
یوم ”شوہراں“ بھی منایاجائے
ہفتہ 21 مارچ 2015

محمد ثقلین رضا
(جاری ہے)
مگر ایک مظلوم ابھی تک ایسی بھی ہے جس کے حوالے سے نہ تو امریکی قوم کو احساس ہوا اور نہ ہی اقوام متحدہ میں بیٹھنے والے اس کا دکھ درد جان سکتے ہیں۔
امریکہ میں تو خیر ”آزادانہ زندگی “ کارجحان زیادہ ہے اورلوگ ”شادی “ کاجھنجٹ نہیں پالتے اس لئے وہ ”آزاد پیداہوتے ہیں اورآزاد ہی مرجاتے ہیں“ یہ مقولہ عام امریکیوں میں بڑا ہی مشہور ہے ۔اب اس کی بھی تخصیص نہیں کی جاسکتی کہ امریکی مرد یا خواتین، گویا ہرحوالے سے ایک ہی بات سامنے آتی ہے ”آزادی“ خیر امریکہ کاذکر کرتے ہوئے لفظ ”آزادی“ بھی جملہ معترضہ میں شمار ہوتا ہے۔ امریکہ ہی کیوں یورپ کے بعض ممالک میں بھی ”آزادی“ بیحد نمایاں نظرآتی ہے ۔ خیر ان جملہ ہائے معترضہ کو ایک طرف رکھتے ہوئے اگراس مظلوم قوم کاذکر کیاجائے تو اچھا ہوگا ، چونکہ امریکہ کے بے شمارشہریوں کے علاوہ بعض ”آزاد خیال “ ملکوں میں شادی کاجھنجٹ سرے سے موجود ہی نہیں تو یہ ”مظلوم“ قوم نظر ہی نہیں آتی ۔ لیکن پاکستان کو عموماً پدر سری معاشرہ تصورکیاجاتا ہے جہاں یہ تصور بھی عام ہے کہ یہاں ”مردوں“ کی حاکمیت ہے۔ پہلے شوہر اورپھر بیٹے کی حکمرانی۔ مگر ایک پہلو ہمیشہ ہی نظرانداز کردیاجاتا ہے۔ بقول قبلہ فداحسین ملک صاحب اس مظلوم ترین طبقے کو بالکل اسی طرح سے ہی نظراندازکیاجاتارہاہے جس طرح اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر وفلسطین۔ یہ مظلوم طبقہ شوہروں کا ہے ، عموماً بیویاں شوہروں کے گلے شکوے کرتے ہوئے کہتی ہیں وہ بڑا ہی نکھٹو ہے، لیکن خدا واسطے اگر اس ”نکھٹو“ کی بابت پتہ لگایاجائے تو معلوم پڑتاہے کہ وہ نکھٹو آدمی چالیس پچاس ہزار تنخواہ رکھنے والے ملازم ہے، بس فرق صرف اتنا ہے کہ وہ گھر کے کام کاج میں بیوی کی ”مدد “ نہیں کرتا ۔ اب مدد کاذکر چھڑے تو عموماً ایک خاتون دوسری کو کہتی پائی جاتی ہے کہ میرا شوہر میری مدد نہیں کرتا۔ میں برتن اکٹھے کرکے دیتی ہوں وہ دھودیتا ہے کل کپڑے اکٹھے کردئیے مگر اس نے دھونے سے انکار کردیا ؟دوسری بولی ”ہائیں اتنانافرمان شوہر“(یعنی شوہر نہ ہوا نوکرہوگیا)پھر ہاتھ نچاتے ہوئے بولی”اس سے اچھا ہے کہ تم اس سے طلاق لے لو “ پہلے والی بولی اگر میں طلاق لے لوں گی تو پھر گھر کی صفائی ستھرائی کون کریگا؟؟“ پتہ نہیں اب ہرشوہر کے مقدرمیں اتنی ”فرمانبردار ی“ ہوتی ہے یا نہیں البتہ اس حوالے سے سبھی شوہر کا دکھ ”سانجھا“ ہے کہ باہر کے شیر جونہی گھر داخل ہوتے ہیں تو بالکل گردن جھکائے ،دنیا بھر کی مظلومیت چہرے پر سجاکے ”بارگاہ بیویات “میں پیش ہوجاتے ہیں۔آگے ”شہنشاہ بیوی“ کی مرضی ہے کہ ڈنڈے سے استقبال کرے یا پھر ”پھلوں “ والی چھری سے۔عموماً تھکے ہارے مظلوم شوہروں کو شکوہ رہتاہے کہ جونہی گھر داخل ہوتے ہیں تو سجی سنوری بیوی کا ”پھولاہوا منہ“ اور کڑکڑاتی ہوئی زبان استقبال کرتی ہے ۔دن بھر ”فریش فریش“ اچھلتی کودتی بیوی کی جونہی نظر اپنے شوہر پڑتی ہے تو ساری ”تازگی“ ہوا ہوجاتی ہے۔شوہروں کو عموماً شکوہ ہوتاہے کہ بیویاں ان کی عزت نہیں کرتی، ایک ایسے شوہر نے بیوی سے شکوہ کرہی ڈالا کہ دنیا بھر میں میری عزت ہے مگر ایک تم ہو کہ عزت نہیں کرتی۔ بیوی آخربیوی تھی بولی”خاک عزت کروں تمہارا کوئی ایک کام بھی عزت لائق ہوتو“ اب شوہر بیچارہ اپنا سا منہ لیکر رہ گیا، بعد میں وقفے وقفے سے بیوی نے جس طرح سے”عزت“ کی وہ شوہر ساری زندگی بھلا نہیں پائیگا۔ بعض شوہر شکوہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ شادی سے پہلے بڑے ”لش پش“ سے رہاکرتے تھے مگر اب کپڑوں کی شکنیں بذات خود ہی ”تیری صبح کہہ رہی ہے ،تیری رات کافسانہ“ کی عملی تفسیر دکھائی دیتی ہیں۔ عقدہ کھلتا ہے کہ ”بیوی بچوں کے کپڑے استری کرتا رہا جونہی اپنی باری آئی تو لائٹ چلی گئی“ گویا لائٹ بھی بیوی جیسے مزاج کی مالک ہے جو وقت پڑنے پر ساتھ چھوڑجاتی ہے۔
ایک صاحب لطیفہ سنارہے تھے کہ بیوی جنت میں چلی گئی اورشوہر کو جہنم میں لے جانے کاحکم جاری ہوا، شوہر چیخاچلایا ”یہ سارے گناہ جس کیلئے کئے تھے اسے تو آپ نے جنت کی طرف بھیج دیا ہے اور میں بیچارہ “ بیوی دور سے چلاتے ہوئے بولی ”جا جا تمہیں میری وجہ سے نہیں اپنے کرموں کی سزا ملی ہے “ بیچارہ لاکھ چیخا چلایامگر کون سنتا ۔ بیوی نے بھی وقت پڑنے پرآنکھیں پھیرلیں
صاحبو! فداحسین ملک عموماً ”حقوق شوہراں“ کے حوالے سے آواز بلندکرتے رہتے ہیں، سوشل میڈیا پر ان کی پوسٹیں قابل دید ہی نہیں بعض اوقات دکھی کردینے والی بھی ہوتی ہیں(شوہروں کو) انہیں بھی شکوہ یہی رہتاہے کہ اقوام متحدہ کوشوہروں کی مظلومیت پر ترس نہیں آتا ، اسے چاہےئے کہ کم ازکم سال کے چند گھنٹے ہی ”مظلومین“ کے نام کرتے ہوئے ”یوم مظلومین “ کااعلان کرے ۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی کاوشیں رنگ لے آئیں اور وہ بھی تاریخ میں اپنا نام رقم کراسکیں ”یوم مظلومین المعروف یوم شوہراں “ کیلئے جدوجہد کے حوالے سے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد ثقلین رضا کے کالمز
-
سرکاری حج عمرے
جمعہ 31 مئی 2019
-
انصاف، حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹیں
جمعرات 27 دسمبر 2018
-
قبرپرست
جمعہ 31 اگست 2018
-
محنت کش ‘قلم کامزدور
جمعہ 2 مارچ 2018
-
باباجی بھی چلے گئے
اتوار 28 جنوری 2018
-
پاکستانی سیاست کا باورچی خانہ اور سوشل میڈیا
بدھ 1 نومبر 2017
-
استاد کو سلام کے ساتھ احترام بھی چاہئے
ہفتہ 7 اکتوبر 2017
-
سیاستدان برائے فروخت
منگل 22 اگست 2017
محمد ثقلین رضا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.