دیں تو کیا دیں؟یہ لوگ توسرے سے فیصلہ ہی نہیں کرپارہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثارکے جانے پرہنسیں یاپھراس سے بھی زیادہ سخت اورقانون پرسختی سے چلنے والے جسٹس آصف سعیدکھوسہ کے نئے چیف جسٹس بننے پر روئیں ۔

اس طبقہ کی جانب سے سوشل میڈیا پربھرپورتحریک چلائی گئی،جہاں سابق چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ پرشدید طنزو تنقید بھی کی جا رہی ہے ۔اس طبقہ کاطنزیہ، کہنا ہے کہ،سابق چیف ثاقب نثار کی عدلیہ کے بجائے جمہوریت کے لئے خدمات ہمیشہ یادرکھی جائیں گی۔اس طبقہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ جوبھی آئینی دائرہ کاراورتفوض کردہ دائرہ اختیارسے باہرجاتاہے غلط کرتاہے ،اُسے صحیح نہیں کہا جاسکتا۔

غلط طریقہ کار کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔جسٹس ثاقب نثارنے جوکچھ کیا،اپنی ذاتی تشہیرکے لئے کیاکیونکہ انہیں میڈیا میں آنے کا شوق تھا۔
سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثارپرتنقیدکرنے والوں کا کہناہے کہ چیف جسٹس کا اصل کام اپنے ادارے عدالتی نظام کوبہترکرنے کاتھا،جس کی وجہ سے مقدمات تاخیر کا شکارہوتے ہیں،انصاف میں تاخیربذات خود بہت بڑی ناانصافی اورخرابی ہے۔

عدالتوں میں سالوں سے پڑے لاکھوں زیرالتوا مقدمات کاکچھ نہیں کیاگیا۔انصاف میں تاخیر،انصاف سے انکارکے مترادف ہے۔مضبوط عدالتی نظام ہی کسی ملک میں استحکام اورگورننس کی ضمانت ہوتاہے۔اگروہ انتظامی معاملات میں مداخلت کے بجائے سپیڈی جسٹس کی فراہمی کے لئے عدلیہ کے ادارے میں بہتری لانے کی کوشش کرتے تواچھا ہوتا،تاکہ ہرغریب،کمزور،مظلوم کوبروقت سستا انصاف مل سکتا۔


جولوگ جلدانصاف کی فراہمی،نظام عدل میں بہتری اورمضبوط عدالتی نظام کی بات کررہے ہیں، اس کے جواب میں یہ کہا جارہا ہے کہ اس کی خرابی میں بھی حکمران طبقہ ذمہ دار ہے۔عدالتوں کے نظام قوانین کے تحت چلائے جاتے ہیں۔قوانین مقننہ بناتی ہے ،سپریم کورٹ کا چیف جسٹس نہیں۔آپ نے اپنے اقتدارکے دوران یہ امر کیوں نہ مقدم جانا،قانونی اصلاحات کیوں نہ کیں،کہ عدالتی نظام میں بہتری لائی جائے تاکہ عوام کوسستا اوربروقت انصاف مل سکے اورکسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔


یہ دُنیا ہے اوریہی دُنیا کا دستورہے،لوگوں کواپنے عیوب دوسروں میں نظرآتے ہیں اورخودکوہرعیب اوربرائی سے محفوظ سمجھتے ہیں۔کاروباردُنیا چالاکی،سازباز،عیاری،مکاری سے چلتاہے۔سادہ سی اورعام فہم بات ہے، کہ یہاں پسند اور ناپسند،محبت اورنفرت سب مفادسے وابستہ ہیں۔جب ہمارے مفاد کوٹھیس پہنچے گی، تواُس کاسبب ہمارے لئے کیسے پسندیدہ ہوسکتاہے۔یہ بھی دستوردُنیا ہے کہ جب اختیارنہیں رہتا اور طاقت نہیں رہتی تو پھرزبانیں نکل ہی آتی ہیں۔"جس کی بنیاد بری ہووہ نیکیوں کا اثرقبول نہیں کرتا۔نااہل کی تربیت کرنا ایساہے ، جیسا گنبد پر اخروٹ رکھنا"۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :