
احتجاج کے بنا حق بھی نہیں ملتا
بدھ 20 مئی 2015

محمد ثقلین رضا
ان احتجاج کرنیوالے کے مطالبات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ان مطالبات میں بعض ایسے بھی نکات شامل ہوتے ہیں جن پربوجوہ حکومت عمل درآمد نہیں کرسکتی البتہ زیادہ مطالبات پر حکومت باآسانی عمل کرسکتی ہے لیکن ایسا ایک ہی احتجاج پرنہیں ہوپاتا اس کیلئے متعلقہ تنظیمیں احتجاج کے حوالے سے کئی کالیں دیتی ہیں۔
(جاری ہے)
ایک سوال بار بار ذہن کو کچوکے لگاتارہتاہے کہ صوبائی دارالحکومت میں بیٹھے بڑے بڑے عہدیداران نے شاید طوطے کی طرح سبق رٹ رکھا ہے کہ بنا تشدد کے کسی کو حق نہیں دینا ۔شاید یہ متشددانہ روئیے بغاوت کا باعث بنتے ہیں۔
صاحبو! گذشتہ برس تحریک انصاف کے ”آزادی دھرنے“ کے دوران ہم نے خود چھوٹے سرکاری ملازمین ،معاشرے کے پسماندہ ،حقوق سے محروم طبقات کی آنکھوں میں امید کی کرن جاگتے دیکھی یہ کرن اس بات کی بھی غماز تھی کہ شاید ان کے مقدر پر چھائے اندھیروں کے مٹنے کاوقت آگیا ہے لیکن اسے پاکستان کی بدقسمتی سے منتج کیاجائیگا کہ ملک پر 63سال سے مسلط ٹولہ ایک بار پھر ایک ہی جگہ اکٹھا نظرآیا ۔شاید اقتدار کی باریاں کھیلنے والوں کو احساس ہونے لگاتھا کہ اگر عوام اسی طرح اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہے تو پھر ان کا تسلط برقرار نہیں رہ پائیگا۔ شاید یہ پاکستانی تاریخ میں دوسرا موقع تھا کہ جب قوم کی آنکھوں میں امید کی جوت جاگی۔ پہلے اس وقت جب عدلیہ کی آزادی کیلئے قوم یکجا نظرآئی ۔امید تھی کہ یہ احتجاج رنگ لائیگا اورعوام کو بنیادی حقو ق میسرآجائیں گے مگر ایک سیاسی جماعت نے اسے اپنے رنگ میں ڈھال کر اقتدا ر کی صورت فائدہ اٹھالیااور قوم کی امید دم توڑگئی ۔دوسری بار دھرنوں کے دوران قوم کی امیدیں جاگ اٹھیں ، طریقہ کار سے سبھی کو اختلاف تھا لیکن قوم کے اتحاد کی وجہ بنیادی سہولیات ،بنیادی انسانی ،شہری حقوق کی بازیابی ہی تھے ۔
گذشتہ روز جب لاہور کی سڑکوں پراساتذہ کو ذلیل وخوار ہوتے دیکھاتو ہوک سی دل سے اٹھی کہ یہ وہ طبقہ ہے جو معاشرے کو سوچ سمجھ عطا کرتا ہے لیکن آج بذات خود اس کے ساتھ غیر انسانی سلوک جاری ہے۔ اگر اساتذہ کے بنیادی مطالبات کا جائزہ لیاجائے تو کہیں پے سکیل کاذکر ہوگا تو کہیں اضافی ڈالی گئی ذمہ داریوں سے نجات کی بات سامنے آئے گی ۔ کہیں کنٹریکٹ کی بنیاد پر سالوں حکومتی کنویں پر چکرکاٹنے والے سرکاری ملازمین کو مستقل کرنے کامطالبہ ہوگا مگر سالوں اہم ترین عہدوں پر تسط قائم کرکے حکومتی خزانے کو چاٹ جانے والے شاید ان مطالبات کو بھی ”سرکاری خزانے پر بوجھ“ تصورکرتے ہیں۔
ہرسال بجٹ کے ایام میں چھوٹے سرکار ی ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کاذکر آئے تو حکومتی کارپردان ناک بھوں چڑھاتے ہوئے قوم کو نوید سناتے ہیں خزانہ خالی ہے مگر جب پارلیمنٹ کے ٹھنڈے ٹھار کمروں میں قوم کے خزانے پر عیاشی کرنیوالوں کاذکر آتا ہے تو پھر گویا ’خزانے کے منہ “بھی کھل جاتے ہیں۔ مانا کہ قانون بنانے والوں کے حقوق زیادہ ہیں لیکن جن کے ٹیکسوں سے ملک کاکاروبار چل رہاہے انہیں بھی تو بنیادی سہولیات کی فراہمی ضروری ہے مگر اس جانب کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں۔
ایک سرکاری سیمینار میں شرکت کا موقع ملا تقریباً ہر مقرر (جو زیادہ تر بڑے افسران ہی تھے) نے حضرت عمرفاروق کے مشہور زمانہ قول”دریائے فرات کے کنارے اگر بھوکا پیاسا کتا بھی ماراگیاتو عمرجواب دہ ہوگا“ کا حوالہ دیاہم آخری وقت تک سوچتے رہے کہ خلیفہ ثانی نے تو انسان تو کجا ایک عام سے کتے کے حق کے حوالے سے یہ ارشاد فرمایا تھا یہاں یہ صورتحال ہے کہ انسانوں کو بنیادی حقوق میسر نہیں۔ایسے میں اگر حق دینے والے اگر ڈھٹائی سے بھوکے پیاسے کتوں کاذکر کریں تو پھر․․․․․․․․․․․․جس دھرتی میں جانور ہی نہیں بلکہ انسان بھی بھوک پیاس کے مارے موت کو گلے لگانے پر مجبورہوں ،جہاں غربت کے مارے لوگ اپنی اولاد کو بیچنے کیلئے بازار آجائیں ،جہاں خون بکتاہو، جہاں انسان بکتا ہو ،جہاں انسانیت سسکتی ہو ۔پتہ نہیں اس دیس کے حاکم رات کے وقت سکون کی نیند کیسے سوپاتے ہیں۔ انہیں نہ تو بازاروں میں بکتے انسانوں کاملال ہوتاہے اورنہ ہی غربت کے مارے خود کشی کرنیوالے زندہ سلامت انسانوں کی پرواہ۔ وہ جو فرمان خداوندی ہے کہ جب دل پر سیاہی کا ایک نقطہ بڑھتے بڑھتے پورے دل پرقبضہ جمالے تو پھر دیکھنے اور سننے کی صلاحیت ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ پھر نہ تو رعایا کی چیخ وپکار سنائی دیتی ہے اور نہ ہی ماؤں کے لخت جگر بکتے ہوئے نظرآتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
محمد ثقلین رضا کے کالمز
-
سرکاری حج عمرے
جمعہ 31 مئی 2019
-
انصاف، حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹیں
جمعرات 27 دسمبر 2018
-
قبرپرست
جمعہ 31 اگست 2018
-
محنت کش ‘قلم کامزدور
جمعہ 2 مارچ 2018
-
باباجی بھی چلے گئے
اتوار 28 جنوری 2018
-
پاکستانی سیاست کا باورچی خانہ اور سوشل میڈیا
بدھ 1 نومبر 2017
-
استاد کو سلام کے ساتھ احترام بھی چاہئے
ہفتہ 7 اکتوبر 2017
-
سیاستدان برائے فروخت
منگل 22 اگست 2017
محمد ثقلین رضا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.