خاکے بنانے والوں کو ہم خاک میں ملا دیں گے

پیر 26 اکتوبر 2020

Muhammad Nafees Danish

محمد نفیس دانش

آج کا کالم بہت بوجھل دل کے ساتھ لکھ رہا ہوں ، کیونکہ ادنیٰ مسلمان بھی کبھی بھی تین چیزوں پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار کبھی بھی نہیں ہو سکتا ، قرآن کریم کی بے حرمتی، نبی کریم کی گستاخی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی گستاخی پر ۔
اگر میں عمران خان کی جگہ وزیراعظم پاکستان ہوتا تو آج کم از کم سب سے پہلا کام یہ کرتا کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرتا ، فرانس سے پاکستانی سفیر کو واپس بلاتا اور جب تک فرانس باضابطہ معافی نہیں مانگتا میں کبھی بھی فرانس سے سفارتی تعلقات بحال نہ کرتا ، اگر میں مفتی منیب الرحمن صاحب ، مفتی تقی عثمانی صاحب ، سراج الحق صاحب ، پروفیسر ساجد میر صاحب یا مولانا فضل الرحمن صاحب کی جگہ ہوتا تو آج میں ریاست مدینہ کی دعویدار حکومت کو یہ الٹی میٹم دیتا کہ 30 اکتوبر تک فرانس سے سفارتی تعلقات منقطع کرو ورنہ ہم 12 ربیع الاول کے بعد یکم نومبر کو اسلام آباد میں دھرنا دیں گے کیونکہ اس بار توہین رسالت ﷺ سرکاری سطح پر ہوئی ہے ، فرانس کی سرکار کو سرکاری سطح پر جواب ضروری ہے ، فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے بیان دیا کہ اسلام پوری دنیا میں بحران پیدا کرنے والا مذہب بن گیا ہے ، اس کے بعد فرانس کی سرکاری عمارتوں پر نبی کریم ﷺ کے نعوذباللہ گستاخانہ خاکے بنا کر لٹکائے گئے ہیں ، یہ حرکت دلوں کو ہلا دینے والی ناپاک حرکت ہے ، پونے 2 ارب مسلمانوں کی موجودگی میں ہمارے نبی ﷺ کے گستاخانہ خاکے بنا کر فرانس میں اعلانیہ لگائے گئے ہیں ، ہم فرانس سے احتجاج کریں گے تو ممکن ہے کہ ہمیں مسائل کا سامنا کرنا پڑے ، لیکن ضرور سوچیں کہ کیا ہر بات میں نفع نقصان دیکھا جاتا ہے ، توہین رسالت ﷺ پر آواز اٹھانا ، فرانس سے سفارتی تعلقات ختم کرنا ، اس کی اشیاء کا بائیکاٹ کرنا یہ وقت کی ضرورت ہے ، امام مالک رح نے فرمایا کہ اس امت کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے جس کے نبی کو گالیاں دی جائیں ، میں نہیں سمجھ پایا کہ مولانا فضل الرحمن صاحب اور پروفیسر ساجد میر صاحب جو علماء کرام کو لے کر ووٹ کی عزت کے لئے میدان میں نکلے ہیں ، انہیں آقا ﷺ کی عزت و ناموس کے تقدس کے لئے جدوجہد کیوں یاد نہیں ہے ، حضور ﷺ کی آمد سے قبل انسانیت گمراہی میں مبتلا تھی ، عورت کو حقیر جانا جاتا تھا ، کمزوروں کے حقوق پر سرمایہ دار غالب تھے ، بچیوں کی پیدائیش کے بعد انہیں زندہ دفن کر دیا جاتا تھا ، ایسے میں پیارے نبی کریم ﷺ دنیا میں تشریف لائے ، پیارے نبی ﷺ کی آمد کے بعد مظلوموں محکوموں کو حقوق ملے ، خواتین کو عزت ملی ، بے کسوں کے چہرے کھل اٹھے ، حضور ﷺ نے انصاف کا وہ معیار قائم کیا کہ جانوروں تک کے حقوق کا تعین کردیا گیا ، آقا ﷺ نے فرما دیا کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر فوقیت نہیں ہوگی ، اللہ کی واحدنیت حضور ﷺ کا اعلی کردار اور ایسا شاندار منشور دیکھ کر انسانیت اسلام کی طرف متوجہ ہوئی ، دنیا بھر میں اسلام کے غلبے کا آغاز ہوا ، لیکن ان فتوحات کو دیکھ کر بھی نبی کریم ﷺ نے ظلم و بربریت کا درس نہیں دیا بلکہ حضور ﷺ نے جنگوں میں قید ہونے والے قیدیوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا ، اقلیتوں اور دیگر مذاہب کے ساتھ اچھے برتاو کی روایت قائم کیں ، آپ ﷺ فاتح بنے تو بدلہ نہیں لیا بلکہ معافی کو اپنا شعار بنایا ، اللہ کریم نے آپ ﷺ کو معصوم پیدا کیا ، کبھی گناہ کرنا تو درکنار پیارے نبی ﷺ کے دل و دماغ میں کبھی گناہ کا خیال بھی نہ آیا ، لیکن پھر بھی آپ ساری ساری رات نفل پڑھتے اور رو رو کر اللہ سے دعائیں کرتے سوال کرنے والے سائل نے پوچھ لیا کہ آقا ﷺ آپ تو معصوم ہیں پھر اتنی مغفرت کس کے لئے ، خاتم المعصومین ﷺ نے فرمایا میں اپنی امت کے لئے پرودگار سے مغفرت کا طلبگار ہوں ، وہ نبی ﷺ جو ہمارے لئے رو رو کر دعائیں کرتے تھے ، وہ جو ہمیشہ امت کی فکر میں لگے رہے ، قیامت میں بھی وہ امتی ، امتی کی صدائیں لگائیں گے ، لیکن آج امت مسلمہ اپنے نبی ﷺ کے ساتھ کیا کر رہی ہے ، آزادی صحافت کے نام پر ہمارے ساتھ یہ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے ، فرانس کے چارلی ایبڈو میگزین نے 2014 میں توہین رسالت ﷺ پر مبنی گستاخانہ خاکے شائع کئے تھے ، 2015 میں اس اخبار کے دفتر پر حملہ ہوا تھا جس میں 12 لوگ مارے گئے تھے ، وہ کیس اس سال 14 افراد کے خلاف یکم ستمبر 2020 سے عدالت میں چلنا شروع ہوا تو اس سے پہلے چارلی ایبڈو میگزین نے ایک بیانیہ گھڑا کہ ہم دہشت گردی سے خوفزدہ نہیں ہیں ، اس لئے انہوں نے ستمبر 2020 کے پہلے ہی شمارے میں پھر گستاخانہ خاکے شائع کر دئیے ، جس کے جواب میں پھر اس کے دفتر پر حملہ ہوا ، فرانس میں یہی گستاخانہ خاکے ایک تاریخ کا ٹیچر اپنی کلاس میں شاگردوں کو دکھاتا تھا ، وہ ٹیچر کہتا تھا کہ اگر کسی مسلمان کی ان خاکوں سے دل آزاری ہوتی ہے تو وہ ان خاکوں کو مت دیکھیں ، رواں ماہ وہ ٹیچر بھی مارا گیا ، جس کے بعد اس مسجد کو بھی فرانس میں بند کردیا گیا جس نے اس گستاخ ٹیچر کے خلاف آواز بلند کی ، وہاں گستاخ ٹیچر کے حق میں اور خلاف ریلیاں ہوئیں تو گزشتہ کل فرانس کی سرکاری عمارتوں پر توہین رسالت ﷺ پر مبنی گستاخانہ خاکے لگا دئیے گئے ، اب کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ، معزز علماء کرام کے امت مسلمہ کو کیا کرنا چاہیئے ، اگر اس موقع پر بھی علماء کرام اور مفتیان کرام قوم کی رہنمائی نہیں کریں گے تو کب کریں گے ، وہ جماعتیں جو کسی بھی دوسرے دینی مسئلے میں نہیں الجھی ہیں ، وہ اس موقع پر بھی خاموش کیوں ہیں ، توہین رسالت ﷺ دنیا کا سب سے سنگین جرم ہے ، وہ اس جرم کے خلاف خاموش تماشائی کیوں بنی ہیں ، اگر دینی جماعتیں بھی نہیں اٹھیں گی تو پھر سیاسی جماعتوں سے کیا گلہ ، اس لئے اٹھیں اپنی طاقت کے مطابق اس توہین رسالت ﷺ کے خلاف فرانس کو جواب دیں ، فرانس کی اشیاء کا مکمل بائیکاٹ کریں۔

(جاری ہے)


مسلمانو! حضور اکرم سے اب نہیں تو پھر کب وفا دیکھاؤں گئے ، خاکے بنانے والوں کو خاک میں ملانے کا وقت آگیا ہے، مسلمانو! جاگو اور توہین کرنے والوں کو بتا دو کے ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہم کبھی بھی توہین رسالت پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ابھی کوئی سمجھوتہ ہوگا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :