چھوٹو گینگ اورجنوبی پنجاب کے ڈیرے

اتوار 17 اپریل 2016

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

ملتان ‘رحیم یارخان ‘مظفر گڑھ ہویا لیہ ‘بھکر‘راجن پور ‘ڈیرہ غازی خان ‘جنوبی پنجاب پرمشتمل اس وسیب پر ہمیشہ سے وڈیروں کاراج رہا ہے‘ ملتان یا مظفر گڑھ ‘رحیم یار خان سمیت وسیب کے شہری علاقوں کی بات نہیں کرتے کیونکہ جہاں علم کی روشنی پھیلی‘ وسائل کی بدولت زمینی ترقی ممکن ہوئی ‘ ان علاقوں میں اب وڈیرے نام کے رہ گئے ہیں ورنہ ملتان نشیب ہو یا ڈیرہ غازی خان کے انتہائی محروم پسماندہ علاقے ‘وہاں آج بھی وڈیروں کا راج ہے۔

ظاہر ہے کہ جہاں وڈیرے ہوں گے وہاں ڈیرے دار ی بھی ہوگی۔ان علاقوں کے ولی وارث اور ناخدا یہی وڈیرے ہی ہوتے ہیں ان کی منشا کے بغیر پتہ تک نہیں ہلتا‘ یہ آج کی کہانی نہیں بلکہ ماضی میں ایسی کئی کہانیاں سامنے آئیں کہ ان ڈیروں پر رسہ گیر‘ ڈکیت اوردیگر مجرمان کو پناہ ملتی رہی‘ ظاہر ہے کہ ڈیرے پرآتے آتے پولیس اور قانون کی سانس اکھڑجاتی تھی اس لئے ان وڈیروں کی پشت پناہی کی بدولت کئی مجرمان پنپتے رہے‘ انہی ڈاکوؤں‘ لٹیروں‘ بدمعاشوں کے بل بوتے پر جہاں وڈیروں کی سکھاشاہی قائم رہی وہاں کئی غریب غربا زمین جائیداد سے محرومی کے بعد زمینداروں کے غلام‘باندی بن کرر ہ گئے بلکہ یہ کام وراثتی طورپر پہلے بھی جاری تھا اورآج بھی جاری ہے۔

(جاری ہے)

ماضی کو کھنگالیں یا حال کودیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان ڈیروں پر پناہ لینے والوں میں جہاں قتل سمیت انتہائی سنگین جرائم میں ملوث مجرمان کو پناہ ملتی رہی وہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں خاص طورپر پولیس افسران ا وراہلکاران کی روزی روٹی کاسامان بھی میسر ہوتارہا ۔ یعنی ایک ہی ڈیرے پر قانون اورمجرم بیک وقت فیض یاب ہوتے رہے۔
اب اگر غلام رسول المعروف چھوٹو کی زندگی کامطالعہ کیاجائے تو بالکل واضح ہوجائیگا کہ غلام رسول بھی ایک ڈیرے دار کا مزارع تھا اور پھر اس کے ظلم وستم کے باعث علاقہ چھوڑکر جرائم پیشہ گروہ میں شامل ہوگیا اورپھر وہی چھوٹو جب دہشت ‘وحشت کی علامت بنا تو علاقہ کے وڈیرے تک محفوظ نہیں رہے بلکہ پولیس افسران سمیت بااثر ‘مال ودولت رکھنے والا کوئی بھی شخص محفوظ نہ رہا۔

گو کہ غلام رسول المعروف چھوٹو کی مجرمانہ زندگی کی ابتدا اصل میں وڈیروں سے انتقام سے شروع ہوئی اور آج یہ آتش فشاں بہت سے لوگوں کو نگلنے کے باوجود چین سے نہیں بیٹھ رہا۔ وہی پولیس جووڈیروں اورڈیرہ داروں کی چاپلوسی کرتی نظرآتی ہے آج ایک گینگسٹر کے خلاف ناکامی کااعلان کرچکی ہے۔ مجبورا آرمی اور رینجرز کو ذمہ دار ی اٹھاناپڑی۔ لیکن کئی سوالات آج بھی تشنہ طلب ہیں کہ ایک مزارع کن وجوہات کی بناپر گینگسٹر بنا ؟ اپنی مجرمانہ زندگی کے آغاز سے اب تک اتنے بڑے گینگ کیخلاف کاروائی نہ کرنے کے پیچھے کیا راز کارفرمارہا؟ کیا اس گینگ کے بل بوتے پر سیاستدان اپنے مخالفین کیخلاف انتقام کی انتہا تک نہیں جاپہنچے۔

یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ ڈاکوؤں کا اتنا بڑا گینگ چلانے والے شخص کی گردن کیا اس قدر موٹی تھی کہ قانون کاپھندہ اس گلے میں فٹ نہ بیٹھ سکا ۔حالیہ دنوں میں پولیس افسران کے ساتھ چھوٹو کی سامنے آنیوالی گفتگو سے بھی واضح ہے کہ چھوٹو کوایسے کئی افسران کی آشیر باد حاصل رہی ۔
چھوٹو گینگ کا ایک طرف رکھتے ہوئے اگرجنوبی پنجاب کے ان نشیبی علاقوں کا جائزہ لیاجائے جو دریائے سندھ کے کنارے آباد توبالکل چھوٹو جیسی کہانیاں ہی سامنے آتی ہیں۔

ان علاقوں میں مجرمان کا راج ہے‘ جو کسی طورپر جرائم ‘سفاکیت کے حوالے سے چھوٹو گینگ سے کم نہیں‘ چھوٹے موٹے جرائم سے لیکر قتل اغوا برائے تاوان جیسے بڑے جرائم تک میں ملوث مجرمان انہی علاقوں میں پناہ گزین ہیں۔ کیا قانون یا قانون نافذ کرنیوالے ادارے نہیں جانتے کہ ان علاقوں میں شام ڈھلے آمدورفت موت کو دعوت کے مترادف ہوتی ہے۔

ایک اورعجیب سی بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ ملتان کے نشیبی علاقوں سے لیکر خیبرپختونخواہ تک کے دریائی علاقوں تک کے بڑے بڑے گینگز کا آپس میں رابطہ رہتاہے اور بوقت ضرورت یہ ایک دوسرے کے ہاں پناہ لیتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپریشن یا کاروائی کی صورت میں پھر قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا اس کی ایک اوروجہ پولیس اوردیگر اداروں میں ان مجرمان کے مخبروں کی موجودگی بھی ہے جو کاروائی سے کئی گھنٹے پہلے ہی انہیں علاقہ چھوڑنے کامشور ہ دیتے ہیں۔


اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا صوبائی حکومت کے کارپردان نہیں جانتے کہ اس طویل ترین دریائی پٹی پر کس کا راج ہے ؟ مسلم لیگ ہی نہیں ماضی میں پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے ادوار میں بھی انہی گینگز کو سیاستدانوں کی سرپرستی حاصل رہی جن کے بل بوتے پر نہ صرف ان جرائم پیشہ افراد کو کھل کھیلنے کاموقع ملا بلکہ سیاستدانوں کی دہشت اوروحشت بھی باقی رہی ‘ آج کچہ (دریاکی وسیع پٹی)پر انہی گروہوں کا راج ہے ۔

اگر بنظر ایں ہمہ ان علاقوں کے سیاستدانوں کاجائزہ لیاجائے تو ان کی اکثریت ہرحکومت کے کاندھے سے کاندھا ملائے کھڑی نظرآتی ہے یعنی ہردور میں انہی مخصوص خاندانوں کا راج ہوتا ہے تبھی تو آج تک ان گینگز کیخلاف پولیس سمیت قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے آج تک کاروائی نہیں کی۔
اب ایک اوربات بھی سامنے رکھئے کہ صوبائی حکومت کے کارپردان کافی عرصہ سے پنجاب میں امن امن کی گردان الاپ رہے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب کی یہ طویل دریائی پٹی ہرقسم کے مجرمان سے بھری ہوئی اور شواہد یہ بھی سامنے آئے ہیں کہ خیبرپختونخواہ کے علاقہ غیر کی طرح اس طویل ترین پٹی کے ان گینگز کے ہاں بلوچستان کے وہ مشہور زمانہ علیحدگی پسند بھی پناہ گزین ہیں جو ہردور میں قانون اور ریاست کے خلاف برسرپیکار رہے۔

جبکہ یہ بھی کھل کرسامنے آرہا ہے کہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث مجرمان بھی اسی پٹی میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا صوبائی حکومت اس کی خبر نہیں رکھتی؟جواب انتہائی سیدھا سادھا سے ہے کہ حکمران اور ان کے حامی ممبران اسمبلی کو خوب خبر ہے کہ یہ دریائی پٹی مجرمان کا گڑھ ہے مگر انہیں خطرہ بھی یہی لاحق ہے کہ کہیں کسی آپریشن کی صورت میں ان کی دم پرقانون کا پاؤں نہ پڑجائے ۔

آج بھی ملتان کے نشیب سے لیکر خیبرپختونخواہ سے ملتی بھکر کی سرحدوں تک ان دریائی علاقوں میں پناہ گزین سینکڑوں مقدمات کے حامل خطرناک مجرمان کو مقامی وڈیروں اورممبران اسمبلی کی پشت پناہی حاصل ہے۔ شاید اسی وجہ سے ہی صوبائی حکومت کے کارپردان اس بات پر بضد تھے کہ وہ پولیس کے ذریعے ہی آپریشن کرائیں گے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی بھی دباؤکی صورت میں پولیس کے ذریعے بعض لوگوں کو ”مقابلہ “ میں پارکراکے کئی خفیہ داستانوں کو خاموش کرادیاجاتا ہے۔

اب جبکہ چھوٹوگینگ کے خلاف آرمی برسرپیکار ہے تو دوباتیں یہ بھی ہوسکتی ہیں کہ اگر چھوٹو یا اس کا کوئی خاص کارندہ آرمی کے ہاتھ زندہ حالت میں لگ گیا تو پھر کئی ناموں کی پردہ کشائی ہوسکتی ہے۔ یہی وہ خوف ہے جو صوبائی حکومت کے کارپردان کے چہرے سے عیاں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :