گوتم کے دیس میں !

منگل 18 ستمبر 2018

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

بات کھٹمنڈو کے بدھ ناتھ سٹوپا سے شروع ہوئی تھی اور ہم سٹوپا کا تعارف کرواتے ہوئے بدھ تہذیب کی طرف نکل گئے ۔پاکستان میں گندھارا تہذیب اور ٹیکسلا کی وادی ماضی میں بدھ مت کے گڑھ سمجھے جاتے تھے ۔اس کے علاوہ تخت بائی جو اسلام آباد سے 170 کلومیٹر دور ہے، وہاں بھی ایک صدی قبل مسیح کی بدھ تہذیب کے قدیم آثار دریافت ہوئے ہیں۔ ان قدیم باقیات کودیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت پہاڑوں کی بلندی پربھی پانی کی فراہمی کا انتظام کیا گیا تھا۔

عمارتوں کی دیواروں میں تازہ ہوا کے لیے باقاعدہ روشن دان اور رات کو تیل کے چراغ روشن کرنے کے لیے طاقچے بنائے گئے تھے۔تخت بائی کی تاریخی حیثیت کے بارے میں پہلی مرتبہ 1836ء میں فرانسیسی آفیسر جنرل کورٹ نے انکشاف کیا تھا۔

(جاری ہے)

تحقیق اور کھدائی کا آغاز 1852ء میں شروع ہوا، 1980 میں یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ 2010ء میں پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے اس قدیم ورثے کو بھی خاصا نقصان پہنچایا تھا۔


ہم واپس آتے ہیں بدھ ناتھ اسٹوپا کی طرف۔بدھ ناتھ اسٹوپا کھٹمنڈو میں بدھ مت کے مقدس ترین مقامات میں سے ہے۔یہاں روزانہ ہزاروں سیاح اورزائرین اس کی زیارت اور طواف کے لیے آتے ہیں۔یہ لوگ ہاتھوں میں تسبیح لیے منتر پڑھتے ہوئے اسٹوپے کے گرد طواف کرتے ہیں۔ تسبیح کو زیادہ تعداد میں پڑھنے کے لیے منتر کو کاغذ پر لکھ کر اسے لوہے کے ایک پہیے کے اندرونی حصے میں اس طرح لپٹا دیا گیا ہے کہ لوگ اس پہیے کو گھماتے ہیں تو یہ منتر سینکڑوں ہزاروں دفعہ پڑھا ہوا شمار ہوتا ہے اور یوں وقت کی بچت کے ساتھ ذیادہ تسبیح کی فضیلت حاصل ہو جاتی ہے۔

اسٹوپے کی چھت پر چاروں طرف پانچ رنگوں پر مشتمل دعائیے جھنڈے لگے ہوئے ہیں جن پر سنسکرت ، تبت اور دیگر زبانوں میں بدھ مت کے دعائیہ کلمات درج ہیں۔
اس مرکزی عبادت گاہ کے قرب و جوار میں کئی چھوٹی چھوٹی عبادت گاہیں بھی قائم ہیں جہاں بدھ مت کے پیرو کار صبح وشام عبادت کے لیے آتے ہیں۔ ان عبادت گاہوں کے مختلف نام ہیں جن میں سچندرا نامی عبادت گاہ سب سے ممتاز ہے۔

اس کے علاوہ میوزیم اور تعلیم و تحقیق کے مراکز بھی ہیں جہاں بدھ مت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہاں دنیا بھر سے ریسرچر بد ھ مت پر ریسرچ کے لیے آتے ہیں۔یہاں انہیں بد ھ مت سے متعلق ہر قسم کا دستاویزی مواد مل جاتا ہے،یہاں ایم فل اور پی ایچ ڈی تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس ڈگری کے حصول کے لئے کم از کم نو سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور تعلیم کے ساتھ عبادات کے کڑے مراحل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔


اگر آپ بدھ مت کی تاریخ ، عقائد ، فلسفہ اور اور تعلیم کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو نیپال میں اس سے بہتر جگہ کوئی نہیں۔ یہاں ہر طرح کا تحقیقی کام ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ایک شعبہ نشر و اشاعت بھی قائم ہے۔یہاں میوزیم میں اکیلے جانے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ دس بارہ لوگوں کا ایک گروپ بنا کر اسے میوزیم میں لے جایا جاتا ہے۔ ایک گائیڈ ساتھ ساتھ گائیڈ کر تا جاتا ہے اور نقشوں اور تصاویر کی مدد سے گوتم بدھ کی زندگی کو سمجھایا گیا ہے۔


اسٹوپے کی عمارت گول شکل میں بنائی گئی ہے تاکہ طواف کرنے میں آسانی رہے۔یہ عمارت اس قدر وسیع ہے کہ آپ کو اس کے گرد ایک چکر پورا کرنے میں کم از کم چار سے پانچ منٹ لگ جاتے ہیں۔ بدھ مت کے پیرو کا ر ہاتھوں میں تسبیح پکڑے بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ ان کی عبادت کی رسمیں بہت دلچسپ ہیں۔ یہ لوگ ہماری طرح قیام بھی کرتے ہیں اور سجدہ بھی لیکن ان کے قیام اور سجدے کا طریقہ ذرا مختلف ہے۔

یہ ہاتھ جوڑتے ہیں، جڑے ہوئے ہاتھ ماتھے، ہونٹوں اور سینے پر لگاتے ہیں اور منہ کے بل زمین پر لیٹ جاتے ہیں، ہاتھ سر کی طرف آگے بڑھاتے ہیں،دونوں کو گھما کر سائیڈوں پر لاتے ہیں اور پھر سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔یہ بہت مشکل عبادت ہے لیکن یہ لوگ مسلسل اس عبادت میں مشغول رہتے ہیں اوربیسیوں مرتبہ یہ مشکل عبادت سرانجام دیتے ہیں۔
یہاں ان کی مذہبی درسگاہیں بھی موجود ہیں ، اسٹوپے کی ایک طرف تین منزلہ بلڈنگ ہے جس میں ان کے حفاظ بیٹھتے ہیں، یہ اپنی مذہبی کتاب سے لوگوں کی قسمت بھی بتاتے ہیں اور نذرانہ بھی وصول کرتے ہیں۔

بدھ مت کی مذہبی کتاب تری پتاکا دنیا کی طویل ترین مذہبی کتاب ہے جس کی 225 جلدیں ہیں اور ہر جلد پانچ سو سے ہزار صفحوں پر مشتمل ہے، اس کی زبان بہت مشکل ہے اس لیے یہ کتاب صرف ان کے روحانی پیشوا لامہ ہی سمجھ سکتے ہیں۔
یہ لوگ اپنی عبادت گاہوں میں دیسی گھی کے چراغ جلاتے ہیں،یہاں اکثر دکانوں پر آپ کو ایسے چراغ مل جاتے ہیں۔ لوگ یہ چراغ خرید کر انہیں اسٹوپا کی چھت اور ارد گرد روشن کر دیتے ہیں۔

آپ کوہر اسٹوپا میں منوں کے حساب سے دیسی گھی مل جائے گا اور یہ گھی زائرین لے کر آتے ہیں۔اسٹوپا میں ہزاروں قیمتی مورتیاں ہیں اور یہ لوگ جان سے بڑھ کر ان مورتیوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ درسگاہوں میں زیر تعلیم بھکشو شادی نہیں کرتے۔ یہ اگر شادی کر لیں تو انھیں درسگاہ سے نکال دیا جاتا ہے،یہ اگر اپنا تعلیمی سلسلہ دوبارہ جوڑنا چاہیں تو یہ گھر بار چھوڑ کر واپس آ سکتے ہیں۔

یہ عنابی رنگ کی دو چادریں پہنتے ہیں، ایک سے نچلا دھڑ ڈھانپتے ہیں اور دوسری سے اوپر والا بدن۔
2015 کے زلزلے میں یہ اسٹوپا تباہ ہو گیا تھا،اس کادوبارہ تعمیراتی کام مئی 2015 میں شروع ہوا اور اس کی تعمیر میں 21 لاکھ ڈالر کی رقم اور 30 کلو سے زیادہ سونا استعمال کیا گیا۔بدھ مت میں مقدس مقام کی تعمیرات میں سرکاری فنڈز استعمال نہیں کیے جاتے اس لیے یہ رقم بدھ مت کے پیرو کاروں اور رضا کاروں نے خود جمع کی تھی۔

اسٹوپے کے ادر گرد ایک وسیع مارکیٹ ہے جہاں سیاح اپنی مرضی سے شاپنگ کرتے ہیں۔
 اطراف کے علاوہ باہر مین روڈ پر بھی بہت بڑی مارکیٹ تھی ، یہاں دوستوں نے شاپنگ کی ، میں نے بھی کچھ چیزیں خریدی۔ یہاں کی شال بہت مشہور او ر سستی ہے،کہا جاتا ہے اگر آپ نے نیپال آکر شال نہیں خریدی تو آپ نے کچھ نہیں خریدا۔ مارکیٹ میں اسی طرح بھاوٴ تاوٴ ہوتا ہے جیسے ہمارے پٹھان بھائی کرتے ہیں۔

پانچ سو کی چیز ایک ہزار میں بتا کر پانچ سو میں دے دیتے ہیں۔ یہاں ڈالر کے علاوہ انڈین کرنسی بھی ہر جگہ قبول کی جاتی ہے۔ پاکستان کے بارے میں لوگوں کا تاثر کچھ برا نہیں تو بہت اچھا بھی نہیں تھا۔ ہمارے ساتھ کچھ باحجاب طالبات بھی تھیں جنہیں لوگ حیرت اور احترام کے ملے جلے جذبات سے دیکھتے تھے۔
یہاں مارکیٹ میں کچھ مسلمان بھی ملے ، تعارف کروانے سے معلوم ہوا یہ انڈین مسلمان ہیں اور کاروبار کے سلسلے میں یہاں مقیم ہیں۔

ہمیں ان سے اور انہیں ہم سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ یہ اسلامی اخو ت کا وہ جذبہ تھا جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ رات ساڑھے سات بجے ”اسٹوپا ویو “ہوٹل میں ہمارا ڈنر تھا۔ سب لوگ وقت پر ہوٹل پہنچ چکے تھے۔یہاں حلال فوڈ مشکل سے ہی ملتاہے ، بس پیٹ بھرنے کے لیے جیسا تیسا دستیاب تھا کھایااور بسوں کی جانب چل دیئے۔ دو بسوں پر مشتمل قافلہ رات سوا نو بجے ہوٹل پہنچا۔ہم دوپہر ایک بجے کے نکلے ہوئے تھے،جسم تھکن سے چور اور نیند کے آثار غالب تھے ۔ مزید کچھ کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ نماز پڑھی ، لیپ ٹاپ پر کچھ ضروری کام نمٹایااور دھلی خیل کی خنک رات میں نیند کی آغوش میں چلے گئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :