کرونا اور فکری انتشار !

پیر 23 مارچ 2020

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

سن17 ہجری اسلامی تاریخ کا خوفناک سال تھا، حضرت عمر خلیفہ وقت تھے ، اسلام عرب سے نکل کر عجم کی سرحدوں کو چھو رہا تھا ، روم اور فارس کی سلطنتیں آخری سانسیں لے رہی تھیں اور مسلمان تیزی سے دنیا فتح کرتے جا رہے تھے۔ 17 ہجری کے آخرمیں اچانک دوخوفناک آفتیں آئیں اور ہزاروں مسلمان ان آفتوں کا شکار ہو گئے۔ پہلی آفت قحط کی صورت میں نازل ہوئی ، نو ماہ تک بارش نہ ہونے کی وجہ سے پورا عرب خشک سالی کا شکار ہو گیا، بھیڑ بکریوں اور اونٹوں کے پورے پورے ریوڑ تباہ ہو گئے اور ہزاروں مویشی ، چرند پرند اور انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔

حضرت عمر نے قسم کھائی کہ جب تک لوگ قحط میں مبتلا ہیں وہ گوشت، گھی یا دودھ کو ہاتھ تک نہیں لگائیں گے، انہوں نے قحط ختم ہونے تک اس عہد کی پابندی کی اور صرف باجرے کی روٹی تک محدود رہے۔

(جاری ہے)

حضرت عمر نے اس آفت سے نمٹنے کے لیے اپنے عمال کو خط لکھے، حضرت سعدبن ابی وقاص نے عراق سے آٹے کے لدے ہوئے ایک ہزار اونٹ روانہ کئے، حضرت معاویہ بن ابی سفیان نے شام سے تین ہزار اونٹ خوراک اور تین ہزار چغے بھیجے، حضرت عمرو بن العاص نے پانچ ہزار کمبل اور بیس جہاز آٹے اور گھی سے لدے ہوئے سمندر ی راستے سے روانہ کئے۔

مسلمان ابھی اس آفت سے نہیں نکلے تھے کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی۔ یہ وبا اس قدر شدید تھی کہ جس کو یہ مرض لاحق ہوتا وہ فورا مو ت کے منہ میں چلا جاتا، بیت المقدس ابھی تازہ تازہ فتح ہوا تھا ، حضرت عمر  اس فتح کے بعد شام کی طرف کوچ کا ارادہ رکھتے تھے لیکن طاعون کی وبا کے پیش نظرانہوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کو علم ہوا تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ شام کیوں نہیں جا رہے، اگر آپ کی تقدیر میں لکھا ہے کہ طاعون سے شہادت ہونی ہے تو ہو جائے گی، اگر نہیں لکھی تو نہیں ہوگی،حضرت عمر نے جواب دیا کہ ایک چرواہا بکریا ں چرانے نکلا ہے ،ایک طرف گھاس ہے اور ایک طرف پہاڑ ہیں تو وہ جانوروں کو کہاں لے کر جائے گا، اللہ نے ہمیں عقل دی ہے، شعور دیا ہے، میں جان بوجھ کر شام کیوں جاوٴں اور خود کو مشکل میں کیوں ڈالوں۔

حضرت ابو عبیدہ نے کسی قدر حیرت سے کہا کہ کیا آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگنا چاہتے ہیں ، موت آنی ہوئی توآجائے گی نہیں لکھی ہوگی تو نہیں آئے گی۔ اس پر حضرت عمر نے جواب دیا کہ کاش یہ جملہ آپ کے علاوہ کوئی اورکہتا ،آپ جیسا ذہین آدمی یہ کہہ رہا ہے ،پھرحضرت عمر نے کہا کہ ایک اللہ کی تقدیر وہ ہے جو شام میں میرے ساتھ پیش آ سکتی ہے اور ایک اللہ کی تقدیر وہ ہے جو مجھے مدینہ لے جانا چاہتی ہے تو میں اللہ کی دوسری تقدیر کو کیوں نہ اختیار کر وں۔

اگر میں مدینہ جا رہا ہوں تو بھی تقدیر میں ہی لکھا ہے میں کون سا تقدیر سے بھاگ رہا ہوں۔حضرت ابو عبیدہ تقدیر پر شدت سے یقین رکھتے تھے چنانچہ وہ شام چلے گئے۔ حضرت عمر  نے حضر ت ابو عبیدہ کو امین الامت کا لقب دیا تھا اور ان کو بہت عزیز رکھتے تھے، وبا نے شدت اختیار کی تو حضرت عمر نے تدبیر کے ذریعے انہیں واپس مدینہ بلانا چاہا ،حضرت عمر  نے ا نہیں خط لکھا کہ آپ سے ایک ضروری کام آن پڑا ہے ، جیسے ہی آپ کو خط ملے فورا مدینہ کی طرف روانہ ہو جائیں ، حضرت ابو عبیدہ بھی سمجھدار تھے ، فورا سمجھ گئے اور جوابا لکھا کہ مجھے آپ کی حاجت کا علم ہے ، میں اس وقت مسلمانوں کی فوج میں ہوں اور میں فوج کو چھوڑ کر آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

حضرت عمر  یہ جواب پڑھ کر بہت افسردہ ہوئے ، حاضرین نے پوچھا کہ کیا حضرت ابو عبیدہ کا انتقال ہو گیا تو آپ نے فرمایا ، ہوا نہیں لیکن لگتا ہے ہو جائے گا۔ کچھ ہی دن بعد حضرت ابو عبیدہ کا طاعون کی وجہ سے انتقال ہو گیا، ان کی جگہ معاذ بن جبل کو امیر لشکر بنایا گیا ، کچھ دن بعد وہ بھی انتقال کر گئے ، ان کے بعدحضرت عمر و ابن العاص کو امیر مقرر کیا گیا ، امیر مقرر ہونے کے بعد انہو ں نے تقریر کی :”جب یہ وبا پھوٹتی ہے تو آگ کی طرح پھیلتی ہے،مسلمانو! پہاڑوں میں چھپ کر اپنی جانیں بچاوٴ“۔

حضرت عمرو ابن العاص لشکر کو لے کر وہاں سے پہاڑو ں کی طرف نکل گئے اور جب تک وبا کا زور نہیں ٹوٹا وہیں قیام کیا۔حضرت عمر  نے عمر وابن العاص کی اس تقریر کو بہت سراہا اور اسے اپنا حکم قرار دیا۔ بعد میں یہ وباکئی مہینوں تک پھیلی رہی اور پچیس سے اٹھائیس ہزار مسلمان اس کی نذر ہوگئے۔ ان میں ابو عبید بن الجراح ،یزید بن ابی سفیان، معاذ بن جبل، ان کی دو بیویاں اور ایک بیٹا، حارث بن ہشام، سہیل بن عمرو،ضرار بن ازور، حارث بن ہشام ، عتبہ بن سہیل، شرحبیل بن حسبہ اور دوسرے سینکڑوں اکابر شامل تھے۔

حضرت حارث بن ہشام اپنے ستر اہل خانہ کے ہمراہ شام گئے اور اْن میں سے چار کے سوا باقی سب اس وبا کی نذر ہو گئے۔ حضرت خالد بن ولید کی اولاد میں سے چالیس افراد اس وبا کی نذر ہو ئے۔آج ہمیں بھی سترہ ہجری جیسے حالات کا سامنا ہے ، صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے اور عوام کی بے احتیاطی اس پر مستزاد ہے۔ اس معاملے میں فکری انتشار کرونا وائرس سے زیادہ خطرناک ثابت وہ سکتا ہے ، اس میں ہرگزکوئی دورائے نہیں ہونی چاہئے کہ اس وقت احتیاطی تدابیر فرض عین کا درجہ رکھتی ہیں اور اس فرض کے پیش نظر مستحبات اور سنن کو کچھ عرصے کے لیے موقوف کیا جا سکتا ہے ،توکل کے ساتھ اسباب اختیار کرنا دین کی درست تفہیم ہے ۔

سیدنا شرید بن سوید ثقفی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم کے پاس بنو ثقیف میں سے ایک کوڑھ زدہ آدمی آیا تاکہ آپ کی بیعت کرے، میں نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ایک جذام زدہ آدمی آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے، آپ نے فرمایا:” تم اس کے پاس جاوٴاور اس سے کہو کہ میں نے اس کی بیعت قبول کرلی ہے، وہ وہیں سے واپس چلا جائے۔“سیدنا عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا: ”جذام زدہ مریضوں پر زیادہ دیر تک نظر نہ ڈالا کرو۔

“سیدنا علی بن ابی طالب بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا:” جذام زدہ مریضوں پر زیادہ دیر تک نظر نہ ڈالو اور جب تم ان سے کلام کرو تو تمہارے اور ان کے درمیان ایک نیزے کے برابر فاصلہ ہونا چاہئے۔“ ہمارا سماج ایک اوسط درجے کا معاشرہ ہے ، دین کی غلط تفہیم ، جذباتیت ، فرقہ پرستی اور گروہی مفادات اس پر مستزاد ہیں ، اس لیے اہل علم ، طلبہ ، باشعور طبقات اور مذہبی پیشوا وٴں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی حد تک سماج میں کردار ادا کریں ، عوام میں آگہی پھیلائیں اور انہیں احتیاطی تدابیر کاپابند بنائیں ۔

اٹلی جیسا ترقی یافتہ ملک بے احتیاطی کی وجہ سے تباہ ہو چکا ہے ، اگلے دو تین ہفتے پاکستان کے لیے اہم ہیں ، عوام الناس کے لیے لازم ہے کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں ، بلاوجہ گھروں سے نہ نکلیں ، کرنسی نوٹو ں کے بارے میں محتاط رہیں ، بوڑھوں اور بچوں کا خصوصی خیال رکھیں اور اگر آنے والے دنوں میں لاک ڈون، مساجد کی بندش یا کرفیو کا فیصلہ ہوتا ہے تو اس کی مکمل پابندی کریں ۔

یہی وبا اگر ایک یا دو صدی پہلے آتی تو لاکھوں کروڑوں انسان لقمہ اجل بن جاتے، خدا کی طرف سے عطا کردہ شعور کی بنا پر اگرانسان اس قابل ہوگیا ہے کہ ان وباوٴں کے اثرات کو محدود کر سکے تو ہمیں احتیاطی تدابیر پر عمل کر کے اللہ کا شکرادا کرنا چاہئے ۔یاد رکھیں ! یہ انسانی تاریخ کی ہولناک اور خوفناک ترین آفت ہے ، دنیا اس کے بعد ایک نئے فیز میں داخل ہو گی ،انسانی تاریخ کو کرونا سے پہلے اور کرونا کے بعد کے تناظر میں دیکھا جائے گا، فی الحال دنیا کو اس کے اثرات سے نکلنے دیں، حالات نارمل ہوں گے تو اندازہ ہو گا کہ انسانیت نے کیا کھویا کیا پایا ، پچھلی صدی کی دو عظیم جنگوں سے دنیا اتنی متاثر نہیں ہوئی تھی جتنی اب ہو گی ، رہا پاکستان تو اگر سماجی سطح پر فکری انتشار ، مذہب کی غلط تفہیم ، جذباتیت، فرقہ پرستی اور انتظامیہ کی سطح پر نا اہلی اسی طرح جاری رہی تو کوئی معجزہ ہی ہمیں اس آفت سے بچا سکتا ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :