ناکام محبت!!

منگل 15 اکتوبر 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

میں نے ہوٹل کی بالکونی سے نظر دوڑائی باہر دور تک دھند اور ہلکا ہلکا دھواں تھا ،یہ جون جولائی کی جھلسانے دینے والی گرمی تھی ، پورا پاکستان گرمی کی وجہ سے انڈے کی طرح ابل رہا تھا ، سورج ہر روز قہر ڈھاتا تھا اور لوگ پچھلے دو ماہ سے بارش برسنے کی دعائیں مانگ رہے تھے ۔ میں کسی علمی سرگرمی کے سلسلے میں ملک کے شمالی علاقوں کے سفر پر تھا ۔

یہاں موسم معتدل اور نشاط انگیز تھا ، پچھلے تین دن سے مسلسل بوندا باندی ہور ہی تھی اور سیاح گرمیوں کے موسم میں سردی سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ میں سردیوں کا کیڑا ہوں گرمی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی ، جیسے ہی گرمی کا موسم شروع ہوتا ہے میرے لیے پریشانی کے دن شروع ہو جاتے ہیں ۔میں جس ہوٹل اور علاقے میں ٹھہرا ہوا تھا وہاں گرمی نہیں تھی ، میں معمول کی سرگرمیوں سے فارغ ہو کر کمرے میں آتا اور گھنٹوں تلک بالکونی میں کھڑا رہتاتھا ، میرے سامنے اونچے پہاڑ تھے ، پہاڑوں پر خطرناک سانپ کی طرح بل کھاتی سڑکیں تھی اور ان سڑکوں پر چیختی چنگاڑتی گاڑیاں تھی۔

(جاری ہے)

پہاڑوں کے درمیان کھلی وادیاں تھیں ، وادیوں میں بنے گھر تھے اور ان گھروں سے اٹھتا ہوا دھواں تھا ، بادل پہاڑوں کی چوٹیوں سے نیچے اترتے ،وادی کے گھروں سے اٹھکھلیاں کرتے اور اپنی خنکی کا احساس چھوڑ کر واپس چلے جاتے تھے ۔ فضا آئینے کی طرح شفا ف تھی ، پرندوں کی آوازیں کانوں میں رس گھول دیتی تھیں اور دور پہاڑکے دامن میں کسی چرواہے کی آوازروح کومسحور کیے دیتی تھی ۔

رات کے وقت یہ منظر اور بھی دلفریب ہوجاتاتھا، پوری وادی اور پہاڑی چوٹیوں پر بنے گھربجلی کے قمقموں سے روشن ہو جاتے تھے ،یوں محسوس ہوتا تھا جیسے جگنووٴں کی کوئی جماعت باوضوہو کر کر خدائے قدیر کی حمد میں ترانہ ریز ہے ۔ میں ہر روز اور ہر شب بالکونی میں کھڑا ہو کر ان مناظر کو اپنی روح میں جذب کرنے کی کوشش کرتا تھا ۔ میرے ساتھ والے کمرے میں ایک پروفیسر صاحب مقیم تھے ، وہ بھی ہر روزتھوڑی دیر کے لیے بالکونی پر نمودار ہوتے اور مجھے ہیلو ہائے کہہ کر کہ دوبارہ غائب ہو جاتے تھے۔

ایک روز موسم قہر ڈھا رہا تھا ، ہلکی ہلکی بارش تھی ، ہوا میں جنگلی جڑی بوٹیوں کی مہک تھی ، وادی کے دامن سے اٹھتا ہواں دھواں تھااور دھویں میں رقص کرتی اور گیت گاتی پریاں تھیں ،میں موسم کا ستم برداشت نہ کر سکا اور چھتری لے کر چہل قدمی کے لیے نیچے اتر آیا، بارش میں بھیگنا اور بوندوں سے باتیں کرنا میرے لیے خوشی کا بہترین لمحہ ہے ۔ میں ہوٹل سے باہر نکلا تو پروفیسر صاحب پہلے ہی وہاں موجود تھے ، میں نے ان کی ہمراہی چاہی جو انہوں نے قبول کر لی ، ہم پکی سڑک سے ہوتے ہوئے ایک کچے راستے پر ہولیے ،یہ ایک خوبصورت راستہ تھا ، چلتے چلتے میں نے ان سے ، ان کی زندگی کی کوئی ایسی کہانی سننے کی فرمائش کی جس نے ان کی زندگی بدل دی ہو ، جس نے ان کی سوچ و فکر کے زاویے مکمل طور پر تبدیل کردیے ہوں ۔


میری بات سن کر وہ اچانک رک گئے ، میری طرف دیکھا ، مسکرائے اور بولے ” بہت مشکل سوال ہے “ میں نے مسکراتے ہوئے عرض کیا ” آسان چیزیں تو کہیں سے بھی مل جائیں گے “ وہ دوبارہ رکے، بے بسی سے میری طرف دیکھا ، مسکرائے اور بولے ”سنو !میرے لیے زندگی کاسب سے بڑا سبق اورراہنما میری ناکام محبت ہے “ آپ کی طرح مجھے بھی یہ بات ہضم ہونے والی نہیں تھی ، میں سراپا سوال بن کر ان کے راستے میں کھڑا ہو گیا ، ہلکی ہلکی بارش تھی ،بارش میں نہاتے پرندے تھے اور پرندوں کے خوبصورت ترنم میں سنائی جانے والی ناکام محبت کی یہ داستان تھی، وہ بولے ” میں یونیورسٹی جانے تک ایک خاموش اور سلجھا ہو اسٹوڈنٹ تھا ،یونیورسٹی میں ایک کلاس فیلو کی زلفوں کا اسیر ہو گیا اور اس دن کے بعد سے میری زندگی سے سکون رخصت ہو گیا ، میں دوستوں کے ساتھ گھنٹوں کیفے میں بیٹھنے اور پارٹیاں اٹینڈ کرنے لگا ، گھر لیٹ جانا معمول بن گیا ، پڑھائی پر توجہ نہ رہی اور میرا سی جی پی اے چار سے دو پر آ گیا ۔

والدین کے لیے یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی، میں ہمیشہ پڑھائی میں فرسٹ آتا تھا ، اپنا وقت ضائع نہیں کرتا تھا اور روٹین کے مطابق زندگی گزارتا تھا لیکن اس دن کے بعد میں ایک سو اسی زاویہ الٹ چلنا شروع ہو گیا ۔میں نے چھ ماہ میں وہ سب کچھ کیا جو کر سکتا تھا ، ہماری جوڑی یونیورسٹی میں بھی مقبول ہو گئی تھی اور ہم پوری یونیورسٹی میں مشہور ہو چکے تھے ، نوجوان ہمیں حسرت بھری نظروں سے دیکھتے اور ہمارے جیسے نصیب مانگتے تھے ۔

جس طرح بہارچند روزہ ہوتی ہے بالآخر میرے ساتھ بھی یہی ہوا ، ہم دونوں کے بیچ کسی با ت پر غلط فہمی پیدا ہوئی اور اس نے مجھے غلط فہمی دور کرنے کی مہلت تک نہ دی ، میں لاکھ منت سماجت کی مگر نتیجہ صفر کا ہزارواں حصہ نکلا ۔ “ یہاں پہنچ کر وہ کچھ جذباتی ہو گئے ، میں نے قطع کلامی غیر مناسب سمجھا اور دوبارہ ہمہ تن گوش ہو گیا ، وہ دوبارہ شروع ہوئے ” اس دن کے بعدسے میں ایک نئی مصیبت میں گرفتارہو گیا ، مجھے دنیا کی ہر چیز سے وحشت ہونے لگی تھی ، پہلے بارش ہوتی تو میں ہنستا تھا اب بارش ہوتی تو میں بارش کے ساتھ مل کر روتا تھا ، لوگ ہنستے تو میرے سینے پر سانپ کودتے تھے ، عید پر لوگ خوش ہوتے تھے اور میں کسی کمرے میں بیٹھ کرمایوسی کی تسبیح پڑھ رہا ہوتا تھا ، میں محفل میں خلوت ڈھونڈتا ، لوگ روشنی کی بات کرتے میں اندھیروں کو لے کر بیٹھ جاتا، لوگ چاند کی بات کرتے میں سورج لے آتا ، تاروں بھری رات جو کبھی زندگی کا حسین لمحہ تھا اب کھانے کو دوڑتی تھی، سمندر کنارے ڈوبتے سورج کانظارہ کبھی میری پسندیدہ تفریح تھی اب سورج کے ساتھ میرا دل بھی ڈوب جاتا تھا ، ضد صرف ایک تھی کہ مجھے اسے پانا ہے ۔

یونیورسٹی میں کلاس ہوتی اور میں دسمبر کی ٹھٹھرتی صبح میں باہر بینچ پر بیٹھ کر روتا اور اسے یاد کرتا تھا ۔ پوچھنے پر کچھ نہ ہونے کا یقین دلانا اورغم بھلا کر خوش ہونے کی ایکٹنگ کرنا اس پر مستزاد تھا ۔یونیورسٹی کی پڑھائی ختم ہوئی تومیں واپس گاوٴں آ گیا، سال گزرتے گئے اور میں منتظر رہا ، ٹھیک چھ سال بعد اس نے اچانک مجھ سے رابطہ کیا، لگا بہار روٹھ کر آ گئی ہو ، اس کی واپسی کا دن میری زندگی کے خوشگوار دنوں میں سے تھا لیکن یہ خوشگواری ذیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ پائی ۔

میں نے چھ سال پہلے اسے جیسا چھوڑا تھا وہ ویسی نہیں تھی ، وہ مکمل طور پر بدل چکی تھی ، اس کی ظاہری ہیئت اور ذہنی حالت میں تفاوت آ چکا تھا ، وہ چڑ چڑے پن کا شکار تھی ، میری اور اس کی سوچ میں ہزار ڈگری کا فرق آ چکا تھا ، میں نے جس انسان کے لیے چھ سال دکھ ، اذیت اور کرب میں گزارے تھے اب میں اس سے دور بھاگنا چاہتا تھا ، اب میں ا س کی ضد تھا مگر وہ میری ضد نہیں تھی ، صرف چھ سال بعد دنیا کیا سے کیا ہو گئی تھی ۔

خود پر افسوس تھا کہ زندگی کے چھ قیمتی سال ضائع کر دیے، والدین چھ سال سے شادی کے لیے منتیں کر رہے تھے مگر میں نے اچھے اچھے رشتوں کو دھتکار دیا تھا ۔ میں یہ نہیں کہتا وہ بری تھی لیکن اگر ہم اکٹھے ہوجاتے تو شاید کسی تیسری برائی کو جنم دیتے اور کبھی پر سکون زندگی نہ جی پاتے ۔ “ وہ رکے ،گہری سانس کے ساتھ تازہ ہوا پھیپھڑوں میں انڈیلی اور گویا ہوئے ” ہم کسی ایک انسان کی ضد میں اتنے اندھے ہو جاتے ہیں کہ حقیقت کے دوسرے پہلووٴں کو نہیں دیکھ پاتے ، ہمارے والدین اور بڑے ہمارے حق میں جو فیصلہ کرتے ہیں وہ ذاتی فیصلوں سے کہیں بہتر ثابت ہوتے ہیں اور اس کا اندازہ ہمیں فورا نہیں دو چار سال گزرنے کے بعدہوتا ہے ۔

آج میرا شعوری فیصلہ یہ ہے کہ اگر میں اپنی ضد کو پالیتا تو شاید وہ خوشگوار زندگی نہ جی پاتا جو آج جی رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ناکام محبت کے دریا سے گزرنے والے ہر شخص کا شعوری بیان یہی ہو گا۔ “ بارش تھی ، وادیوں سے اٹھتا دھواں تھا ، دھویں میں رقص کرتی تتلیاں تھیں ، تتلیوں کے پیچھے بھاگتے بچے تھے اور بچوں کی اداوٴں کو دیکھ کر تالیاں بجاتی اور شور مچاتی ہوائیں تھیں ۔ میں نے پروفیسر صاحب سے اس روز اور بھی بہت کچھ سیکھا لیکن کالم پورا ہو چکا ہے ، سو وہ پھر کبھی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :