کرونا وائرس ہمارا مذاق اڑائے گا

پیر 23 مارچ 2020

Muhammad Hussain Azad

محمد حسین آزاد

کسی علاقے میں ایک شخص کو کینسر ہوا۔ زیادہ درد اور تکلیف کی وجہ سے وہ ڈاکٹروں کے پاس چلاجاتا' درد اور بخار  وغیرہ کے ٹبلٹس لے کر کھا تھا۔اسے اس بیماری کا علم نہیں تھا اور اس نے کسی اچھے ہسپتال میں اپنا معائنہ بھی نہیں کرایا تھا' کیونکہ اس نے اپنی بیماری کو سیرئس نہیں لیا تھا۔ اکثر لوگ اسے کہتے بھائی کسی اچھے ہسپتال میں اپنا چیک آپ کرالو کہی آپ کسی مہلک بیماری کا شکار نہ ہو۔

وہ لوگوں کی ان باتوں پر ٹینشن بھی لیتا لیکن جب وہ گھر میں  ایسی باتیں کرتا تو انہیں بتایا جاتا' " چپ کر' ایسی باتیں نہیں کہا کرتے۔ اللہ نہ کرے ان بیماریوں کا ہم سے کیا لینا دینا ہے'لوگوں کو بس تو صرف باتیں بنانا آتا ہے"۔گھر والوں نے بھی اس کی بیماری کو سیرئس نہیں لیا اور وہ ڈپریشن کا بھی شکار ہوگیا۔

(جاری ہے)

جب اس کی تکلیف زیادہ ہوئی تو انہیں ہسپتال لے گیا' چیک اپ کرایا تو وہ کینسرکے تھرڈ سٹیج میں پہنچ چکا تھا۔

اب اس کے بچنے کے چانسز کم تھے۔ لہذا ڈاکٹروں نے تسلی کے لیے اس کا علاج شروع کیا' کچھ دنوں بعد اس کی حالت بہتر ہوئی' ڈاکٹروں نے اسے خوراک کی ترکیب بتائی اور پرہیز کرنے کا کہا کہ دوا وقت پر کھا لینا' بیوی کے پاس مت جانا' اور گھر پر آرام کرنا۔ وہ ہسپتال سے ڈس چارج ہوا' گھر پہنچا تو وہ ڈاکٹرورں کی ساری باتیں بھول چکا تھا' وہ یہ بھی بھول چکا تھا کہ وہ موت کی منہ سے واپس چلا آیا ہے کیونکہ اسے علم تھا کہ وہ کینسر کا مریض ہے۔

چند دن آرام کے بعد اس نے کینسر جیسی مہلک مرض کا مزاق اڑھاتے ہوئے گھومنا پھرنا بھی شروع کیا اور بڑی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔سو اس نے کینسر جیسی بیماری کو سیرئس نہیں لیا۔وہ کچھ مہینے بعد  دوبارہ بیمار ہوا۔اور ہسپتال لے گیا۔ڈاکٹروں نے چیک اپ کرایا تو اس کے بچنے کے چانسز نہیں تھے۔چند دن بعد وہ تڑپ تڑپ کر مرگیا۔
عقل کہتی ہے کہ اگر بروقت اس کا علاج کیا جاتا یا اگر وہ اور اس کے گھر والے تھوڑی سی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے تو شاید وہ بچ جاتا۔

اس کے مرنے کے بعد ان کے گھر والے بڑا پچھتا گئے کہ کاش اگر بروقت اس کا علاج کیا جاتا تو وہ اتنی جلدی نہیں مرتا۔
تقدیر کا لکھا ہوا ہوجاتا ہے مگر ہم نے اگر یوں غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنایا تو اپنے پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے مروائے گے۔
قارئین 'دنیا نے بڑی ترقی کی ہے' سائنس و ٹیکنالوجی اپنی انتہا کو چھو چکی ہے اور انسان  ہر ناممکن کو ممکن بنانے کی خوش فہمی میں جی رہا ہے۔

قدرت مختلف ادوار میں انسان کو اپنا آپ یاد دلانے کے لئے انہیں اپنی وجودیت اور مطلق العنانیت کے اشارے دکھاتی ہیں۔
قارئین' کرونا وائرس بھی  قدرت کی طرف سے ایک اشارہ ہے۔ یہ بیماری سب سے پہلے 31دسمبر 2019 کو چین کے شہر اوہان میں متعارف ہوا اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اسے 17مارچ کو عالمی وبا قرار دے دیا۔ یہ اب تک دنیا کے ڈیڑھ سو سے زیادہ کے ممالک میں پھیلی ہے اور اب تک تیرہ ہزار سے زیادہ لوگوں کی جانیں لے چکی ہے۔

پوری دنیا میں کرونا وائرس سے تین لاکھ سے زیادہ  لوگ متاثر ہو چکے ہیں۔ چین کے شہر اوہان میں  یہ وبا  رفتہ رفتہ پورے شہر میں پھیل گیا اور اس سے ہزاروں لوگ متاثر ہوئے اور بہت سو کی موت واقع ہوئی۔ چین کی حکومت نے اس بیماری کو شکست دینے کئے قابل ستائش اقدامات کئے۔ اوہان شہر کو مکمل طور پر بند کیااور وہاں سے کسی کو باہر جانے اور اوہان شہر میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی۔

مریضوں کے لئے نئے نئے ہسپتال بنائے اور ہر قسم کی سہولیات سے آراستہ کیا۔چین کے بعد کرونا وائرس نے ایران اور اٹلی پر حملہ کیا جہاں پر ہزاروں لوگ اس سے متاثر ہوئے۔ ایران اور اٹلی میں کرونا وائرس کی تصدیق فروری میں ہوئی اور راتوں رات یہ وبا بہت زیادہ پھیل گئی۔ اٹلی میں ایک ماہ میں اموات کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی اور روز نئے نئے لوگ متاثر ہورہے ہیں۔

اسی طرح ایران میں بھی حالات سنگین ہیں۔ اس کے علاوہ کرونا وائرس دنیا  کے ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ فرانس اور کل 176 ممالک میں پہنچا اور اس سے لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔ لیکن اب تک کوئی بھی  ملک اس مرض کی باقاعدہ علاج دریافت نہ کرسکی۔
کرونا وائرس پاکستان میں 26 جنوری میں داخل ہوا اور آہستہ آہستہ پھیل گیا۔جب یہ پاکستان نہیں پہنچا تھا تو یہاں پر لوگ کرونا وائرس کا مزاق اڑھاتے تھے۔

اب چونکہ پاکستان میں بھی تادم تحریر سات سو کے  قریب تصدیقی کیسز سامنے آئے ہیں' اب تک اس وبا کی وجہ سے چار لوگوں کی موت واقع ہوئی  اور چار ہزار سے زیادہ مشتبہ کیسز موجود ہیں۔پاکستان کی حکومت کرونا وائرس کی وجہ سے بڑی ٹینشن میں ہیں۔ شہروں کے لوگ بھی تھوڑے بہت محتاط ہیں مگر ہمارے دیہاتوں کےلوگ اب بھی اسے ایک مزاق اور دنیا کا ایک چال سمجھتی ہیں۔

وہ بڑی بےپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر کی دھجیاں اڑا تے ہیں۔ چین ' امریکہ اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک نے کرونا وائرس کے سامنے گھٹنے ٹیک کردئیے تو ہم غربت میں پسے ہوئے پسماندہ قوم اس وبا کا مقابلہ کیسے کریں گے؟
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی نئی رپورٹ کے مطابق اگلے دو ہفتوں میں پاکستان اس وباء سے بہت زیادہ متاثر ہوسکتا ہے۔

لہذا ہمیں چاہیئے کہ احتیاطی تدابیر اپنا لیں۔ کیونکہ اس وباء کا صرف یہی ایک علاج ہے۔
قارئین !کرونا وائرس کی وجہ سے سب کو خدا یاد آیا کہ دنیا کا نظام انسان نہیں' کوئی اور چلا رہا ہے۔ تقدیر میں جو لکھا ہوتا ہے وہ ہو جاتا ہے لیکن اللہ تعالی نے انسان کو تقدیر کے علاوہ کچھ اختیارات بھی دئیے ہیں۔جیسے اگر آپ گہرے پانی میں کودیں گے تو ڈوب کے مر جائے گے۔

اگر جلتے ہوئے آگ میں جائے گے تو جل کر راکھ ہو جائیں گے۔ بلندی سے چلانگ لگائیں گے تو ہڈیاں ٹوٹ جائے گی۔ پانی کی جگہ تیزاب پیئے گے تو آپ کا جگر جل جائے گا۔ زہر کھائے گے تو مر جائے گے۔ اور اس قسم کے دوسرے حرکات و سکنات جیسے انسان کے اختیار میں ہوتے ہیں' کریں گے تو آپ کو اس کا سزا بھگتنا پڑے گا۔ لہذا آپ اپنی حرکات کو تقدیر کے پلڑے میں مت ڈالیئے۔

اگرہم  نے یو لاپرواہ ہوکر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور کرونا وائرس کا مزاق اڑھاتے رہے تو وہ دن دور نہیں جو کرونا وائرس ہمارا مزاق اڑھائے گی۔ ہمارا حال بھی اس کینسر کے مریض اور ان کے گھر والوں جیسا ہوگا۔پھر ہم سمجھ جائے گے مگر بات بہت آگے بڑھ چکی ہوں گی۔ لہذا بعد میں پچھتانے سے بہتر ہے کہ ہم پہلے احتیاطی تدابیر اپنا کر اپنی اور دوسرے لوگوں کی زندگی بچائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :