حوا کی بیٹیاں اورآدم کا بیٹا پوچھتا ہے

منگل 22 جنوری 2019

Muhammad Junaid Iqbal

محمد جنید اقبال

دو دن سے طبیعت میں عجیب طرح کی بےقراری ہے۔ کل رات تڑپتے گزری۔ آنکھیں کئی بار نم ناک ہوئیں۔ رات دھاڑیں مار کے بھی رویا۔ آنکھوں کی بدنصیبی پہ غصہ آیا۔ شعور اور آگہی عذاب لگی۔ اس دور کا انسان ہونے پہ شرمندگی محسوس ہوئی۔آپ پوچھیں کیوں؟
جی اس لیے کہ کل معمول کے مطابق ٹیلی ویژن پر خبریں سنانے کےلیے چینل تبدیل کیا ۔ تو ایک بڑی خبر جاری تھی میں نے اس خبر کو معمول کی خبر سمجھا لیکن یہ میرے لیے انوکھی خبر تھی۔

میں نے اس سے پہلے ایسی خبر نہیں دیکھی۔ ایک فیملی کو ساہیوال جی ٹی روڈ پر سی ٹی ڈی پولیس نے گولیاں مار کر جان سے ختم کر دیا۔  بیٹا بتا رہا تھا کہ ابو نے کہا پیسے لےلو اہمیں نہ مارو لیکن کسی نے کوئی نہ سنی۔ اور کہہ رہا تھا کہ مجھے انصاف دو۔

(جاری ہے)

میری امی ، بہن ، ابو اور ابو کے دوست کے ساتھ ظالموں نے ظلم کیا ہے۔رب کی تخلیق کی یہ بے حرمتی آنکھوں سے دیکھ کر پریشان ہوگیا ۔

اتنی سفاکیت ؟اتنی جہالت ؟اور وہ بھی ہمارے شہر میں؟ حد ہوگئی پستی کی حدہوگئی جہالت کی۔ ۔مجھے افسوس ہوا اپنے قلم پہ کہ اس قلم کا کیا فائدہ؟ جو قلم کسی فیملی کے ساتھ زیادتی کے موقع پہ نہ اٹھے۔ اس زبان سے کیا فائدہ جو اس ظلم کے خلاف آواز نہ بلند کر سکے۔ ان فقیہوں کے مذہب سے کیا فائدہ جو آدم کی اولاد کے حقوق کی بات نہ کر سکیں۔ ان دانشوروں کی دانشوری سے کیا فائدہ جو غیرت کے نام پر جہالت کی بنی سوچیں نہ بدل سکیں۔

ان قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کیا فائدہ جو ریاست کی نہتی غریب عوام کی حفاظت نہ کرسکیں۔ ان وکلاء سے کیا فائدہ جن کے دلائل ظالموں کے لیے وقف ہوں۔ ان ججوں سے انصاف کی کیا امید جو چند ٹکوں کے عوض بک جائیں۔ ان حکمرانوں کو حق حکمرانی کیوں دیا جائے جو کسی کے چہرہ کو داغدار کرنے والوں پہ ہاتھ نہ ڈال سکیں؟
کیوں نہ قلم کار قلم سے آزاد بند ڈالنا شروع کر دیں۔

کیوں نہ فقیہ شہر کی دستار کے پیچ کھولے جائیں، کیوں نہ عدالت کو معمہ سڑکوں پہ گھسیٹا جائے۔ کیوں نہ وردیاں اتار لی جائیں۔ کیوں نہ دانشوروں کو الٹا لٹکا دیا جائے۔ بنت حوا اور بنت آدم جب سربازار لٹے اور بولنے والا کوئی نہ ہو تو اس معاشرے کو بے حس کیوں نہ کہا جائے۔ ؟شبے کے الزام میں کسی غریب کا خون کر دینا کہاں کا انصاف ہے ؟کس شریعت نے اجازت دی ہے؟اور معاشرہ کی بے حسی دیکھیں غریب عوام کے ساتھ ناروا سلوک کے باوجود انہوں ہیرو ٹھہرایا جاتا ہے۔

اس ظالم پولیس والوں کو کوئی دہشگرد بھی مل سکتا تھا ۔ جبکہ متاثرہ بیٹا کو امی ابو ، بہن اور ابو کا دوست کہا سے ملے گا۔میں انتہائی ادب کے ساتھ علما سے پوچھنا چاہوں گا کہ تشدد کے خلاف کیا کرنا چاہیے؟ تحفظ عوام بل اسلام کے خلاف ہے، معاشرے کے خلاف ہے، تسلیم کیا جائے۔ لیکن آپ اسلامی بل کب لا رہے ہیں؟ان ظالم پہ تو کڑا نہیں ڈالنا چاہیے مان لیا۔

لیکن ان ظالموں سے کیا کرنا چاہیے جو نہتی غریب عوام پر ظالم کر رہے ہیں۔کیا ایسے لوگوں کو سزا نہیں ملنی چاہیے؟کیا یہ انسان کہلوانے کے حقدارہیں؟ کیا ان کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کیا جائے جو یہ نہتی غریب عوام پہ کرتے ہیں؟ جواب دیں۔ کل آدم کی بیٹی اور بیٹا نے مجھ سے پوچھا تھا ؟ آدم کی اولاد کہنے لگی کہ تم ہمارے مجرم ہو؟ تم برابر کے شریک ہو۔

تم مجرموں کی پشت پناہی کرتے ہو۔ اس تاثر کو کب زائل کرو گے؟اور یہ تو معمولی کیس تھا اس سے بڑا کیس جسے آپ نے بھی پڑھا ہوگا کہ ایبٹ آباد میں تین سال قبل ایک غریب اور مزدور باپ کی بیٹی جو نویں کلاس کی طالبہ تھی جنسی زیادتی کے بعد کیری ڈبہ میں باندھ کے زندہ جلا دی گئی۔باپ کراچی کام کرتا ہے مزدور ہے اور ایک مزدور کی بیٹی کے ساتھ یہ سلوک کرنا ہماری تباہی کے لیے کافی ہے۔

قصور میں جنسی زیادتی کے بعد ننھی زنیب کو ہمیشہ کےلئے نید سے سلوا دیا۔ میں کس کس واقعہ کو آپ کے سامنے پیش کروں ۔حیران ہوں آسمان کی مضبوطی پہ۔ حیران ہوں زمین کے سکون پہ۔تھرتھرانے کا یہ موقع تھا اور یہ آرام سے محو تماشا رہے۔ ہم سے وہ لوگ لاکھ درجہ اچھے تھے جو بیٹیاں زندہ دفن کرتے تھے۔ ہم جنس کی آگ بھی بجھاتے ہیں اور پھر جلا کے راکھ کردیتے ہیں۔

ظالم کب بند ہوں گے مجھے یہ تو نہیں معلوم۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ظلم حد سے بڑھ چکا ہے اور جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو مٹ جاتا ہے۔قبل اس کے کہ مظلوم لوگوں ہماری مسجدوں مندروں حجروں عدالتوں اور سیاستدانوں کے گھروں کے باہر آکے انصاف مانگنے لگ جائیں ہمیں خود پہل کرنی چاہیے۔ ہمیں ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔ اللہ نہ کرے ایسا وقت آئے۔ خاکم بدہن خاکم بدہن۔ لیکن میں ایسا دیکھ رہا ہوں کہ اب مظلوم کے ہاتھوں دستاریں گریں گی عدالتوں اور میڈیا کو جوتے کی نوک پہ رکھا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :