فرینڈلی اپوزیشن

جمعہ 17 اکتوبر 2014

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

اللہ بھلاکرے پرویزمشرف کا‘موصوف نے ملکی سیاست میں جہاں کئی قسم کی رنگارنگی متعارف کرائی وہاں پاکستانی معاشرہ کو ”حیا“ کے پردہ سے نکالنے میں بھی خوب کردار اداکیا یہ الگ بات کہ ان کے منظورکرائے گئے حقوق نسواں بل کے ”#فوائد “ اس قدر سامنے نہ آسکے جس قدر انہیں یا ان کے پیشکاروں کو توقع تھی۔ بہرحال ان کے دیگرکارناموں میں سے ملکی سیاست میں یا درکھاجانیوالا کارنامہ ”فرینڈلی اپوزیشن “ بھی ہے ‘موصوف چونکہ آمرتھے تو دنیائے نفسیات کے ماہرین کاخیال یہ ہے کہ آمروں میں ”نو“ سننے کی ہمت نہیں ہوتی اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ ان کی ہربات پر ”یس سر ‘یس سر“ کی تسبیح پڑھی جائے‘ یہ توخیر نفسیات دانوں کی بات ہے ‘ تاہم مانناپڑیگا کہ پرویز مشرف نے بہت سے نفسیات دانوں اور سیاست دانوں کو اپنے پیچھے لگارکھاتھابلکہ بقول دانشوراں انہوں نے دونوں قسم کے لوگوں کو یوں آگے لگائے رکھا جیساکہ بھیڑ کے لشکر کے پیچھے چرواہا۔

(جاری ہے)

بات تو ان احباب کی بھی درست ہے کہ انہی دنوں سیاستدانوں اوربھیڑوں کے لشکر میں کچھ خاص فرق نہیں تھا‘ ہوسکتاہے کہ بعض احباب کو اس ”جملہ معترضہ “ پر شکایت ہو لیکن چونکہ ان دنوں مزاحمت کے حوالے سے معروف پیپلزپارٹی منظرعام پر نہ تھی اور نہ ہی لیگی قیادت پاکستان تھی کہ کسی کو احتجاج کی ہمت ہوتی ۔

ایسے میں اس شعر کی عملی تفسیر سامنے آئی
گلیاں ہوجانڑ سنجیاں ‘تے وچ مرزا یارپھرے

پرویز مشرف بھی اسی شعر کے مصداق پاکستان کے کونے کونے میں دندناتے پھرتے رہے‘ جب جی چاہاکسی کو بوٹ دکھادئیے ‘ جب جی چاہا کسی کومکا ۔ بہرحال چونکہ اقتدار کی ہما ان کے کندھے پر اٹھکیلیاں کررہی تھی اس لئے انہیں کچھ سجائی نہ دے رہاتھا ۔ اس وقت تواپنے تو اپنے کئی پرائے بھی ان کے اپنوں میں شمارہوتے تھے‘ ایسے ہی حالات میں پاکستانیوں نے شاید پہلی دفعہ ایک لفظ سنا ”فرینڈلی اپوزیشن“ ۔چونکہ اس سے قبل اپوزیشن کے حوالے سے تصور ذہن میں آتے ہی ہنگامے ‘ماردھاڑ‘ احتجاج‘ دھرنے ‘ جلوس‘ جلسوں کی گونج سنائی دیتی تھی لیکن جونہی پہلی بارکانوں میں لفظ”فرینڈلی اپوزیشن “ پڑاتوبہت سے سیاست سے اکتائے چہروں کی پژمردگی ختم ہوگئی اورپھر لوگوں نے دیکھا کہ پرویز مشرفی دورحکومت میں واقعی فرینڈلی اپوزیشن قائم رہی کہ جو تھی تو اپوزیشن ہی لیکن ”فرینڈلی“ یعنی دوستی کی دوستی اوردشمنی کی دشمنی۔ لیکن اس رنگ میں دوستی کارنگ کچھ یوں نمایاں دکھائی دیتا رہا کہ بڑے بڑے سیاستدانوں کی اسمبلیوں میں موجودگی کے باوجود یوں لگتاتھا کہ جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو‘ ہمارے ایک دوست ہیں اللہ انہیں خوش رکھے ‘ وہ اکثر کہاکرتے ہیں اس اسمبلی کے ممبران کو سانپ نہیں بلکہ پرویز مشرف سونگھ گیا تھا اس لئے انہوں نے اپنی سانسیں تک روکی ہوئی تھیں کہ مباداً سانس لینے پر ان کی جان کو خطرہ لاحق نہ ہوجائے۔ اب بھلا ان بھولے بھالے لوگوں کو کون سمجھائے ‘بتائے ‘ شواہد پیش کرے کہ پرویز مشرف نے اپنے ہاتھوں سے کسی کو نہیں مارااور اگر کوئی ثبوت ہے تو پیش کیاجائے؟کہیں کملے جھلے لوگ یہ ہی نہ سمجھ بیٹھیں کہ پرویز مشرف پاک وپوترتھا تو حضرات پرویز مشرف نے اپنے ہاتھوں سے کسی کو مارا نہ مروایا البتہ اس کام کیلئے اس نے کئی لوگوں کی خدمات ”مستعار“ لے رکھی تھیں
فرینڈلی اپوزیشن کی بات چلی تو اس دورمیں مشہورہونیوالی لطیفہ نمابات بھی سامنے آئی بلکہ اب تک کے حالات نے ثابت بھی کردیا کہ وہ لطیفہ نما بات ایک سوایک فیصد درست تھی ‘ کہاجاتارہا کہ فرینڈلی اپوزیشن لیڈر ایسے ہیں جس طرح پانی مچھلی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح فرینڈلی اپوزیشن لیڈربھی اقتدار کے بنا جی نہیں پائیں گے۔
اس دور میں عجیب طرز کی اپوزیشن تھی نہ ماردھاڑ‘ نہ ہنگامہ ‘نہ احتجاج ‘ نہ پولیس گردی ‘ حتیٰ کہ لال مسجد آپریشن ہوگیا مگرفرینڈلی اپوزیشن چپ رہی آخر اپوزیشن ہونے کے باوجود ”فرینڈلی “ بھی تھی تھا۔ بہرحال پرویز مشرف چلا گیا لیکن اس کا متعارف کردہ نئی اصطلاح پیپلزپارٹی کے دورمیں بھی جاری رہی کہ نام کی اپوزیشن تو تھی لیکن ”فرینڈلی“ ۔ اس دور میں بہت سے کارنامے انجام پائے لیکن اتفاق رائے سے ‘ صدر ‘ وزیراعظم کے چناؤ میں کسی قسم کی رکاوٹ سامنے نہ آئی ‘ سبھی کچھ ”فرینڈلی “ ہوتارہا اورپھر جب حکومت اپنی اختتامی منزل کی طرف بڑھنے لگی تو اپوزیشن نے عارضی طورپر ”فرینڈلی “ کاچغہ اتارکر تیور وں کو سختی کی طرف مائل کرنا شروع کردیا‘ کچھ ہاتھا پائی ہوئی‘ کچھ طعن وتشنیع بھی ہوئی‘ کچھ ہنگامے بھی ہوئے لیکن ”فرینڈ لی فرینڈلی “ ۔ حکومت اپنے انجام کو پہنچ گئی اور آج ہرسو ”شیر “ کاطوطی بولتا ہے‘ شنید یہی ہے کہ ایک بارپھر ”فرینڈلی اپوزیشن “ بنانے کی تیاریاں جاری ہیں اورشنید یہی ہے کہ وزیراعظم کو اتفاق رائے سے متفق کیاجائیگا ‘ شنید تو یہ بھی ہے کہ پرویز مشرف دور کے ”فرینڈلی اپوزیشن “ لیڈر بھی ”شیر “ کے لشکر سے آن ملے ہیں گو یا ”پانی کے بغیر مچھلی اور اقتدار کے بغیر فرینڈلی اپوزیشن لیڈر ‘دونوں زندہ نہیں رہ سکتے “ کا جملہ اپنی عملی تفسیر کی جانب بڑھ رہا ہے ۔
پاکستان میں جس قسم کاجمہوری مزاج ماضی میں رہا ہم جیسے پاکستان شاید اسی نظام کے عادی ہوچکے ہیں یا پھر ہمارے رویوں میں پھیلی تلخیاں یہی چاہتی ہیں کہ محبتوں ‘چاہتوں کو ایک طرف رکھ کر بس دھینگامشتی کی جائے۔ لیکن سیاست کے یارلوگوں نے تو اپنے لئے یہ راستہ ہمیشہ کیلئے بند کردیا کہ اب ہنگامہ آرائیاں نہیں ہونگی‘ کسی کو طعنے نہیں دئیے جائیں گے ا ورنہ ہی اسمبلی میں کوئی دھینگا مشتی ہوگی۔ لیکن بھلاہو نجی ٹی وی چینلز کا ‘ کچھ دھینگامشتی کے شوقین حضرات کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا خوب موقع مل جاتاہے اوروہ پھر آستینیں چڑھائے ‘ چہرے پر غصے کی لالی سجائے‘ اپنے آپ کو ”پاک وپوتر “اورمخالف کو ”گنہگار “ ثابت کرنے کیلئے طرح طرح کی تاویلوں کے ساتھ منظر عام پر آجاتے ہیں اورپھر ”فرینڈلی اپوزیشن “ کے چہیتوں کی وہ دھجیاں اڑائی جاتی ہیں کہ الامان والحفیظ۔ تاہم آخری ایام میں جب سیاستدان‘ فوج اورعدلیہ کے درمیان موازنہ جاری تھا تو سیاستدان ایک ہی پلیٹ فارم پر متحد دکھائی دئیے ایسے میں لگ یہی رہا تھا کہ آنیوالے دورمیں ایک بارپھر ”فرینڈلی اپوزیشن یا پھر فرینڈلی حکومت “ سامنے آسکتی ہے ۔ہوسکتاہے کہ سیاستدانوں نے کرپشن کی کہانیوں سے کچھ سبق ہی سیکھ کر اس پنچ سالہ دورمیں ”فرینڈلی حکومت “ کی اصطلاح استعمال کرنے کی ٹھان لی ہو‘ تاہم اگر یہ بات درست بھی نہیں ہے تو پھر بھی ہوسکتاہے کہ یہ حکومت اسی ”فرینڈلی اپوزیشن “ کے کاندھوں پر بیٹھ کر پانچ سال پورے کرلے۔ ایسا لگتا ہے کہ شاید اب کی بار پانچ سالہ فرینڈلی اپوزیشن‘ حکومت گٹھ جوڑ کامیاب نہ ہوسکے۔ تاہم اگر فرینڈلی اپوزیشن کا”وعدہ “پورا نہ ہواتو ہوسکتاہے کہ پرویز مشرف کے بھائی بندوں کو پھر سے آنے کاموقع مل جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :