عدالت عظمیٰ کے اختیارات

جمعہ 18 ستمبر 2020

Muhammad Riaz

محمد ریاض

الیکٹرانک میڈیا ہو، پرنٹ میڈیا ہو یا پھر سوشل میڈیا ہر روز کوئی نہ کوئی خبر پاکستان کی سپریم کورٹ یعنی عدالت عظمی ٰ کے حوالہ سے دیکھنے سننے کو ملتی ہے۔ چلیں آج یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر سپریم کورٹ کیا ہے؟ سپریم کورٹ کس طرح سے کام کرتی ہے ؟ اور سپریم کورٹ کے کون کون سے اختیارات ہیں؟
سپریم کورٹ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ہے اور قانونی اور آئینی تنازعات کے تصفیہ اور انصاف کے حصول کے لئے آخری فورم یعنی آخری دروازہ ہے۔

جہاں پر انصاف کے حصول کے لئے دستک دی جاسکتی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کا وجود آئین پاکستان کے آرٹیکل 175 اور آرٹیکل 176 کے تحت وجود میں آتا ہے۔عدالت عظمیٰ ایک چیف جسٹس جسے چیف جسٹس آف پاکستان کہا جاتا ہے اور دیگر ججوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

آئین پاکستان کے تحت عدالت عظمی کا مستقل صدر مقام اسلام آباد ہے ۔اور تمام صوبوں کے دارلحکومتوں میں بھی سپریم کورٹ کے رجسٹری آفس بھی موجود ہیں ، جہاں پر مختلف نوعیت کے بینچ بھی انصاف کی فراہمی مہیا کررہے ہیں۔


عدالت عظمی کے درج ذیل اختیارات ہیں
(a)ابتدائی اختیار سماعت
(b)اختیار سماعت اپیل
(c)مشاورتی اختیار سماعت
ابتدائی اختیار سماعت:
(i)آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان دو یا دو سے زائد (وفاقی اور صوبائی) حکومتوں کے مابین تنازعہ میں ابتدائی اختیار سماعت رکھتی ہے۔
(ii)آئین پاکستان کے آرٹیکل 199 کے احکام پر اثر انداز ہوئے بغیر اگر عدالت عظمی یہ فرض کرتی ہے کہ آئین پاکستان کے ذریعے تفویض شدہ بنیادی حقوق میں سے کسی کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا ایک سوال موجود ہے تو عدالت عظمی اس اختیار سماعت کے استعمال کے ذریعے ایک حکم دینے کا اختیار رکھتی ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان ا سی آرٹیکل کے تحت سوموٹو نوٹس لیتی ہے۔
 اختیار سماعت اپیل:
آئین کے آرٹیکل 185 کے تحت عدالت عظمی کو کسی عدالت عالیہ (ہائیکورٹ) کے صادر کردہ فیصلوں، ڈگریوں، حتمی احکام یا سزاؤں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کرنے اور فیصلہ صادر کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ لہذا کسی ہائیکورٹ کے صادر کردہ کسی فیصلے، ڈگری، حتمی حکم یا سزا کے خلاف اپیل عدالت عظمیٰ میں دائر کی جاسکتی ہے۔

عدالت عظمیٰ درج ذیل معاملات میں اپنا اپیل کی سماعت کا اختیار استعمال کرتی ہے:
(i)بری ہونے کے ایک حکم کو بدل دینا
(ii)ایک حکم سزا کا بڑھانا
(iii)ایک مقدمہ کو واپس لینا
(iv)عدالت عالیہ کی توہین
(v)جائیداد کے حوالے سے کوئی دعویٰ
(vi)آئین کی تشریح
مشاورتی اختیار سماعت:
آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت اگر کسی وقت صدر پاکستان مناسب خیال کرے کہ کسی قانونی مسئلہ کے بارے میں جس کو وہ عوامی اہمیت کا حامل خیال کرتا ہو، عدالت عظمیٰ کی رائے حاصل کی جائے تو وہ اس مسئلے کو عدالت عظمیٰ کے غور کے لئے بھیج سکتا ہے۔

عدالت عظمیٰ اس مسئلہ پر غور کرے گی اور صدر پاکستان کو اس مسئلے کے بارے میں اپنی رائے سے مطلع کرے گی۔
ازخود نوٹس یا سوموٹو نوٹس:
آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت درج ذیل حالات میں جب آئین پاکستان میں درج بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہو تو عدالت عظمیٰ ازخود اختیارات کا استعمال کرسکتی ہے یعنی سوموٹو ایکشن لے سکتی ہے۔


(i)بنیادی حقوق کے متضاد یا منسوخی میں قوانین
(ii)فرد کی سلامتی کے معاملات
(iii)بغیر وجہ بتائے گرفتاری، نظربندی اور وکیل کے ذریعے مشاورت اور دفاع کے حق سے محرومی۔ اور اگر کسی فرد کو گرفتار کیا جائے مگر 24 گھنٹوں کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہ کیا جائے
 (iv)کسی فرد کو غیر جانبدارنہ سماعت کے حق سے انکار یا محروم کرنا
(v)غلامی، جبری مزدوری، مشقت
(vi)ایسا فعل جو کہ قانون کی رو سے قابل سزاء نہیں ہے مگر سزا دی جائے یاقانون کے مطابق سزاء سے زیادہ سزاء دے دی جائے
(vii)معقول اور پرامن نقل وحرکت، اجتماع اور انجمن سازی کی آزادی کو نظرانداز کیا جائے
(viii)قانونی تجارت، کاروبار اور پیشے کی آزادی سے انکار کیا جائے
(ix)تقریر اور معلومات کی آزادی کو نظرانداز کیا جائے
(x)کسی شخص کی عزت اور گھر کی خلوت یعنی پرائیویسی کی خلاف وزری ہو یا کسی شخض کی گواہی کے لئے اسے اذیت دی جارہی ہو
(xi)مذہب کی پیروی اور مذہبی اداروں کے انتظام کرنے کی آزادی سے انکارکیا جارہا ہو
(xii)کسی مخالف مذہب کے شخص کو اپنے مذہب کی تشہیر اور ترویج کے لئے محصول ادا کرنے کے لئے مجبور یا قائل کیا جارہا ہو
(xiii)کسی مخالف مذہب کے شخص کو زبردستی دوسرے مذہب کی تعلیم اور مذہبی رسم میں حصہ لینے یا مذہبی عبادت میں حاضر ہونے کے لئے مجبور کیا جارہا ہو
(xiv)کسی کے حقوق جائیداد کی خلاف ورزی یا انکار کیا جارہا ہو
(xv)کسی شخص سے قانون کے سامنے مساوی سلوک نہ کیا جارہا ہو،رنگ نسل جنس کی بنیاد پرشہریوں سے عدم مساوات کی جارہی ہو
(xvi)کسی شخض کو تعلیم کے حق سے محروم کیا جارہا ہو
(xvii)پبلک مقامات میں داخلے کے حوالے سے نسل، مذہب، جنس، رہائش یا جائے پیدائش کی بنیاد پر امتیاز کیا جارہا ہو
(xviii)ملازمتوں کی تقرری میں نسل، مذہب، ذات، جنس، رہائش یا جائے پیدائش کی بنیاد پر امتیاز کیا جارہو
(xix)شہریوں کے کسی طبقہ کی زبان، رسم الخط اور ثقافت کے تحفظ اور فروغ کو خطرات لاحق ہوں
(xx)ایک ہی جرم میں ایک شخص کو ایک دفعہ سے زائدکارورائی یا سزاء دی جارہی ہو یا ایک شخص کو اپنے خلاف ایک گواہ کے طور پر قائل کیا جارہا ہو
درحقیقت عدالت عظمیٰ انصاف کے حصول کے لئے پاکستانی عدالتی نظام کا آخری دروازہ ہے جہاں پر سائل انصاف کے حصول کے لئے دستک دے سکتا ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :