گوئبلوں کی حکومت!

پیر 10 اگست 2020

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

1923 تک وہ ایک عام طالب علم تھا ، تعلیم مکمل ہو چکی تھی مگر نوکری نہیں تھی،جرمنی کساد بازاری کا شکا ر تھا اور ملک ڈوب رہا تھا۔ اس نے نوکری کے لیے مختلف اداروں میں اپلائی کیا مگر ناکام ہوا۔1923کے آخر تک وہ زندگی سے بالکل مایوس ہوچکا تھا ،اس کی ادب، فن اور تھیٹر سے دلچسپی ختم ہو چکی تھی ،معاشقے دم توڑ چکے تھے اور رہی سیاست تو سیاست سے اسے کوئی سرو کار نہیں تھا۔

وہ اپنے والدین کے ساتھ تنہائی میں گوشہ نشین ہو گیا تھااور ڈائری لکھ کر اپنی تنہائی ختم کرنے کی کوشش کرتاتھا۔ اسی دوران جرمنی میں ”تبدیلی “ کی ہوائیں چلنا شروع ہوئیں اور نازی پارٹی نے جمہوریت ختم کر کے نئی حکومت بنا لی،ہٹلر جرمنی کا چانسلر بنا اور جرمنی میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

(جاری ہے)

پہلی جنگ عظیم کے زخم مٹانے کے لیے جرمنوں میں احساس تفاخر پیدا کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں ، عوام کو سبز، نیلے اور پیلے خواب دکھائے گئے اور اس سارے پروپیگنڈے کی ذمہ داری اس طالب علم کو دی گئی جو کچھ ماہ قبل تک بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ تھا۔

ڈاکٹر جوزف گوئبلز اس پروپیگنڈہ مہم کا انچارج تھا، اس نے جرمنوں کی وفادار ی حاصل کرنے کے لیے پروپیگنڈے کی وسیع مہم چلائی، پورے ملک کے پریس اور میڈیا پر پابندیاں لگا ئیں، مواصلات کے تمام ذرائع اپنے قبضے میں لیے اور اخبارات ، رسالوں اور میگزینز کی اشاعت بند کر دی۔عوامی اجتماعات پر پابندیاں لگائی ، اجلاس اور ریلیاں منسوخ ہوئیں اورموسیقی، فلم اور ریڈیوسے نشر ہونے والے تمام نظریات جنہیں نازی حکومت کے لئے خطرہ سمجھا جاتا تھاانہیں سنسر کردیا۔

1933 میں اس نے کتب کی ایک فہرست تیار کی جو اس کے خیال میں جرمنوں کو نہیں پڑھنی چاہئیے تھیں، 10 مئی 1933 کی رات اس نے جرمنی میں لائبریریوں اور کتب کی دکانوں پر چھاپہ مارا اورایسی تمام کتب کو آگ لگا دی، اس رات اس نے پچیس ہزار سے زیادہ کتب کو جلایا جن میں آئن سٹائن ، سگمنڈ فرائڈ اورامریکہ کی مشہور نابینا ادیب ہیلن کیلر کی کتب شامل تھیں۔ ہیلن کیلر اپنے نابینا پن اور پہرے پن کے باوجود اپنے وقت کی عظیم ادیبہ بن چکی تھی، جب اسے گوئبلز کے اس اقدام کے متعلق بتایا گیا تو اس نے کہا: ”ظلم خیالات کی طاقت کو مات نہیں دے سکتا۔

“ گو ئبلز کے اس اقدام کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے شروع ہوئے ،صرف امریکہ میں لاکھوں افراد نے نیو یارک، فلاڈیلفیا، شکاگو اور سینٹ لوئیس میں ریلیاں نکال کر احتجاج کیا۔
گوئبلز نے 1931ء میں میگڈا نامی عورت سے شادی کی جو پہلے طلاق یافتہ اور ایک بچے کی ماں تھی ، ہٹلر اس شادی میں بطور گواہ شریک ہوا ، اس شادی سے گوئبلز اور میگڈاکے ہاں چھ بیٹیاں پیدا ہوئیں۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران جب جرمنی کی شکست واضح نظر آنے لگی تو ہٹلر برلن میں زیر زمین بنکر میں چھپ گیا ، گوئبلزاور ہٹلر لازم و ملزوم تھے ،22اپریل 1945ء کو گوئبلز بھی اپنی بیوی اور بچیوں سمیت ہٹلر کے بنکر میں منتقل ہو گیا۔جرمنی کی شکست قریب ہوتی جارہی تھی اوریہ صورت حال گوئبلز اور میگڈا کے لیے ناقابل برداشت تھی ۔وہ جب بھی اپنی بچیوں کو دیکھتے ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے،ادھر اتحادی افواج بھی قریب آتی جا رہی تھیں اور ہٹلراپنی محبوبہ سمیت پہلے ہی خود کشی کر چکا تھا۔

یکم مئی 1945ء کو میگڈا نے رات سونے سے قبل بچیوں کو حکم جاری کیا آج آپ نے دوا کھا کر سونا ہے، بچیوں کے اصرار پر میگڈا نے بتایا کہ انہیں انجکشن کے زریعے دوا دی جائے گی، بچیاں راضی ہو گئیں ، میگڈا نے وہاں موجود ڈاکٹر کو حکم دیا کہ بچیوں کو بے ہوشی کا انجکشن لگا دے ، بچیاں بے ہوش ہوئیں تو میگڈا نے انہیں سائنا سائیڈ کے کیپسول دینے کا حکم دیا، ڈاکٹر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

میگڈا خود آگے بڑھی اور بچیوں کے منہ کھول کر سائناسائیڈ کے کیپسول ان کے منہ میں رکھ کر ان کے جبڑے بند کرتی گئی، بچیاں ہمیشہ کے لیے سو چکی تھی، صبح ہوئی تو میگڈا اور گوئبلز بنکر سے نکل کر اوپر باغ میں آئے،خبر رساں نے بتایا اتحادی افواج بنکر کے قریب پہنچ چکی ہیں،اب اور کوئی رواستہ نہیں تھا، میگڈا نے سائنائیڈ کے کیپسول منہ میں رکھے اور کرچ کرچ کی آواز کے ساتھ زمین پر گر پڑی، میگڈا کے ساتھ ہی گوئبلز نے بھی دماغ میں گولی مار کر خود کشی کر لی،دو دن بعد جب روسی افواج بنکر میں داخل ہوئیں تو انہیں ہٹلر ، گوئبلزاور میگڈا کی لاشو ں کے ساتھ چھ معصوم بچیوں کی لاشیں بھی ملی۔


1925 سے 1945 تک گوئبلز دنیا میں سب سے زیادہ سنا جانے والا سپیکر تھا ، ان بیس سالوں میں وہ ساری دنیا کے میڈیا پر چھایا رہا ، دنیا بھر کا میڈیا اس کے بیانات کو لیڈ اور سپر سٹوری کے طور پر چھاپتا اور نشر کرتا تھا ۔1932 سے 1945 تک جرمن میڈیا کا کوئی دن ایسا نہیں گزراجس دن سینما اور فلم میں اس کا ذکر خیر نہ ہوا ہو، ریڈیو پر روزنہ کروڑوں لوگ اس کا خطاب سننے کے لیے بے تاب رہتے تھے ، 1933 میں نازی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعدجرمن پریس گوئبلز فیملی کے خبریں اور تصاویرروزانہ صفحہ اول پر شائع کرتا تھا۔

انٹرنیشل میڈیا میں یہودی مظالم اور نازی ریلیوں کی کوریج کے دوران گوئبلز سر فہرست ہوتا تھا۔ پورے بیس سال دنیا بھر کے میڈیا اور عالمی منظرنامے پر چھائے رہنے کے باوجود گوئبلز کا انجام کیا ہوا اس سے ساری دنیا واقف ہے، اپنی اور بیوی کی لاش کے ساتھ اسے اپنی چھ معصوم بچیوں کو بھی زہر دینا پڑا، یہ اس پروپیگنڈہ کا انجام تھا جس کی بنا پر وہ پندرہ بیس سال اپنی قوم اور ساری دنیا کو گمراہ کرتا رہا۔

اس قوم کو بھی پچھلے دو سالوں سے گمراہ کیا جا رہا ہے ، بلکہ اس سے بھی قبل جب سے اس ملک میں تبدیلی کی ہوائیں چلنا شروع ہوئی ہیں یہ قوم مختلف قسم کے گوئبلزکے نرغے میں ہے، سیاسی گوئبلز ہر روز میڈیا پر آتے اور سادہ لوح عوام کو گمراہ کر کے چلے جاتے ہیں،یہ گوئبلز کہا کرتے تھے عمران خان آئے گی اور دنیا کا قرضہ ان کے منہ پر مارے گی، یہ کہا کرتے تھے جس دن ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ہم خود کشی کر لیں گے، یہ کہا کرتے تھے ملک سڑکیں بنانے سے نہیں ہسپتال اور یونیورسٹیاں بنانے سے ترقی کرتے ہیں اور یہ کہا کرتے تھے حکمران پٹرولیم اور دیگر مصنوعات پر ٹیکس سے اپنی جیبیں بھرتے میں۔

صحافتی گوئبلز نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کامحاذ سنبھال رکھا ہے،یہ کہا کرتے تھے صرف تین مہینے میں سارا گند صاف ہو جائے گا، پھر کہا چھ مہینے تو ملنے چاہییں،چھ مہینے گزرنے کے بعد دو سال کا راگ الاپتے رہے، اب دو سال گزرے ہیں تو چونکہ چناچہ اور اگر مگر کی گردان دہرا رہے ہیں۔ گوئبلز کی یہ قسم سب سے زیادہ خطرناک ہے،یہ عوام کو سبز، نیلے اور پیلے خواب دکھاکر رائے سازی کرتے تھے،تبدیلی کے انتخاب میں زیادہ نہیں تو پچاس فیصد حصہ انہی میڈیائی گوئبلز کا ہے اور یہ جرمن گوئبلز کے حقیقی وارث اور جانشین ہیں۔

اور رہے گوئبلز اعظم تو ان کی تو بات ہی کیا ہے ،انہوں نے جتنے وعدے اور دعوے کیے تھے کوئی ایک بھی پورا کیا ہو؟ کسی ایک قول پر بھی ثابت قدم رہے ہوں اور کسی ایک بیان پر بھی عمل کیا ہو۔ مستقبل میں اگر کسی موٴرخ نے گوئبلز کا موازنہ کیا تو وہ انہیں جرمن گوئبلز کا جد امجد قرار دے گا۔گوئبلز خواہ جرمن ہو ں یا پاکستانی قدرت انہیں ایک حد تک مہلت دیتی ہے ، لیکن جب یہ پکڑ تی ہے تو انہیں دنیا کے لیے عبرت بنا دیتی ہے ،یہ جرمنی کے گوئبلز کی نسل تک مٹا دیتی ہے اور یہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی پھول جیسی بیٹیوں کو زہر دینے پر مجبور کر دیتی ہے ۔

میرے ملک کے گوئبلوں نے جس طرح اس ملک کو تباہ کیا ہے اور اسے جس سطح پر لا کھڑا کیا ہے قدرت انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی، اس ملک کے غریب طبقے کے لیے روٹی اور روزگار جس حد تک مشکل بنا دیا گیا ہے خاکم بدہن ان گوئبلوں کا حال بھی جرمن گوئبلز سے کم نہیں ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :