
کالاباغ ڈیم
بدھ 3 فروری 2016

محمد ثقلین رضا
دوسری جانب واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ملکی ترقی کیلئے نہایت ہی ضروری ہے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں اظہارخیال کے دوران سابق چیئرمین واپڈا کا کہناتھا کہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں صرف اے این پی ہی اس منصوبے کی مخالفت کررہی ہے جبکہ گزشتہ عام انتخابات میں اسے مجموعی طورپر صرف پانچ لاکھ افراد نے ووٹ دئیے گویا اسی سے پچاسی فیصد لوگوں نے اس پر اعتماد ہی نہیں کیا ان کاکہناتھا کہ محض پانچ لاکھ افراد کی حمایت والی جماعت نے لاکھوں لوگوں کے دل کی آواز کو نہ سنا ان کا کہناتھا کہ پانی کے ذریعے پیداہونیوالی بجلی کی لاگت ایک روپے سے زائد ہوتی ہے جبکہ تھرمل یا دیگرذرائع سے حاصل ہونیوالی بجلی سولہ سترہ روپے فی یونٹ خرچ آتا ہے ان کا ایک ہی سوال تھا کہ اب تک کالاباغ ڈیم نہ بننے سے خیبرپختونخواہ کو کیا فائدہ حاصل ہوا ؟انہوں نے نقصان فائدے کو ایک پلڑے میں تولنے کے بعد کہا کہ اس ڈیم کی بدولت پورا پاکستان فائدے میں رہیگا جبکہ نقصان کی شرح بیحدمعمولی ہوگی۔
(جاری ہے)
کچھ عرصہ قبل سابق وزیر احمدمختیار نے فرمایاتھا کہ غیر ملکی قوتیں کالاباغ ڈیم کی راہ میں رکاوٹ ہیں پتہ نہیں انہوں نے یہ بیان جاری کرتے ہوئے کس جانب اشارہ کیاتھا ؟؟ آج سے محض چند ماہ قبل ہی اسمبلی میں آواز اٹھائی گئی کہ کالاباغ ڈیم سمیت دیگرڈیموں کی تعمیر رکوانے کیلئے بھارت دو ار ب روپے خرچ کررہاہے جس پر ایوان مچھلی منڈ ی بن گئے دو بڑی سیاسی جماعتوں نے اسے اپنے اوپر تنقید قرار دیاتھامگر آج گزرے وقت کے ساتھ یہ بات سچ ثابت ہوچکی ہے خاص طورپر ایم کیو ایم کے حوالے سے یہ بات سامنے لائی جاچکی ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را ایم کیو ایم کو اہم پاکستانی منصوبہ جات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے پیسے دیتی رہی ہے۔اس ضمن میں عرض کرناضروری ہے کہ جب سابقہ دور میں قومی اسمبلی میں یہ آواز اٹھی تو اس وقت سب سے زیادہ چیخ وپکار ایم کیو ایم کی طرف سے تھی یا پھر یہ آواز خیبر پختونخواہ کی جماعت اے این پی نے بھی بلند کی ۔فی الوقت اے این پی پرایسے کسی الزام کے ضمن میں کچھ ثابت نہیں ہوسکا البتہ ایم کیو ایم تاحال الزامات کی زد میں ہے۔ ہم نے کچھ عرصہ قبل بھی عرض کیاتھا کہ ایسے منصوبہ جات جن کا براہ راست قومی مفاد سے تعلق ہوتاہے ایسے منصوبہ جات پر خدارا کوئی سیاست نہ کی جائے اورنہ ہی ایسے منصوبہ جات کو ذاتی نفع نقصان کے پلڑے میں تولاجائے بلکہ ان کے بارے میں بحیثیت پاکستانی ہی سوچااور پرکھا جاناچاہئے ۔مزید کچھ عرض کرنے سے قبل دو خبریں بھی قارئین کی توجہ کیلئے پیش کریں گے نیپرا کے مطابق پاکستان اس وقت تیس ہزار میگاواٹ بجلی پیداکرنے کی صلاحیت رکھتاہے جبکہ اس وقت پیدوار صرف پندرہہزار میگاواٹ سے زائد ہے (تادم تحریر کہاجارہاہے کہ اب یہ سترہ ہزار میگاواٹ کے قریب پہنچنے کو ہے) جس میں سے چالیس فیصد بجلی لائن لاسز چوری کی نذر ہوجاتی ہے رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ کام چونکہ بغیر حساب کتاب کے ہورہاہے اس لئے کوئی چیک اینڈبیلنس بھی نہیں ہے جبکہ سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی اور تقسیم کارکمپنیوں میں خریدوفروخت کا معاہدہ بھی نہیں ہے ۔دوسری خبر گوکہ معمول کی کہانی ہی ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں فی یونٹ چار پیسے اضافہ کیاجاتا ہے تواس چار پیسے کو ایک یونٹ کے پلڑے میں نہیں تولناچاہئے بلکہ ہزاروں لاکھوں یونٹ کے پلڑے میں دیکھاجائے تویہ رقم کروڑوں تک جاپہنچتی ہے یقینا یہ رقم اگر عوام کی جیبوں میں رہے اورانہیں لوڈشیڈنگ جیسے عذاب سے بھی نجات مل جائے ان کے روزگار پر برقی عذاب نازل نہ ہو توانائی کے بحران کے حل ہونے پر انہیں روزگار میسرآجائے دیہاڑی دار طبقہ کے چولہے پھر سے گرم ہوجائیں تو یقینا یہ نفع معمولی نقصان سے کہیں زیادہ ہے ۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ماہرین آب کے مطابق آنیوالے دنوں میں پانی پر ہی جنگیں لڑی جائیں گی بات کس حد سچ ہے یا ا س میں جھوٹ کی کوئی ملاوٹ شامل ہے ہم اس بحث میں پڑے بغیر اتنا عرض کریں گے کہ پاکستان پانی کاقلت کاشکار نہیں ہوسکتا کہ اگر وسائل کو باقاعدہ پلاننگ کے مطابق استعمال کیاجائے یہ بھی حقیقت ہے کہ موسم برسات میں جس قدر سیلابی اور پہاڑوں سے آنیوالا پانی اگر جمع(سٹور)کیاجائے تو یہ سال بھر کیلئے پاکستانی ضروریات کیلئے کافی ہوگا نہ صرف بلکہ اس پانی کی بدولت توانائی کے بحران پر بھی قابو پایاجاسکتاہے۔ جیسا کہ نیپرارپورٹ میں کہاگیا ہے کہ چونکہ پلاننگ کا فقدان ہے اس لئے وسائل استعمال نہیں کئے جارہے اگر توانا ئی کے بحران پرقابو پانا ہے تو اول پلاننگ پر توجہ دیناہوگی دوئم کسی بھی منصوبے کو سیاسی مفاد کے پلڑے میں تولنے سے گریز کرناہوگا سوئم ڈیم چاہے کا لاہویاسفیدعلاقائیت لسانیت کی بنیادوں پر ان منصوبوں کی تخصیص ختم کرناہوگی چہارم صرف کالاباغ ‘بھاشا ڈیم ہی نہیں بلکہ مستقبل کے توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے کئی چھوٹے بڑے ڈیم بناناہونگے اور اس ضمن میں جہاں جہاں ممکن ہو یہ منصوبے شروع کئے جائیں
پنجم یہ کہ ان منصوبہ جات کے ضمن میں ایک حکومت کی مخالفت سامنے رکھ کر دوسری حکومت ختم کرنے کی کوشش نہ کرے ۔اگر ان اقدامات کو یقینی بنالیاجائے توپاکستان توانائی کے عذاب سے نجات حاصل کرلے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد ثقلین رضا کے کالمز
-
سرکاری حج عمرے
جمعہ 31 مئی 2019
-
انصاف، حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹیں
جمعرات 27 دسمبر 2018
-
قبرپرست
جمعہ 31 اگست 2018
-
محنت کش ‘قلم کامزدور
جمعہ 2 مارچ 2018
-
باباجی بھی چلے گئے
اتوار 28 جنوری 2018
-
پاکستانی سیاست کا باورچی خانہ اور سوشل میڈیا
بدھ 1 نومبر 2017
-
استاد کو سلام کے ساتھ احترام بھی چاہئے
ہفتہ 7 اکتوبر 2017
-
سیاستدان برائے فروخت
منگل 22 اگست 2017
محمد ثقلین رضا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.