ہم بدقسمت قوم ہیں

منگل 25 جون 2019

Muhammad Hussain Azad

محمد حسین آزاد

دیر بالا خیبر پختون خوا کے شمالی علاقہ جات میں واقع ایک خوبصورت، سر سبز وشاداب مگر ایک پسماندہ ضلع ہے۔ اس کے گنے جنگلات اور بلند بلند چوٹیاں دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ لیکن بدقسمتی سے اس علاقے کو روز اول سے اپنے ہی لوگوں نے پسماندہ رکھا ہے۔ یہاں پر جو حکمران آتے ہیں، علاقائی تناظر میں دیکھتے ہوئے سوچتے ہیں کہ یہ تو پہاڑی علاقہ ہے اس لئے یہاں کے لوگ بھی پہاڑی ہی ہوگے۔

اور وہ یہاں کے لوگوں سے ایسا ہی سلوک کرتے جیسے یہ روٹی نہیں گھاس کھاتے ہیں۔
اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو نوابی دور میں بھی دیر کو نظر انداز کیا گیا۔اس دور میں کسی کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی نہ یہاں کے باسی دوسرے علاقوں میں جاسکتے تھے۔ کوئی بلند عمارت اور اپنے لئے خوبصورت مکانات نہیں بنا سکتے تھے کیونکہ یہ نواب شاہ جہان صاحب اپنا توہین سمجھتے تھے۔

(جاری ہے)


جب 2011 میں صاحب ذادہ عبد القیوم خان نے اسلامیہ کالج پشاور کی بنیاد رکھی تو نواب دیر نے اس میں سب سے زیادہ چندہ یعنی ایک لاکھ پچیس ہزار روپے دیا۔اگر اس دور میں اتنے پیسے دیر کی ترقی پر خرچ کرتے تو آج دیر کا نقشہ مختلف ہوتا۔نواب صاحب کا دیر کو پسماندہ رکھنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ یہاں کے لوگ ویسے ہی پسماندہ، ناسمجھ اور ان کو محتاج رہے تاکہ ان کی نوابی قائم و دائم رہے۔

لیکن اس کے بعد بھی جتنے بھی حکمران آئے ہیں ، سب نواب صاحب کے نقش و قدم پر چل کر دیر کو پسماندہ رکھنے میں اپنا حصہ ڈال کر چلے گئے۔کسی نے ایسی ایمانداری سے دیر کے لوگوں کے لئے ایسا کچھ نہیں کیا جن کو تاریخ میں اچھی الفاظ سے یاد کیا جائے۔
مشرف کے مارشل لاء سے پہلے پورے ملک میں (ن) لیگ کی حکومت تھی۔ دیر سے بھی (ن) لیگ کےنمائندے کامیاب ہوئے تھے۔

یہاں کے ممبر آف نشنل اسمبلی حاجی عنایت اللہ صاحب نے کامیابی کے بعد لوگوں سے کہا کہ صوبے اور مرکز دونوں میں ہماری حکومت ہے،اگر اس بار میں ہم نے اپنے علاقے کے لئے کچھ نہیں کیا تو سجمھ لینا ہم بڑی بد قسمت قوم ہیں۔ حاجی عنایت اللہ صاحب کا یہ جملہ سو فیصد سچ ثابت ہوا۔ انہوں نے دیر کے لئے کچھ نہیں کیا اور ہم  بدقسمت ہی ثابت ہوئے۔ اس کے بعد مشرف دور میں کے پی کے میں ایم ایم اے کی حکومت تھی جس میں دیر کی بہت اہم نمائندگی تھی۔

لیکن اس دور میں بھی دیر کو نظر انداز کیا گیا۔ اور اس کے بعد جب دنیا بہت آگے جاچکی تھی۔ لیکن ہم نے مذہب کے نام پر دھوکہ کھانے کے بعد پشتو قومیت ” خپلہ خاورہ خپل اختیار “ اور روٹی کپڑا مکان کے نعروں پر دھوکہ کھا گئے۔ ہم نے پیپلز پارٹی کو ہمدردی کا ووٹ بھی دیا۔ ملک میں پی پی پی کی حکومت بنی اور دیر بالا سے نجم الدین خان کو وفاقی کابینہ میں ایک بہت اہم عہدہ دیا گیا۔

لیکن جب 2012 میں پی پی پی کی حکومت ختم ہوئی تو  ہمارے وزیر صاحب کو ہوش آگیا۔اس کے علاوه صوبائی حکومت اور یہاں کے صوبائی اسمبلی کے ممبران نے بھی مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ 2013 کے انتخابات میں پورے پختون خوا کے لوگوں نے تبدیلی لانے کے لئے تحریک انصاف کو ووٹ دیا لیکن ہم نے اپنی روایات برقرار رکھتے ہوئے پرانے لوگوں کو منتخب کیا۔ اس دور میں بھی یہاں کوئی قابل اطمينان کام نہیں ہوا۔

لیکن لوگ بھی کسی سے کوئی بڑا کام کرنے کا امید رکھتا بھی نہیں، سب کہتے تھے یہ پرانے چور ڈاکو ہیں، یہ کام کرنے والے نہیں۔ لیکن جب 2018 کے عام انتخابات میں دیر فائین میں پی ٹی آئی نے کلین سویپ کیا اور دیر بالا میں بھی پی ٹی آئی کا ایم این اے منتخب ہوا تو لوگوں میں امید پیدا ہوئی کہ اب دیر بالا میں بھی تبدیلی آجائیں گی۔
قارئین، وفاقی بجٹ میں وزیر مواصلات مراد سعید نے چکدرہ موٹروے کو سوات تک توسيع دینے کی منظوری دی ہے۔

اور کسی نے دیر کا نام تک نہیں لیا۔ حالانکہ یہاں پر موٹر ویز و ہائی ویز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ یہاں پر سڑک کی حالت زار کی وجہ سے روز درجنوں حادثات ہوتے ہیں۔
قارئین، اب بھی ملک اور صوبے دونوں میں ایک ہی پارٹی تحریک انصاف کی حکومت ہے، لیکن یہاں کے منتخب نمائندگان سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہیں۔ اس لئے سب لوگوں سے درخواست ہیں کہ اپنی سیاست سے نکل کر اپنے دیر کے لئے آواز بلند اور اپنا حق چھیننے کی کوشش کریں۔ ورنہ سو سال گزرنے کے باوجود بھی دیر ایسا پسماندہ ہی رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :