
سسکتے لفظ
جمعرات 18 دسمبر 2014

محمد ثقلین رضا
(جاری ہے)
اب وقت آ گیا ہے کہ ضیا الحق کے دور میں کھلنے والی جہادی فیکٹریوں کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند کردئیے جائیں۔ نیز اب یہ جنگ ہمارے گھروں تک آن پہنچی ہے جب ہمارے بچے اس کی نذرہوچکے ہیں تو ہمیں اسے اپنی جنگ مانتے ہوئے بحیثیت پاکستانی ہر اس یزید کا مقابلہ کرنا ہے جو طالبان یا طالبائزیشن کاحامی ہے یا انہیں اچھا سمجھتا ہے ۔۔۔۔۔ ۔۔ظالم کے ظلم پر مسکراکر داد دینے والا بھی ظالم ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔سو اب مظلوموں کو جاگناہوگا اپنی آنیوالی نسلوں کیلئے
․․․․․․․اگر ایسا ہی توپھر ایسے درندوں کو شہروں میں رہنے کا حق نہیں انہیں سرعام گولی ماردینی چاہئے یا پھر انہیں ان لاکھوں متاثرین کے سپرد کردیاجائے جن کے معصوم بچوں ،بزرگوں ،عورتوں کو ظالموں نے چاٹ لیا ہے
سردیوں کی ٹھنڈی صبح میں کسی نے ضد بھی تو کی ہو گی۔ ماں! میں نے آج سکول نہیں جانا۔ میرا دل ڈر رہا ہے۔ کسی نے کہا ہو گا ماں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آج دن بہت بڑا ہو جائے گا۔ دھڑکن سی رُکتی محسوس ہو رہی ہے۔ کسی نے کہا ہو گا ابو میں نے سارا کام کیا ہے آج مجھے چاکلیٹ لے کر دینی ہے۔ کسی نے پوچھا ہو گا۔ بہن! تم مجھے ڈانٹ رہی ہو اگر میں شام کو واپس نہ آیا تو۔ اور بہن کا جواب ضرور ہو گا کہ بُری بات نہیں کہتے ہوتے جاؤ سکول۔ پھر کیا ناشتہ طلب کیا ہوگا۔۔۔آہ۔۔۔آخری ناشتہ۔ آخری لقمہ۔کیسے حلق سے اترا ہو گا۔ کانپتے ہوئے سرد ہاتھوں میں نوالہ۔ آنکھوں میں واپسی کی امید۔ ٹھٹھرتی ہوئی فرمائش۔ لبوں پر سکتہ۔دیر ہو رہی ہے جلدی کھا لو۔دیر ہو رہی ہے جلدی نکلو۔دیر ہو رہی ہے ابو باہر کھڑے ہیں۔ہاں اب دیر ہی ہو گئی۔کون لوٹنے میں دیر کر رہا ہے۔ بچہ گھر کیوں نہیں آیا پتا کرو؟ کہیں دوستوں کے ساتھ کھیلنے نہ چلا گیا ہو؟ کہیں وہ انتظار نہ کر رہا ہو جلدی جاؤ؟ میرے بیٹے نے تو صبح ناشتہ بھی نہیں کیا۔ الٰہی شام ہو گئی ہے بچے کی حفاظت فرمانا۔ کتنا دردناک دن تھا۔ کتنا سفاک دن تھا۔ ہائے ہائے افسوس۔ میرے بچے نے پانی مانگا ہو گا۔ میرے بچے نے مجھے پُکارا ہو گا۔ اس کمینے کے ہاتھ پاؤں جوڑے ہوں گے۔ میری گھر میں ماں منتظر۔ میرے گھر میں بہن اکیلی۔ میں نے کسی کو ساتھ لے کر جانا ہے۔ مجھے تم چھوڑ دو۔ معاف کر دو۔کوئی غلطی ہو گئی ہے تو بخش دو۔رحم کرو۔سکتے میں کتنی مائیں‘بہنیں گری ہوں گی۔ جب سکول کی خبر سُنی ہو گی۔ کتنے باپ غش کھا کر گر پڑے ہونگے۔کتنے دروازے کھلے چھوڑ کر سڑکوں پر دوڑے ہونگے۔ لاشہ دیکھا ہو گا تو کیا بیتی ہو گی۔ بے دردو۔ ظالمو۔تمہارے ہاتھ نہیں کانپے میرے بچے کا سینہ چھلنی کرتے ؟؟؟ یہ پڑا ہے لاشہ اور مارو۔ شہید کرو۔لہو نکال دو سارا۔شہید ہے۔زندہ ہے۔ مجھے فخر ہے۔ میں نہیں روتی۔میں نہیں روتا۔مجھے کوئی سوگ نہیں۔مجھے کوئی دکھ نہیں رنج نہیں۔شہید ہو گیا۔ اللہ نے رُتبہ دیا۔ شان دی۔سوگ کیسا۔کیا لکھیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد ثقلین رضا کے کالمز
-
سرکاری حج عمرے
جمعہ 31 مئی 2019
-
انصاف، حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹیں
جمعرات 27 دسمبر 2018
-
قبرپرست
جمعہ 31 اگست 2018
-
محنت کش ‘قلم کامزدور
جمعہ 2 مارچ 2018
-
باباجی بھی چلے گئے
اتوار 28 جنوری 2018
-
پاکستانی سیاست کا باورچی خانہ اور سوشل میڈیا
بدھ 1 نومبر 2017
-
استاد کو سلام کے ساتھ احترام بھی چاہئے
ہفتہ 7 اکتوبر 2017
-
سیاستدان برائے فروخت
منگل 22 اگست 2017
محمد ثقلین رضا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.