
احساس کمتری
اتوار 26 مارچ 2017

محمد ثقلین رضا
(جاری ہے)
کچھ ہی دنوں قبل ایک بزرگ ماہر تعلیم سے ملاقات ہوئی ان کے شکوے شکایات کچھ ویسی ہی تھیں جس کا اظہار ہم نے ایک عالم دین کی زبانی کرچکے ہیں، یہ ماہرتعلیم حقیقی معنوں اورجذبہ خدمت کے تحت خلوص نیت سے بچوں کو تعلیم دیتے رہے اورآج بھی یہ کام جاری رکھا ہوا ہے لیکن وہ پوچھتے ہیں کہ وہ تو اپناکام ایمانداری سے اور عبادت سمجھ کر کرتے ہیں لیکن فی زمانہ اسے ہی اچھا استاد تصورکرلیاگیا ہے جس کی ٹیوشن فیس زیادہ ہو، وہ ادارہ قابل تکریم سمجھاجاتاہے جو داخلہ فیس اورماہانہ فیس کے نام پر والدین کی جیب خالی کردے اورپھر خوبصورت وردیوں کی آڑ میں لوگوں کو اپنی جانب راغب کرکے دراصل بچوں کی گھر یلو تربیت کا بھی بیڑہ غرق کردے، ان صاحب کا گلہ ہے کہ ہم تو تعلیم اورتربیت کو ساتھ لیکر چلنے والے لوگ ہیں لیکن آج کل کھلی تعلیمی دکانوں نے تربیت کا تو بالکل ہی بیڑہ غرق کردیا لیکن والدین ہیں کہ انہی جانب کھچے چلے جارہے ہیں ،لگتا ہے کہ انہیں تربیت کی ضرورت نہیں بلکہ وہ اپنے بچوں کوگٹ بٹ کرتے انگریز تو بناناچاہتے ہیں لیکن اچھا انسان نہیں۔
یہ صرف دوچار افرادیا کسی بھی شعبہ سے وابستہ حقیقی اورمخلص لوگوں کا شکوہ نہیں جیسا کہ ہم ابتدا عرض کرچکے ہیں کہ یہ شکوہ ،شکایت ہرشعبہ کے ہراس شخص کو ہے جو اپنے شعبہ سے خلوص نیت کے ساتھ جڑا ہے لیکن اسے یہ دکھ بھی رہتاہے کہ اس کا خلوص اور وفا بھی معاشرہ کی نظر میں اہمیت نہیں رکھتی بلکہ ”دکھاوا“ زیادہ پراثر ہوچکا ہے ایسے ہی لوگ خواہ مخواہ احساس کمتری کاشکارہوجاتے ہیں، بہت عرصہ پہلے ہم خود سے سوال کرتے رہے کہ معاشرہ واقعی اس حد تک بگاڑکاشکار ہوچکا کہ اسے اچھے برے اورخلوص وفا کی ضرورت نہیں رہی ، لیکن پھر ایک بزرگ کاقول سامنے آیا کہ جوہری ہمیشہ ہیرے کی تلاش میں رہتا ہے اورچاہے اسے پاتال میں اترناپڑے یا پھر سنگلاخ پہاڑوں کو پاٹنا پڑے وہ ضرور یہ حاصل کرکے رہتا ہے، شاید انہی جوہریوں کی وجہ سے معاشرہ کی اچھائیاں باقی ہیں، سوال کاجواب مل چکا ہے ،لیکن پھر ایک سوال سامنے آکھڑا ہے کہ کیا معاشرہ کے قلیل لوگ ہی اچھائی کے طلب گار ہیں، خلوص کی چاہت ہے محض چند لوگوں کو ہے؟ اندر سے جواب آتا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے کہ تلاش والے ظاہری نمودو نمائش سے وقتی طورپر متاثر ہوکر اس کی طرف چل ضرور پڑتے ہیں لیکن وہاں سے خالی سپیاں ہی ملتی ہیں تو وہ پھر تلاش کے سمندر میں کود کر ہیرا ضرور تلاش کرلیتے ہیں۔ شاید ابھی تلاش والوں کی آنکھ ظاہری چکاچوند کے باعث پوری طرح کھل نہیں سکیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد ثقلین رضا کے کالمز
-
سرکاری حج عمرے
جمعہ 31 مئی 2019
-
انصاف، حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹیں
جمعرات 27 دسمبر 2018
-
قبرپرست
جمعہ 31 اگست 2018
-
محنت کش ‘قلم کامزدور
جمعہ 2 مارچ 2018
-
باباجی بھی چلے گئے
اتوار 28 جنوری 2018
-
پاکستانی سیاست کا باورچی خانہ اور سوشل میڈیا
بدھ 1 نومبر 2017
-
استاد کو سلام کے ساتھ احترام بھی چاہئے
ہفتہ 7 اکتوبر 2017
-
سیاستدان برائے فروخت
منگل 22 اگست 2017
محمد ثقلین رضا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.