باپ بہترین دوست ہوتا ہے

اتوار 4 اکتوبر 2020

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

پاکستانی قوم کے بے شمار مسئلے ہیں۔قوم کا یہ بھی مسئلہ ہے کہ یہ جلد مایوس  ہو جاتی ہے۔ہم میں سے ہر تیسرا شخص چھوٹی سی بات پر سر کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔اور مایوسی اس کے اندر سرایت کر جاتی ہے۔اور وہ مایوسی سردرد،ڈپریشن کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔پاکستان میں سب سے زیادہ پائنڈل کی گولی کھائی جانے کی بھی یہی وجہ ہے۔جو ہر دوسرا بندہ معمولی تھکاوٹ کےلئے بھی استعمال کر لیتا ہے۔

مایوسی،ناامیدی اور بے چینی ہمارے معاشرے کے اہم مسائل ہیں۔یوں تو ان ذہنی امراض کا شکارطبقہ کا ہر فرد ہے۔لیکن آج کل یہ امراض نوجوانوں میں زیادہ عام ہورہی ہیں۔جو ڈپریشن کو جنم دیتی ہیں۔ ڈپریشن کی وجہ سے پاکستان اور انڈیا کے نوجوانوں میں خودکشی اور خودسوزی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

(جاری ہے)

نوجوانوں میں مایوسی کی کئی وجوہات ہیں۔جس میں امتحانات میں ناکامی،میرٹ پر پورا نہ اترنا،جاب کا نہ ملنا،محبت میں ناکام ہونا،سوشل میڈیا پر ہراساں کیا جانا،والدین کا اولاد پر توجہ نہ دینا اس طرح کی کئ وجوہات ہیں۔

جس وجہ سے نوجوان مایوسی اور نامیدی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ذہنی خلل اور ذہنی کشمکش کی ایک اور اہم وجہ نسل کا تفاوت بھی ہے۔جسے جنریشن گیپ کا نام دیا جاتا ہے ۔جنریشن گیپ کی وجہ سے اولاد اور والدین کے درمیان ایک خلاء سا پیدا ہو گیا ہے۔والدین بچوں کو اس طرح سے ' ٹریٹ' کرنا چاہتے ہیں۔جیسے ان کے والدین ان سے سلوک کیا کرتے تھے۔اکثر والدین دور جدید کے تقاضوں کو سجھ نہیں پاتے.جس سے بچوں کےلئے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔

ذہنی خلفشار اور یاس کی دوسری وجہ نوجوانوں کا سوشل میڈیا پر وقت کا زیادہ گزارنا ہے۔سوشل میڈیا نے ہمارے دیسی کلچر کو بے پناہ نانقصان پہنچایا ہے۔وہ دیسی کلچر جس میں رات کے کھانے سے لے کر سونے تک سارے گھر والے اکٹھے ہو کر دنیا جہاں کے قصے چھیڑتے اور اپنے اپنے دکھ اور سکھ بانٹا کرتے تھے۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ کوئی مایوسی اور پریشانی کا شکار ہوتا بھی تو باہمی مشاورت سے وہ تکلیف دور ہو جاتی۔

لیکن موجودہ دور میں سوشل میڈیا نے فیملی سسٹم میں بہت سی دراڑیں ڈال دی ہیں۔جس کا سب سے بڑا نقصان نوجوان نسل میں پریشانی اور ناامیدی کی صورت میں اٹھانا پڑ رہا ہے۔فیس بک پر سینکڑوں دوست ایڈ ہوتے ہیں،لیکن کوئی ایسا نہیں ہوتا جو ذہن میں چلنے والی کشمکش اور بے چینی کو دور کر سکے۔سب وقتی طور پر گفت شنید کرتے ہیں۔سب کو اپنا وقت اچھا گزارنا ہوتا ہے۔

کوئی کسی کی مصیبت میں شامل حال نہیں ہونا چاہتا،سوشل میڈیا نے بہت حد تک خودغرضی کو بھی جنم دیا ہے۔سلیفی سے لے کر لائک تک،سب اپنے اپنے لائکز دیکھتے ہیں،اپنی تصویر پر نازاں ہوتے ہیں۔ان سب عوامل نے ہمارے محبت اور روایات سے پھرپور خاندانی نظام کو تہس نہس کر دیا ہے۔اگر ہم ان مسائل سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔تو اولاد کو والدین سے اور والدین کو اولاد سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

والدین سے بڑھ کر کوئی دوست نہیں ہوتا۔والدین اپنی اولاد کےلئے بے پناہ قربانیاں دیتے ہیں۔باپ جیسا بھی ہو باپ ہوتا ہے۔اولاد کے خوابوں کا سہارا ہوتا ہے۔اولاد کی خاطر ہر قربانی دینے کو تیار ہوتا ہے۔باپ اور بیٹے کا دوستانہ تعلق بڑے سے بڑے مسئلے کو آسان ترین بنادیتا ہے۔خاکسار کو کوئی مسئلہ بھی درپیش آتا ہے۔یہ اپنے ولد سے ڈسکس کرتا ہے۔

کیونکہ خاکسار کو اس حقیقت کا ادراک ہے،ولد سے بڑھ کر کوئی دوست نہیں ہوتا۔چارسال قبل کی بات ہے،جب خاکسار سپرئیر کالج بھکر میں ایف ایس سی کر رہا تھا۔تو شروع میں ایف ایس سی بہت مشکل محسوس ہوئی،خاکسار ذہنی خلفشار کا شکار ہو گیا۔اس نے اپنے "ابا" کو مسئلہ بیان کیا۔ابو نے نہ صرف حوصلہ دیا بلکہ ابو نے بہت پیاری بات کہی تھی،جو آج بھی خاکسار کی ڈائری میں لکھی ہوئی ہے۔

ابو نے کہا تھا،"بیٹا مخلص دوست سے بڑھ کر کوئی بڑی نعمت نہیں ہے۔اور والدین سے بڑھ کر کوئی مخلص دوست نہیں ہے."آپ بھی آج سے اپنے ابو سے ایک اور رشتہ جوڑ لیں۔اسے دوست بنا لیں۔اور اس دوستی کو زندگی کے مسائل سے چھٹکارا پانے کےلئے استعمال کریں۔آپ کو کبھی مایوسی نہیں ہو گی۔اور خاکسار کا دعوی ہے۔اس کے بعد آپ کبھی زندگی میں ناکام نہیں ہوں گے۔

اور اگر آپ باپ ہیں تو اولاد سے دوستانہ تعلق کرنے کی کوشش کریں۔ان پر بے جا سختی نہ کریں۔ان کو پیار دیں۔آپ کا گھر جنت بن جائے گا۔اولاد کےلئے فرض ہے۔وہ والدین کی قدر کریں۔ان سے عزت اور احترام سے پیش آئیں۔ورنہ وقت گزر جاتا ہے۔جب ان باتوں کا شعور آتا ہے۔تو  پھر پچھتاوا ہی رہ جاتا ہے۔اور پچھتاوے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔قلب عباس صاحب نے کہا تھا۔

پئو بنڑاں ہاں تاں پئو دی یاد آئی ہئے( جب باپ بنا ہوں،تو باپ کی یاد آئی ہے)۔خاکسار جب بھی والدین کی اولاد سے محبت دیکھتا ہے۔تو قرآن کی جگہ جگہ تنبیہہ خاکسار کے ذہن میں آجاتی ہے۔جب بھی اللہ عزوجل نے قرآن میں آزمائش کا ذکر کیا ہے۔وہاں مال کی ہوس کے ساتھ اولاد کی محبت کا تذکرہ بھی ہوا ہے۔اللہ فرماتا ہے کہ اولاد اور مال ان میں سے کسی چیز کی محبت تمہیں اللہ کی یاد سے نہ روکے۔

یعنی اولاد سے محبت والدین کے ڈی این اے میں رکھ دی گئی ہے۔چاہے وہ اولاد کسی جانور کی ہو یا پھر انسان کی۔لیکن کہیں بھی جہاں تک خاکسار کےعلم میں ہے۔اللہ تعالی نے اولاد سے یہ نہیں فرمایا کہ تمہیں والدین کی محبت اللہ کی یاد سے نہ روکے،کیوں؟کیونکہ چند خوش قسمت اولادیں ہوتی ہیں۔جو والدین کی مسلسل جان فشانی اور محبت سے ان کے اخروی سفر  تک خدمت کرتے ہیں۔

اور دوسرا اس لئے کہ دین اسلام میں معاشرت کا بڑا مقام ہے۔والدین کی زیادہ خدمت اللہ کے قریب کرتی ہے دور نہیں۔جہاں بھی اولاد کو والدین کے بارے حکم آیا ہے۔یہی نصیحت کی گئی ہے کہ اولاد والدین سے حسن سلوک سے پیش آئے اور جب وہ بڑھاپے  میں پہنچ جائے تو انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ دے۔ وقت کے لمحے تیزی سے گزرتے رہتے ہیں۔پھر وہ وقت بھی آن پہنچتا ہے۔

جب بیٹا باپ بنتا ہے۔تب باپ کے غصے میں چھپی محبت اور خاموشی میں پوشیدہ دعائیں عیاں ہوتی ہیں۔پھر اس درد سے آشنائی ہوتی ہے۔جس کا باپ سامنا کرتا تھا۔اور کبھی کبھی سر شام ہی طبعیت ٹھیک نہیں کے بہانے کمرے کی بتی بجھا کے باپ کے سو جانے کے پیچھے چھپی حقیقتں واضح ہوتی ہیں۔وہ اولادیں خوش قسمت ہوتی ہیں،جن کو والدین کی قدر و قیمت کا وقت پر احساس ہوجاتا ہے۔باپ اور بیٹے کا رشتہ بڑا انوکھا،خاموش اور میٹھا ہوتا ہے۔جبکہ بیٹیاں تو باپ کی لاڈلی ہوتی ہیں۔اولاد اگر والدین کا دل کھول کر اپنے لیے محبت کے سمندر کو دیکھ لیں،تو وہ اس حقیقت سے آشنا ہو جائیں گے کہ والدین سے بڑھ کر کوئی دوست نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :