آئین پاکستان کاآرٹیکل 209

جمعہ 7 اگست 2020

Muhammad Riaz

محمد ریاض

اعلی عدلیہ بشمول ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججز کے احتساب، اہلیت یا طرزعمل کے معاملات کے بارے میں آئین پاکستان کا آرٹیکل 209 رہنمائی کرتا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل/اعلی عدالتی کونسل کا قیام آئین پاکستان کے آرٹیکل 209 کے تحت وجود میں آتا ہے۔ سب سے پہلے سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل یا ترتیب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔


 اعلی عدالتی کونسل درج ذیل ججز پر مشتمل ہوتی ہے۔
1 چیف جسٹس آف پاکستان
2 سینئر ترین ججز آف سپریم کورٹ
3 سینئر ترین ترین چیف ججز آف ھائی کورٹس
سپریم جوڈیشل کونسل کے مقاصد میں عدالت عالیہ یا عدالت عظمی کے ججز کے طرزعمل, بدعنوانی, ذہنی جسمانی حالت کے بناء پر آیا جج مزید کام کرنے کے قابل ہے یا نہیں اسکے علاوہ ججز کے لئے ضابطہ اخلاق بنانا بھی شامل ہے.
یہ شکایت، صدر پاکستان ریفرنس کی صورت میں سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجتا ہے یا سپریم جوڈیشل کونسل خود سے ہی اطلاع ملنے پر اپنی تحریک/ Motion کے ذریعہ سے کاروائی شروع کرتی ہے.
سپریم جوڈیشل کونسل ججز کے معاملات میں سے سے بڑا ادارہ ہے جس کے پاس سپریم کورٹ کی طرح کے حاصل کردہ آئینی اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)


ٓآئین پاکستان کے آرٹیکل 210 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس سپریم کورٹ کے مساوی اختیارات ہیں ، جس کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کسی بھی شخص، دستاویزات یا کسی بھی طرح کے آرڈر کرنے کا اختیار ہے۔
توہین عدالت کے لئے آئین کے آرٹیکل 204 کا اطلاق جیسا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اور ھائی کورٹس پر لاگو ہوتا ہے ویسا ہی اس آرٹیکل کا اطلاق سپریم جوڈیشل کونسل پر بھی ہوتا ہے۔

یعنی اگر کوئی شخص یا ادارہ سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتا یا سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی میں دخل اندازی یا توہین کرتا ہے تو آئین کے آرٹیکل 204 کا اطلاق اس شخص یا ادارہ پر بھی لاگو ہو جائے گا۔
پاکستان میں گزشتہ ایک سال سے قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی کاروائی کی صدائے بازگشت رہی ۔
جہاں تک معاملہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے ریفرنس کا تھا توحکومت پاکستان نے صدر پاکستان کے ذریعہ سے اک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کیا جسمیں سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایات دیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ کے سینئر جج قاضی فایز عیسی کے خلاف انکوائری اور تحقیقات کرے کہ جج نے اپنے انکم ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس کے گوشواروں میں لندن میں تین عدد جائیدادوں کا ذکر نہیں کیا ۔

جس میں یہ شبہ ظاہر کیا گیا کہ لندن کی یہ جائیدادیں جو جج کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں کہیں غیرقانونی طریقے سے بھیجی گئی رقوم کے ذریعہ سے تو حاصل نہیں کی گئی۔
 جسٹس قاضی فائز عیسینے اپنی آئینی درخواست 17/2019 اور دیگر درخواستیں سپریم کورٹ میں جمع کروائی اور صدر پاکستان کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنچ کردیا جس میں انہوں نے درج ذیل استدائیں کیں:
(۱) جج کو ہٹانے کے لئے بدنیتی کی بناء پر بنائے گئے صدارتی ریفرنس کو ختم کیا جائے
(۲) سپریم جوڈیشل کونسل کے ان کیمرہ کاروائی کو غیر قانون اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جائے
( ۳) انکی تمام آئینی درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے فل بینچ میں کی جائے
(۴) یہ قرار دیا جائے کہ شہزاد بٹ کے سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجے گئے ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل کے موجودہ چیرمین (چیف جسٹس) آصف سعید کھوسہ اور دیگر ممبران کے تعصب پر مبنی فیصلہ کی بناء پر قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کو تمام ممبران سپریم جوڈیشل کونسل سننے کے مجاز نہیں ہیں۔


 جسٹس قاضی فائز عیسی نے ثابت کرنے کی کوشش کی اور جس میں وہ کامیاب بھی رہے کہ صدر پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان نے اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کیااور بدنیتی سے ریفرنس دائرکیا۔ اور عدالت عظمی کو بتایا کہ ریفرنس دائر کرنے سے پہلے ہی حکومت پاکستان نے عدالت عظمی کے اک سینئر جج کے خلاف تحقیقات اور جاسوسی کروائی جبکہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ججز کے خلاف تحقیقات کرنے کا اختیار صرف اور صرف سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس ہی ہے۔


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا سپریم کورٹ آف پاکستان ججز کے بارے میں سپریم ادارہ ہے یا پھر سپریم جوڈیشل کونسل۔یقینی طور پر سپریم جوڈیشل کونسل ہی ججز کے بارے میں پاکستان کا سب سے بڑا آئینی ادارہ ہے تو پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنی قانونی جنگ سپریم جوڈیشل کونسل میں لڑنے کی بجائے سپریم کورٹ آف پاکستان میں کیوں لڑی؟
اسکی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اس وقت کے سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ جو چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ اور دیگر ممبران کے خلاف عدم اعتماد / اورججز کا انکے خلاف تعصب کا اظہار کیاتھا۔


سب سے اہم نقطہ: آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک اس میں چیف جسٹس آف پاکستان شامل نہ ہو۔
 چونکہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ممبران پر تعصب کا اظہار کیا تھا اس بناء پر یہ تمام قانونی جنگ سپریم جوڈیشل کونسل کی بجائے سپریم کورٹ آف پاکستان میں فل بینچ کے سامنے لڑی گئی۔


 انکے اس مؤقف پر پاکستان کی تمام صوبوں کی بار کونسلز سپریم کورٹ بار کونسل, پاکستان بار کونسلز ہائیکورٹ بار کونسلز نے بھرپور اظہار یکجہتی کیا اور ساتھ ہی ساتھ بار کونسلز کی طرف سے بھی حکومتی ریفرینس کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں جمع کروا دی۔ مختلف بار کونسلز نے دعوی کیا کہ اس صدارتی ریفرنس کے پیچھے فیض آباد دھرنا میں قاضی فائز عیسی کے لکھے گئے فیصلہ کے محرکات ہیں۔


ایک سال تک رہنے والی اس قانونی جنگ کا مختصرفیصلہ بالآخر 19-06-2020 کودیا گیا۔تفصیلی فیصلہ بعد میں دیا جائے گا۔ ۔ مختصرفیصلہ کے مطابق صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور مالی معاملات کی مزید انکوائری FBRکے حوالے کردی گئی۔اور FBRکی رپورٹ آنے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل معاملہ کو دوبارہ دیکھے گی۔
بعض قانونی ماہرین کے نزدیک معاملہ FBR کو بھیجنے پر اعتراضات ہیں۔ سپریم کورٹ کا ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں آیا اور نہ ہی FBR کی رپورٹ جاری ہوئی ہے۔اس لئے اس کیس پر مزید بحث یا تبصرہ قبل از وقت ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :