عطار کے پرندے میرے محسن ہیں

منگل 29 ستمبر 2020

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

سقراط کو  یونانی علم و ادب کا 'باوا آدم'مانا جاتا ہے۔سقراط نے بہت سارے علوم پر کام کیا اور دنیا کو ان سے روشناس کروایا۔انھوں نے مساوات،عدل وانصاف اور عرفان ذات کا درس دیا۔سقراط پہلا شخص تھا،جس نے روح کی پاکیزگی پر زور دیا اور دنیا کو بتایا،سکون روح کی پاکیزگی سے حاصل ہوتا ہے۔اور یہ پاکیزگی نیکی کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔

یہی درس سقراط کے بعد آنے والے فلاسفرز نے بھی دیا۔جو بعد میں روح کی پاکیزگی اور عرفان ذات یعنی تصوف کی صورت میں دنیا بھر میں پڑھایا جانے لگا۔تصوف ایک بڑا پیچیدہ موضوع ہے، جبکہ میرے ایسے کم علم کےلئے تو مشکل ترین ہے۔اس کے باوجود تصوف میرے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک ہے۔میں ایک کم علم آدمی  ہوں،لیکن اللہ پاک نے مجھے تجسس کی صفت عطاء کی ہے۔

(جاری ہے)

مجھے جس چیز کی لگن ہوجاتی ہے،میں اس کی کھوج میں لگ جاتا ہوں۔اور اسے ڈھونڈ کے چھوڑتا ہوں۔تصوف بھی ایسا موضوع ہے جس کے بارے پڑھنے،سوچنے کی مجھے جستجو ہے۔تصوف کو سمجھنے کےلئے علم و فراست کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ آسانی سے سمجھ نہیں آتا۔میں نے تصوف پر داتا گنج بخش رحمہ اللہ کی کتاب"کشف المحجوب"کا مطالعہ کیا۔جس کا کچھ بھی میرے پلے نہ پڑا کہ ایسی ضغیم کتاب کا سمجھنا میرے ایسے کم علم کےلئے ناممکن ہے۔

اس کے بعد تصوف پر مختلف مضامین بھی نظر سے گزرے،مجال ہے کچھ بھی دماغ میں بیٹھا ہو۔اتنے میں مستنصر حسین تارڑ صاحب کا ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا،جس میں انھوں نے فریدالدین عطار کی مثنوی"منطق الطیر"کا ذکر کیا تھا،میں نے یہ مثنوی پڑھنے کا ارداہ کرلیا۔معلوم ہوا یہ فارسی میں ہے،ہم کہاں اتنے قابل کہ فارسی کو پڑھ سکیں۔گو کہ مسلمانوں کا سارا علمی خزانہ اسی زبان کے سینے میں محفوظ ہے۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم فارسی پڑھنا لکھنا نہیں جانتے،حالانکہ مولانا رومی،شیخ سعدی،فریدالدین عطار سے لے کرعلامہ محمد اقبال تک سب کا علمی خزانہ فارسی میں ہے۔خیر، فارسی سے نابلد ہونے کے باعث فارسی میں تو نہ پڑھ سکا۔عطار کی مثنوی کا انگریزی میں ترجمہ "کانفرنس آف دی برڈز"کے نام سے ہو چکا ہے۔جو کہ برطانوی ڈک ڈیوس اور اس کی ایرانی بیوی افخام دربندی نے کیا ہے۔

یہ پڑھنے کا موقعہ ملا ہے۔ اس کتاب نے تصوف کی باریکیاں کو سمجھنے میں کافی مدد کی اور تصوف کی اصل روح سے روشناس کروایا۔پرندوں کی گفتگو سے عطار نے تصوف کی ساری گتھیاں سلجھا دیں۔یہ کتاب پڑھ کر نہ صرف تصوف کے پیغام کو سمجھنے میں مدد ملی بلکہ پرندوں سے بھی رغبت ہو گئی۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد فریدالدین عطار میرے مرشد اور اس کے پرندے میرے محسن ہیں۔

فرید الدین عطار 1146ء ایران کے شمال مشرقی علاقے نیشاپور میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم گھر سے حاصل کی۔ان کے والد گرامی حکیم تھے،آپ نے بھی حکمت کا پیشہ اختیار کیا،اور جلد اپنے علاقے کے نامور حکیم بن گئے۔ان کا کام صرف حکمت تھا، یہ اپنے پیشے سے بے حد مخلص تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے جڑی بوٹیوں سے دوا بنانے کےلئے بہت سے ملکوں کا دورہ کیا۔

تاکہ اچھی دوا تیار ہو سکے،اسی وجہ سے ان کی دوا زیادہ مئوثر ثابت ہوئی اور یہ کامیاب حکیم ٹھہرے۔ایک دن اپنے دوا خانے بیٹھے تھے کہ ایک فقیر آیا،اس نے بھیک کی صدا لگائی،عطار نے انکار کر دیا۔فقیر ضرورت مند تھا،اس نے بار بار اصرار کیا،انھوں نے ہربار انکار میں جواب دیا۔فقیر نے تنگ ہو کر کہا"اللہ کو جان کیسے دو گے،ایک روپیہ تک نہیں دے سکتے" عطار نے جواب دی،"جیسے آپ دو گے"۔

فقیر نے کہا،"میں تو ایسے جان دوں گا"۔وہ فقیر لیٹا،اور وہی اللہ کو پیارا ہو گیا۔اسی لمحہ عطار نے  دنیا کو ترک  کیا اور جنگل بیابانوں میں نکل گئے۔اسی دوران آپ نے بغداد،کوفہ،بصرہ،دمشق،مکہ،ترکستان اور ہندوستان کے طویل سفر کیے۔اس کے بعد "منطق الطیر"کتاب لکھی،جسے تصوف میں اہم مرتبہ حاصل ہے۔اردو میں منطق الطیر کا مطلب پرندوں کی گفتگو ہے۔

اس کتاب میں پرندوں کا ذکر ہے،جو اپنے مرشد کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ہدہد ان کا سربراہ ہوتا ہے۔جو انھیں بتاتا ہے کہ صرف دانا چگنا اور اڑنا ہی ہمارا کام نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ہمارا اور بھی جہان ہے۔ہدہد انھیں مشورہ دیتا ہے کہ پہلے مرشد کی تلاش کرتے ہیں۔پھر اپنی منزل کو تلاش کرنے کےلئے رخت سفر باندھیں گے۔سارے پرندے اپنے مرشد سیمرغ کی کھوج میں نکل پڑتے ہیں۔

جو سات وادیاں کے پار رہتا ہے۔لیکن آخری وادی تک صرف چند پرندے ہی پہنچ پاتے ہیں۔جب وہ وہاں پہنچتے ہیں تو انھیں سیمرغ کی بجائے اپنے عکس نظر آتے ہیں۔اور ان پر حقیقت عیاں ہو جاتی ہے۔کہ اپنے من ہی میں سب کچھ موجود ہے۔بس اس کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ اپنے من کا عکس واضح نظر آسکے۔سبحان اللہ،فریدالدین عطار نے پرندوں کی گفتگو سے انسان کو تصوف کی پیچیدہ گتھیاں سلجھا دیں۔

بلکہ زندگی کا نصب العین بتا دیا۔یہ حقیقت ہے،سب کچھ من میں اللہ نے رکھ دیا۔اس کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔اللہ خود فرماتا ہے کہ میں بندہ مومن کے دل میں رہتا ہوں۔اس دل کو نفرتوں،کدورتوں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔دل صاف نہ ہوں تو اللہ مسجد(ضرار) گرانے کا حکم بھی فرما دیتاہے۔اور دل صاف ہوتو بلھےشاہ کا ناچنا بھی قرب الہی تک لے جاتا ہے۔کیونکہ اللہ پاک کے ہاں خالص کی قدر ہے۔

دکھاوا وہاں ممنوع ٹھہرتا ہے۔اور اولیاءکرام کے نزدیک یہی دل اور روح کی صفائی کا نام تصوف ہے۔خواجہ فرید کی "پیلو پکھیاں"سے لے کر سلطان باھو کی"چنبے کی بوٹی"'تک سب خیر ہی خیر ہے۔سب تصوف کے رنگ ہیں۔اہل تصوف مجاز سے بھی حقیقت کے پہلو کو نکلا لیتے ہیں۔یہ لوگ ہر شے سے غیرمعمولی تعلق جوڑ لیتے ہیں۔پھول کی ہستی بھی ان کےلئے عجیب راز لیے ہوتی ہے۔

ان کےلئے پیلو کا پکنا بھی معنی رکھتا ہے۔ اور یہاں پیلو کھانے سے زیادہ مل کر پیلو چننے میں انھیں مزہ آتا ہے۔کیونکہ ان کے نزدیک محبوب کا قرب ہی سب کچھ ہے۔جب محبوب کا ہجر ہو تو بقول خواجہ فرید رحمہ۔۔۔۔۔۔
یار باجھوں ہن جیوں کوڑے اندر درد ہزاراں۔۔
غلام فریدا میں رووآں ایویں جیویں وجھڑی کونج قطاراں۔۔۔۔۔
بہرحال،اہل تصوف کا اپنا مزاج اور اپنا ایک ڈھنگ و رنگ ہوتا ہے۔

ان کے ہاں کائنات کی ہر چیز قدروقیمت رکھتی ہے۔یہ ہر چیز میں مجبوب کا عکس دیکھتے ہیں۔ عطار ایسے پرندوں کی گفت و شنید سے بھی انسان کو اس کی منزل دیکھا دیتے ہیں۔کہ ہر چیز بنی نوع انساں کےلئے تخلیق ہوئی ہے۔اور ہر چیز میں اس کےلئے درس،علم و فراست رکھ دی گئی ہے۔بس اس کو دیکھنے کےلئے دل کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔یقین کیجیئے اگر ہم،اپنے ظاہر و باطن کو صاف کرلیں تو ہم دنیا کے مسائل سے نہ صرف چھٹکارا پا سکتے ہیں،بلکہ اللہ کے ہاں بھی کامران ٹھہر سکتے ہیں ۔کیونکہ میرے رب کو خالص کی ضرورت ہے،وہاں دو منھوں والے یعنی اہل رعیا ناکام ٹھہرتے ہیں۔اور یہی ظاہروباطن کا اک ہونا ہی تصوف کا بنیادی وصف ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :