پاکستان میں سود کے خاتمہ کیلئے کی جانے والی کوششیں

پیر 8 مارچ 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

گذشتہ تحریر ”سودی نظام، اللہ اور رسول  ﷺ کے خلاف اعلان جنگ ہے“ میں قرآن و حدیث کی روشنی میں سود کی حرمت کے متعلق تفصیلی نوٹ بیان کیا گیا، آج کی تحریر میں پاکستان میں انسداد سود کے متعلق تحریک و جدوجہد کو قلم بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لاالہ الاللہ محمد رسول اللہ کے نام پر بننے والی ریاست پاکستان کے آئین میں درج چند آرٹیکلز پیش خدمت ہیں: آرٹیکل 2  کے مطابق  Islam shall be the State religion of Pakistan یعنی اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا، آرٹیکل 38 (f)  میں واضح طور پر درج ہے کہ The State shall eliminate riba as early as possible یعنی ریاست پاکستان جلد سے جلد ربا یعنی سود کو ختم کرے گی۔

آرٹیکل227 (1)  کے مطابق  تمام موجودہ قوانین کوقرآن و سنت میں موجود اسلامی تعلیمات کے مطابق کیا جائے گا، اور مملکت میں ایسا کوئی قانون نافظ نہیں کیا جائے گا جو اسلامی تعلیمات کے مطابق نہ ہو۔

(جاری ہے)

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو پاکستان کے قیام کے بعد قوم و ملت کی مزید خدمت کرنے کا موقع نہ مل سکا اور انکے بعد آنے والے ہر ادوار میں سود کے متعلقہ حکومتی سطح پر برائے نام اور لفاظی سطح پر ہی کوششیں کی گئی مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہوئے۔

بہرحال تاریخ کے جھروکوں سے چنداہم ترین کوششوں کا تذکرہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔1956 کے آئین اور 1962 میں تشکیل پائے جانے والے آئین‘ دونوں میں صاف اور غیر مبہم طور پر یہ بات درج تھی کہ حکومتِ پاکستان نظامِ معیشت سے سود کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے بھر پور کوشش کرے گی۔ اس کے بعد 1973 کے آئین‘ جو کہ ہماری تاریخ کا متفقہ آئین اور دستور مانا جاتا ہے‘ میں کہا گیا ہے”حکومت جس قدر جلد ممکن ہوسکے ربا کو ختم کرے گی۔

“ 1962 کے آرٹیکل 38 کی ذیلی دفعہ میں آئین کی تشکیل کے علاوہ قومی سطح پر اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے ایک دستوری ادارہ قائم کیا گیا جس میں تمام مسالک اور مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے مستند علماء کرام کو نمائند گی دی گئی۔ اس ادارے کے فرضِ منصبی میں یہ بات شامل کی گئی کہ یہ ادارہ ایسی تجاویز مرتب کرے گاجن پر عمل کر کے پاکستانی عوام کی زندگیوں کو اسلامی ڈھانچے میں ڈھالا جاسکے۔

چنانچہ 3دسمبر 1969ء کو اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اپنی ایک رپورٹ میں اتفاقِ رائے سے اس امر کا اظہار کیا کہ ”ربا اپنی ہر صورت میں حرام ہے اور شرح سود کی کمی بیشی سود کی حرمت پر اثر انداز نہیں ہوتی“۔ مزید یہ کہ موجودہ بینکاری نظام کے تحت افراد‘ اداروں اور حکومتوں کے درمیان قرضوں اور کاروباری لین دین میں اصل رقم پر جو اضافہ یا بڑھوتری لی یا دی جاتی ہے وہ ربا کی تعریف میں آتی ہے۔

سیونگ سرٹیفکیٹ میں جو اضافہ دیا جاتا ہے وہ بھی سود میں شامل ہے۔ پرویڈنٹ فنڈ اور پوسٹل بیمہ زندگی وغیرہ میں جو سود دیا جاتا ہے وہ بھی ربا میں شامل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صوبوں‘ مقامی اداروں اور سرکاری ملازمین کو دیے گئے قرضوں پر اضافہ بھی سود ہی کی ایک قسم ہے‘ لہٰذا یہ تمام صورتیں حرام اور ممنوع ہیں۔کونسل کی مذکورہ بالا رپورٹ کے 8سال بعد 1977ء میں صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے کونسل کو ہدایت کی کہ کونسل ضروری تحقیق اور تفتیش کے بعد ایسے طریقے بھی تجویز کرے جن کو اپنا کر سود جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جاسکے۔

چنانچہ کونسل نے 25جون 1980ء کو اپنی رپورٹ صدرِ پاکستان کے سامنے پیش کردی۔۔ لیکن قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے ملک کی افسر شاہی نے اس رپورٹ پر عمل درآمد کے ضمن میں سنجیدہ کوششیں نہیں کیں اور کچھ نیم دلانہ انداز میں اور بہت ہی محدود پیمانے پر مشارکہ‘ مضاربہ‘مرابحہ اور بیع مؤجل ایسے انداز سے متعارف کروائیں کہ خاطر خواہ نتیجہ اور خیر برآمد نہ ہوسکا۔

چنانچہ کونسل نے ایک اور revised report تیار کی جن میں ان الفاظ میں تنبیہہ اور اظہارِ افسوس کیا گیا کہ ”کونسل نے - 81 1980میں کیے جانے والے ان اقدامات کا جائزہ لیا جو حکومت نے اسلامی نظامِ معیشت کے نفاذ کے سلسلے میں انجام دیے ہیں‘ ان میں خاتمہ سودکے لیے کیے جانے والے اقدامات ان سفارشات کے بالکل برعکس ہیں جو کونسل نے تجویز کیں۔حکومت نے وہ طریقہ اختیار کیا جو مقصد کو فوت کرنے کا سبب بن گیا۔

“کونسل کی تنبیہات کا حکومتِ وقت پر جب کوئی اثر نہ ہوا تو 1990میں ایک پاکستانی محمود الرحمن فیصل نے وفاقی شرعی عدالت‘ جو کہ اسلامی قوانین کے مطابق اور اسلامی احکام کے تحت فیصلہ دینے کے لیے وجود میں لائی گئی تھی‘ میں ایک پٹیشن نمبر 30/1داخل کی اور عدالت سے استدعا کی کہ رائج الوقت سودی نظامِ معیشت کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کی جائے اور حکومتِ وقت کو ہدایت کی جائے کہ پاکستان کے معاشی نظام سے سود جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جائے۔

وفاقی شرعی عدالت نے اس کیس اور اسی سے ملتے جلتے 114دیگر کیسز کی مشترک سماعت کی اور اکتوبر 1991میں 157صفحات پر مشتمل اپنا تاریخی فیصلہ سنایا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں نہ صرف یہ کہ سود کی ایسی تعریف متعین کی جسے معیار بنا کر مروّجہ نظامِ معیشت میں پائے جانے والے سودی معاملات اور آئین اور دستور میں مذکور سودی دفعات کا جائزہ لیا جاسکتا تھا‘ بلکہ رائج تمام سودی قوانین (22قوانین) کا جائزہ لے کر بینکنگ سمیت تمام سودی لین دین کو حرام قرار دیا اور وفاقی حکومت اور تمام صوبوں سے بھی کہا کہ وہ 30جون 1992ء تک متعلقہ قوانین میں تبدیلی کرلیں اور یہ بھی کہ یکم جولائی 1992ء سے تمام سودی قوانین غیر آئینی ہوجائیں گے اور تمام سودی کاروبار غیر اسلامی ہونے کی بنا پر ممنوع قرار پائے گا۔

لیکن دوسری طرف سود خوروں اور بینکوں کو فکر لاحق ہوگئی کہ ان کا پھیلایا ہوا سودی قرضوں کا جال کہیں کمزور نہ پڑ جائے اور حکومت کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ کہیں بین الاقوامی سطح پر قرضوں کے حصول میں مشکلات نہ پیدا ہو جائیں اور یہ بھی کہ کہیں تجارتی سرگرمیاں موقوف نہ ہوجائیں۔ چنانچہ 30جون کے آنے سے پہلے پہلے مالیاتی اداروں‘ بینکوں اور بعض افراد نے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر دیں۔

یہ اپیلیں فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بن گئیں اور سات سال تک سرد خانے میں پڑی رہیں۔ بالآخر 1999کے اوائل میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک شریعت اپیلیٹ بینچ تشکیل دیا گیا جس نے کئی ماہ تک مسلسل ان اپیلوں کی سماعت کی۔ پانچ رکنی اس بینچ میں جناب جسٹس خلیل الرحمن خان بطور چیئر مین شریک تھے‘ جبکہ جناب جسٹس وجیہہ الدین‘ جناب جسٹس منیر اے شیخ‘ جناب جسٹس مفتی مولانا تقی عثمانی اورجناب جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی بطور ممبر شامل تھے۔

سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو عمومی طور پر درست قرار دیتے ہوئے جدید بینکاری سمیت تمام دیگر سودی قوانین کو اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ممنوع اور حرام قرار دے دیا اور حکومتِ وقت کو مزید مہلت دیتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ وہ جون 2001تک تمام غیراسلامی قوانین کو نئے قوانین سے بدل کر بینکنگ سمیت دیگر معاشی معالات کو سود سے پاک کردے۔

مگرجون 2001 ء آنے سے پہلے پہلے حکومت نے ایک درخواست شریعت بینچ کے سامنے دائر کی جس میں فاضل عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ سودی نظام کو ختم کرنے کے لیے مزید دو سال کی مہلت دی جائے۔ بظاہر یہ درخواست حکم امتناعی کی عرضی تھی جو جون2001ء سے پہلے ہی UBLکے ذریعے داخلِ دفتر کروائی گئی تھی۔ چنانچہ اس عرضی کی بنیاد پر عدالت نے درخواست منظور کرتے ہوئے دو سال کی بجائے ایک سال کی مہلت دی اور ہدایت کی کہ جون2002ء تک مطلوبہ آئینی و انتظامی اقدامات مکمل کرلیے جائیں۔


جب عدالت کی دی ہوئی مہلت ختم ہونے کو آئی تو UBLکی جانب سے اب نظر ثانی کی ایک درخواست عدالت میں داخل کی گئی۔سب سے اہم بات یہ کہ  نظر ثانی کی درخواست کی سماعت جس بینچ نے کی اُس میں سابقہ بینچ کے شرکاء میں سے صرف جسٹس منیر اے شیخ باقی رہ گئے اور باقی تمام حضرات کی نئے ججز کے طور پر تقرری عمل میں لائی گئی۔شیخ ریاض احمد کی سربراہی میں نئے تشکیل کیے گئے شریعت اپیلیٹ بینچ میں ہونے والی کارروائی کا خلاصہ اور حاصل یہ ہے کہ نظر ثانی کی اس درخواست پر UBLکے وکیل راجہ محمد اکرم نے 12جون2002ء کو بحث کا آغاز کیا۔

چند دن کی مختصر سماعت کے بعد نظرثانی کے لیے تشکیل کردہ بینچ نے انتہائی عجلت میں 24جون 2002ء کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے شریعت اپیلیٹ بینچ کا 23دسمبر 1999کا فیصلہ اور وفاقی شرعی عدالت کا 14نومبر 1991کا فیصلہ بیک جنبش قلم منسوخ کردیا اور مقدمے کو ازسرِ نوسماعت کے لیے دوبارہ وفاقی شرعی عدالت میں بھیجنے کے احکامات صادر کردیے۔ اس طرح اس عدالت نے سابقہ نصف صدی کی طویل کوششوں پر پانی پھیر دیا۔

قصہ مختصر یہ کہ اب سود کا مقدمہ ایک مرتبہ پھر اپنے بالکل ابتدائی مرحلے میں پہنچ کر وفاقی شرعی عدالت کے سامنے ہے اور اس میں 2002ء کی PCO عدالت کے فیصلے کے ذریعے بہت سے ایسے مباحث کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے جن پر سابقہ دو مقدمات میں تفصیل کے ساتھ بحث ہوچکی ہے اور بہت وضاحت کے ساتھ فیصلہ دیا جاچکا ہے‘ اور اس کے ساتھ ساتھ بہت سے نئے مباحث کا ڈول بھی ڈال دیا گیا ہے جو اس مقدمے کو ایک نئی جہت کی طرف لے جانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔

حکومت پاکستان اپنے آئین کی رو سے اس بات کی پابند ہے کہ سود کو ختم کر ے‘ جس کے حکومت نے بارہا وعدے بھی کیے ہیں۔ اب وفاقی شرعی عدالت نے نظرثانی کے لیے مقدمہ کی سماعت شروع کر دی ہے۔ فاضل عدالت سے درخواست ہے کہ اپنے سابقہ فیصلہ کو بحال کر دے اور حکومت کو اس کی تنفیذ کے لیے اقدامات کرنے کا حکم جاری کر دے۔ فاضل عدالت کے سابقہ فیصلہ پر پہلے بھی دنیا بھر کے علماء اور فقہاء اور دینی جماعتوں نے اظہارِ مسرت کیا اور فاضل عدالت کو خراج تحسین پیش کیا‘اب بھی فاضل عدالت اپنا فیصلہ بحال کر ے گی تو امتِ مسلمہ کی عظیم خدمت ہو گی اورعدالت کا فیصلہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ ان شاء اللہ!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :