قائداعظم ، رنجیت سنگھ مجسمات اور نازیبا ویڈیوز پر دوغلا پن

ہفتہ 2 اکتوبر 2021

Muhammad Riaz

محمد ریاض

اتوار 26 ستمبرکوسینیٹر سرفراز بگٹی نے ٹوئٹرپربانی پاکستان کے مجسمہ کو بم سے اڑانے کے واقعے پر کہاکہ قائداعظم کے مجسمہ پر حملہ دراصل نظریہ پاکستان پر حملہ ہے میں حکام سے اپیل کرتا ہوں اس واقعے میں ملوث لوگوں سے ویسے ہی نمٹا جائے جیسے زیارت میں قائداعظم کے گھر پر حملہ کرنے والوں سے نمٹا گیا تھا۔ ادھر وزیراعلیٰ جام کمال خان نے قائد اعظم محمد علی جناح کے مجسمہ پر دستی بم حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور متعلقہ حکام کو حملہ کرنے والوں کو فوری گرفتار کرنے کی ہدایت کی ہے۔

یاد رہے اسی سال اگست کے مہینہ میں پنجاب کے سابقہ سکھ حکمران رنجیت سنگھ کے مجسمہ کو اک مذہبی جماعت کے نوجوان نے توڑ ڈالا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کی دیر تھی ہر طرف سے اس واقعہ کی مذمت کی سدائیں سننے کو ملیں یہاں تک کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات جناب فواد چوہدری صاحب نے بھی اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے درج ذیل ٹویٹ کیا۔

(جاری ہے)

Shameful this bunch of illiterates are really dangerous for Pakistan image in the world۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ ریاست پاکستان کی ملکیت کسی بھی شے، املاک کو نقصان پہنچانا قابل مذمت اور قابل گرفت قانون حرکت ہے۔ رنجیت سنگھ کے مجسمہ کے ساتھ ہونے والے واقعہ پر پاکستان کے تمام مکاتب فکرکے افراد نے پرزور مذمت کی تھی، حکومتی اپوزیشن اراکین، پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر باقاعدہ پروگرامز کئے گئے جس میں اس واقعہ کی نا صرف پرزور مذمت کی گئی بلکہ نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے شدت پسند رویوں بارے سیر حاصل گفتگو بھی سننے، دیکھنے کو ملی۔

مگر افسوسناک پہلو یہ بھی کہ ہمارے وزیر اطلاعات جو سکھوں کے پسندیدہ حکمران کے مجسمہ کی بے حرمتی پر تو ٹویٹ کرتے ہیں مگر انکی جانب سے بانی پاکستان قائد اعظم کے مجسمہ کی بے حرمتی پر کوئی ٹویٹ دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس کو بدقسمتی کہا جائے یا پھر دوغلا پن کہ سکھوں کے لئے قابل احترام رنجیت سنگھ  (جس کے مسلمانوں کے ساتھ مظالم تاریخ کا حصہ ہیں) کے مجسمہ کے ساتھ ہونے وا لے و اقعہ پر ہماری سول سوسائٹی، میڈیا سیاسی، سماجی رہنما  تو بڑے ہی شد و مد کے ساتھ مذمتی الفاظ کہتے ہوئے دیکھائی دئیے مگر افسوسناک پہلو یا دوغلا پن کہ لیں کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مجسمہ کی بے حرمتی پر سوائے بلوچستان حکومتی وزرا کے کسی کو مذمت کرنے کی توفیق بھی نہ ہوسکی۔

یچھلے دنوں مفتی عبدالعزیز ویڈیوز سکینڈل منظر عام پر آتے ہی مجھ سمیت پاکستانیوں کی اکثریت نے کھل کراس واقعہ کی ناصرف مذمت کی بلکہ مفتی عبدالعزیز کوقرار واقعی سزا دلوانے کے لئے حکومت وقت پر اس قدر پریشر ڈالا گیا کہ پوری حکومتی مشینری حرکت میں آئی اور مفتی عبدالعزیز کو چند دنوں میں قانون کی گرفت میں لے لیا گیا۔ راقم نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے مفتی عبدالعزیز کے خلاف کالم لکھے جس کی بناء پر راقم کو اک طبقہ کی جانب سے بہت سی گالیوں، بددعاؤں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

حالانکہ مفتی عبدالعزیز کی ویڈیوز تازہ نہیں بلکہ بہت پرانی تھیں۔ مفتی عبدالعزیز کے خلاف ویڈیوز کی بنا ء پر مقدمہ بنایا جاتا ہے، مفتی عبدالعزیز کے خلاف پوری شد ومد کے ساتھ قانونی چارہ جوئی شروع ہے اور قوی امکان کے ہے کہ بہت جلد مفتی عبدالعزیز اپنے منتقی انجام کو پہنچ جائیں گے۔ مگر دوسری طرف حال ہی میں پاکستان مسلم لیگ ن کے لیڈران کے ترجمان اور صوبہ سندھ کے سابقہ گورنر محمد زبیر کی نازیبا ویڈیوز منظر عام پر آتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک دن شور مچتا ہے، موصوف ان ویڈیوز کو جعلی اور من گھڑت قرار دیتے ہیں۔ حیران کن طور وہ میڈیا جس نے مفتی عبدالعزیز واقعہ پر سر پر آسمان اُٹھایا ہوا تھا، سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ نہ کوئی ٹاک شو اور نہ ہی کوئی مذمتی بیانات۔ میڈیا کے کچھ حلقوں سے تو باقاعدہ طور پر محمد زبیر کے حق میں بیانات جاری کئے گئے۔ کچھ نے کہا کہ اگر رضا مندی سے کاروائی ہوئی تو پھر خیر ہے اور اگر اپنے سرکاری اثرورسوخ کی بناء پر یہ ہوا تو محمد زبیر کی جواب طلبی ہونی چاہئے۔

حد تو یہ ہے کہ کچھ سیاسی لیڈران نے اس واقعہ کو محمد زبیر کا ذاتی معاملہ قرار دے کرقصہ ہی ختم کردیا۔میڈیا سے منسوب بہت سے سنیئر تجزیہ کار اور اینکر خواتین وحضرات محمد زبیر کے واقعہ پر مٹی پاؤ حکمت عملی اپنانے اور مذہب اسلام ہی کی تعلیمات کے مطابق گناہوں پر پردہ ڈالنے کا درس سنا رہے ہیں۔ کیا یہ ہمارا دوغلا پن نہیں ہے کہ اگر کوئی مذہبی شخصیت گناہ کربیٹھے تو ہم فورا اپنی توپوں کے رخ مذہب اسلام سے منسوب اداروں مساجد مدارس اور دینی شخصیات کے خلاف کردیتے ہیں اور ہر روز گولہ بھاری اور منہ سے زہر اُگلتے دیکھائی دیتے ہیں اور اس مذہبی شخصیت یا جماعت کے خلاف شدو مد سے قانونی گرفت کی باتیں کرتے ہیں۔

کیا کسی سیاسی، سماجی سول سوسائٹی اور میڈیا  کے نمائندگان نے مفتی عبدالعزیز کی طرح محمد زبیر کے خلاف اپنی زبان اور قلم سے احتجاج کیا؟ کیا کسی نے محمد زبیر کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور قانون کو حرکت میں لانے کا مطالبہ کیا؟ اسی طرح کیا کسی نے قائداعظم کے مجسمہ کی بے حرمتی پر بھی رنجیت سنگھ کے مجسمہ کی بے حرمتی جتنی تکلیف محسوس کی؟  اگر نہیں تو کیا اس کو منافقت کہا جائے گا یا پھر دوغلا پن؟ کیا ایسے رویوں کو مذہب اسلام اور بانیان پاکستان کے ساتھ بغض سے تشبیہ نہیں دی جائے گی؟ پہلی بات اگر تو محمد زبیر والی ویڈیوز بالکل حقیقت پر مبنی ہیں تو حکومت وقت کو انکے ساتھ بھی مفتی عبدالعزیز جیسی قانونی چارہ جوئی کرنی چاہئے اور اگر یہ ویڈیوز جعلی ہیں تو محمد زبیر کوجعلی ویڈیوز بنانے اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے والوں کے خلاف مکمل قانونی چارہ جوئی کرنی چاہئے تاکہ پوری قوم حقائق سے آگاہ ہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :