
سستا رمضان بازاروں کی حقیقت اور انتظامیہ کے” وارے نیارے“
پیر 20 مئی 2019

محمد سکندر حیدر
ماہ صیا م میں خالق خود چاہتا ہے کہ اُس کے گناہ گار بندوں کو تھوڑی سی محنت بصورت دعُا، توبہ اور روزہ کے عوض انہیں جہنم کی آگ سے بخشا جائے۔ مگر صد افسوس اِس قدر با برکت اور مغفرت والے ماہ میں شیطان کے پیر وکار بندے بے ایمانی ، حرام خوری ، ریاکاری ، جھوٹی نیکیوں اور دُنیاؤی افطاریوں کی سوشا سے پھر بھی باز نہیں آتے۔
(جاری ہے)
دُکھ تو اِس بات کا ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے پنجاب حکومت بھی جھوٹی نیکیوں کے سوشا کلچر کی بناپرہر سال رمضان بازار وں کے نام پرغریبوں کے جذبات سے کھیلتی چلی آرہی ہے۔ سستا رمضان بازارکا آغاز میاں شہباز شریف نے اپنی حکومت 2008-13 میں شروع کیا۔ اُن کی نیت کیا تھی خدا بہتر جانے مگر بیوروکریسی اور سیاسی افراد نے اِس سستا رمضان بازار کی آڑ میں ایک طرف غریبوں کا مزاق اُڑایا ہے تو دوسری طرف ہر سال قومی خزانہ کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ قومی خزانہ میں غریبوں کا خون و پسینہ بھی شامل ہوتا ہے۔ باالفاظ دیگر سستا رمضان بازاروں کے نام پر دنوں صورتو ں میں غریب کا تماشہ بھی بن رہا ہے اور نقصان بھی ۔
سستا رمضان بازاروں کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو آنکھیں شرم سے جھُک جاتی ہیں کہ قبیلہ ابلیس کو بخشش کے مقدس ماہ کا خوف بھی نہیں۔سستا رمضان بازاروں میں غریب عوام کوخوبصورت ٹینٹ، کرسیوں، ایئر کولروں ، کرسی میزوں اورسٹالوں کی سجاوٹ، افسران کے فوٹو سیشن پر مبنی وزٹ، موبائل سفلیوں کے شوٹ، پنجاب پولیس کے نوجونواں کی سکیورٹی کا رُعب، واک تھرو گیٹ، رنگ برنگی پینا فلیکس پر شائع شدہ صاحب اقتداران کی تصاویر اور اُن پر تحریر کردہ دعوؤں کی آڑ میں سرعام بے وقوف بنایا جاتا ہے۔
سستا رمضان بازاروں میں حکومت پنجاب کے محکمہ زراعت ( اکنامکس اینڈ مارکیٹنگ)کی طرف سے فقط ایک فیئر پرائس شاپ قائم ہوتی ہے جہاں ہر سال 12-15 خوردنی اشیا ء پر سبسڈی کا ڈرامہ رچایا جاتاہے۔ اِس سبسڈی کے بعد اِن اشیاء کی قیمتوں میں2تا10روپے تک اوپن مارکیٹ سے ریلیف ظاہر کیا جاتا ہے مگر عمومی طورپر اِن اشیاء کا معیار اوپن مارکیٹ سے بہتر نہیں ہوتا۔قدرے کم معیار کی بناپر ریلیف خود بخود بن جاتا ہے۔ مگر سرکاری کاغذات میں یہ سبسڈی ظاہر کی جاتی ہے۔ اِس ایک فیئر پرائس شاپ کے علاوہ رمضان بازاروں جو دکاندار اپنے اپنے سٹال سجائے بیٹھے ہوتے ہیں وہ فقط اوپن مارکیٹ سے دو تین روپے کم نرخ پر مال فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ اِس کے باوجود وہ ایک کثیر منافع پھر بھی کما جاتے ہیں۔ اِن دوکانداروں کو مختلف قسم کی سہولیات ، نقد انعام وغیرہ کا لالچ دے سستا رمضان بازاروں میں لایا جاتا ہے تاکہ رمضان بازار وں کو حکومت پنجاب کے حکم کے مطابق سجایا جاسکے۔
سستا رمضان بازاروں میں گاہکوں ، سیل ، اشیاء کے نرخ اور اُن پر اُٹھنے پر اخراجات کا اگرموزانہ کیا جائے تو بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ یہ سستا رمضان بازار غریب عوام کو ریلیف کم اور سرکاری کرپٹ اہلکاروں کو کرپشن کا موقعہ زیادہ فراہم کر رہے ہیں۔ہر سال پنجاب کے 36اضلاع میں 135مارکیٹ کمیٹیاں ، متعلقہ میونسپل کارپوریشن و میونسپل کمیٹیاں اورضلعی انتظامیہ باہم اشتراک سے300 سے زائدسستا رمضان بازار بمعہ فیئر پرائس شاپ قائم کر تی ہیں۔عمومی طریقہ کار یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ تین ممبران ، ایک ضلعی انتظامیہ کا افسر، ایک محکمہ زراعت کا افسر اور متعلقہ سیکٹریری مارکیٹ کمیٹی پر مشتمل پرچیز کمیٹیاں بناتی ہے۔ اِن پرچیز کمیٹیوں کے ارکان نے صبح سویرے سبزی منڈی وغیرہ میں خریداری کرنی ہوتی ہے مگر عملی طورپر ایسا نہیں ہوتا۔
ضلعی انتظامیہ کا نمائندہ اور محکمہ زراعت کا افسر اکثر غائب رہتا ہے جبکہ سیکٹریر ی مارکیٹ اپنی مرضی سے ہر روز خریداری خود اکیلا کرتا ہے۔ اب وہ کتنی بارگینگ و کرپشن کرتا ہے کوئی خبر نہیں مگر حکومتی سبسڈی پرکرپشن کی پہلی ضرب یہی ہوتی ہے۔اِس کے علاوہ یہ لوگ بوگس اور جعلی بل بناتے ہیں۔ ا ِس کے بعد فروخت ہونے والی اشیا ء کی پیکنگ، سارٹنگ اور ویسٹ مال کا خرچہ بھی سیکٹریری مارکیٹ خود طے کرتا ہے ۔ اِس کام کے لیے مزدور وں کو اُجرت دی جاتی ہے۔ اِس مرحلہ پر بھی کوئی شفافیت نہیں ہوتی اور یہاں بھی کرپشن کی جاتی ہے۔ اشیا ء کی تیاری وفروخت مارکیٹ کمیٹیوں کی ذمہ داری ہے۔ لہذا سبسڈی بشمول خراجات کا فنڈ بھی انہی لوگوں کے پاس ہوتا ہے۔
دوسری جانب متعلقہ میونسپل کارپویشن اور میونسپل کمیٹیاں ضلعی انتظامیہ کے باہمی اشتراک سے رمضان بازاروں کے انتظامات و قیام کو عملی شکل د یتی ہیں۔ اِس کے لیے کروڑوں روپے کے بوگس بمعہ فرضی ریٹ کے بلز بنائے جاتے ہیں۔ رمضان بازاروں میں نظر آنے والی سجاوٹ و سوشا ہر سال کروڑوں روپے کی کرپشن کا چوناقومی خزانے کو لگا رہی ہوتی ہے۔ اِس کے علاوہ وفاقی حکومت ہر سال رمضان المبار ک کے لیے یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن آف پاکستان کو اربوں روپے کی گرانٹ بطور سبسڈی جاری کرتی ہے جوکہ کرپشن کی ایک الگ کہانی ہے۔
16مارچ2019کی ایک خبر کے مطابق محکمہ انٹی کرپشن لاہور نے 2017اور 2018میں لاہور میں رمضان بازارں کے قیام کے لیے 380ملین روپے کے بوگس بلوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے اور 8ٹاؤن میونسپل آفیسروں سمیت ٹھیکہ داروں کو اپنے پاس طلب کر لیا ہے۔بعینلاہو ر کی مانند ہی ڈیرہ غازیخان شہر میں سابق مئیر میونسپل کارپوریشن شاہد حمید چانڈیہ نے بھی 2017 اور 2018 میں دو سستا رمضان بازار بمقام چوک چورہٹہ اور ماڈل بازار میں لگوائے۔ اِن بازاروں کے قیام پر یعنی کرایہ داری ٹینٹ، جنریٹر اور ساؤنڈ سسٹم، اورخریداری سب بیس (ریت)، رگزین شیٹ،ائیر کولر، پنکھے، الیکٹرک سامان وغیرہ پر کل 54لاکھ 49ہزار 897روپے خرچ کیے جبکہ 2018میں یہ خرچہ 65لاکھ ایک ہزار454روپے ظاہر کیا گیا۔ یہ تمام اخراجات بوگس اور فرضی نرخوں پر مشتمل بلوں کے ذریعے پیپرا رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من پسند ٹھیکہ داران کو ادا کیے گئے ہیں اور ایک بھاری کرپشن کرکے سرکاری خزانہ کو چونا لگایا گیا ہے۔
امسال بھی یکم مئی سے شہر میں دو سستا رمضان بازار قبل از اشاعت ٹینڈر اشتہار سے قائم کر دیے گئے ہیں جبکہ ٹینڈر کال 13مئی کو دی گئی تھی۔ جوکہ فقط کاغذی کاروائی کی خاطر تھی ورنہ تمام سامان کرایہ داری اور خریداری من پسند ٹھیکہ داروں کی معرفت پہلے ہی منگوالیا گیا تھا۔ اب ایک بار پھر گذشتہ دوسالوں کی طرح بوگس بل فرضی ریٹس کے ساتھ بنائے جائیں گے۔
مارکیٹ کمیٹی ڈیرہ غازیخان کے اعداد وشمار کے مطابق 2017میں کل 71257افراد بحساب اوسطاً1149 افراد نے روزانہ رمضان بازاروں سے خریداری کی اور فقط اشیا ء کی فروخت وتیاری پر مارکیٹ کمیٹی نے 3456912روپے خرچ کیے۔ اِسی طرح 2018میں کل 104579افراد بحساب اوسطاً1742 افراد نے روزانہ رمضان بازاروں سے خریداری کی اور اِس پر مارکیٹ کمیٹی کا خرچہ 3708695روپے ہوا جوکہ سبسڈی میں سے کیا جاتاہے۔ جبکہ ضلعی افسران، پولیس اور دیگر محکمہ جات کا خرچ اِس کے علاوہ ہے۔ یعنی روزانہ 1149تا1742افراد کے لیے شہر کے دو رمضان بازار بمقام چوک چورہٹہ اور رمضان بازار بمقام ماڈل بازار پر حکومت کا کروڑوں روپے ضیائع کیا گیا۔
اسی طرح سرکاری اعداد وشمار کے مطابق2010 میں پنجاببھر میں 249سستا رمضان بازار، 2011میں، 226سستا رمضان بازار،2012میں پنجاب میں 287سستا رمضان بازار، 2013میں 297سستا رمضان بازار، 2014میں 315سستا رمضان بازار، 2015میں 331سستا رمضان بازار، 2016میں 330سستا رمضان بازار، 2017میں 318سستا رمضان بازار، 2018میں 330سستا رمضان بازارقائم کیے گئے جبکہ امسال 2019میں 19اشیاء کی فیئر پرائس شاپ پر فروخت کے لیے پنجاب بھر میں309 رمضان بازار25شعبان یکم مئی سے قائم کیے گئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے 502.50ملین روپے کی گرانٹ جاری کی گئی ہے۔ سات اشیاء پیاز، ٹماٹر، کجھور، دال چنا ، بیسن ، چاول اور لیموں کو گذشتہ سال 2018کے نرخوں پر سسبڈی کے ساتھ فروخت کیا جا رہا ہے جبکہ 12اشیاء آلو، بھنڈی، کریلا، گدو، کیلا، سیب، سفید چنا موٹا، مسور دال ثابت، دال مسور موٹی، دال ماش چمن، لہسن اور ادرک پر کوئی سبسڈی نہیں دی جارہی۔ فقط 4روپے تا 10روپے اوپن مارکیٹ سے ریٹ کم ظاہر کیا ہوا ہے جبکہ دوسری جانب مارکیٹ کمیٹیوں نے اِن 12اشیاء کا اوپن مارکیٹ کا ریٹ پہلے سے 10تا15روپے زیادہ مقرر کر رکھ ہے۔ یوں یہ فقط ایک دھوکہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
پاکستان شوگر ملز ایسو سی ایشن کی جانب سے 10روپے فی کلوچینی اور پاکستان وناسپتی مل ایسوسی ایشن کی جانب سے10روپے فی لیٹر وکلو کوکنگ آئل اور گھی پر حکومت کو رعایت دی جا رہی ہے۔ یعنی اِس پر حکومت کا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ ایسوسی ایشن کی جانب سے ایک اضافی تعاون ہے۔
اگر ڈیرہ غازی خان شہر کے فقط دو رمضان بازاروں کے اعداد وشما رکا جائزہ معیشت کے اصولوں پر کیا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رمضان بازار فقط کرپشن کا گڑھ ہیں اوراِن سے غریب عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا بعین ہی یہی صورت حال پنجاب بھر کے 300سے زائد رمضان بازاروں کی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے ملک میں تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا۔ آئندہ سال رمضان بازار لگانے سے قبل پہلے ہمہ قسمی اِس سوشا کلچر کا جائزہ لیا جائے پھر کوئی فیصلہ کیا جائے۔ اگر حکومت پنجاب پہلے سے موجود پرائس کنٹرول مجسٹریٹ نظام اور محکمہ زراعت (اکنامکس اینڈ مارکیٹنگ) کے پرائس کنٹرول سسٹم کو بہتر اور شفاف بنا دے اور منڈیوں میں کسانوں اور غریب عوام کے خون چوستے آڑھتیوں کا کوئی بدل پیش کر دے تو فوری طور پر 30تا 40فیصد تک مہنگائی کم ہو سکتی ہے اور سارا دن تمام افسران جو رمضان بازار وں کی ڈیوٹی کے بہانے اپنی سیٹوں پر نظر نہیں آتے اورمئی کی اِس تپتی دھوپ میں کام کی غرض سے آنے والے سائلین کو ” صاحب رمضان بازار ڈیوٹی پر گئے ہیں“ سن کر مایوس لوٹنا پڑتا رہا ہے۔ اِس عذاب سے بھی عوام کی جان چھوٹ جائے گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد سکندر حیدر کے کالمز
-
مجرم بنانے والی تربیت گاہیں
بدھ 9 جون 2021
-
کرپشن کی کہانیاں
جمعرات 18 فروری 2021
-
پنجاب پولیس کا ناکام احتسابی نظام اور کورٹ مارشل کی صدا
منگل 17 نومبر 2020
-
وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف بیورو کریسی کی کارستانی
ہفتہ 26 ستمبر 2020
-
زمین پر کرپشن پھیلانے کا جرم
پیر 14 ستمبر 2020
-
سردار عثمان خان بزدار کا فخر کوہ سلیمان سے فخرپنجاب تک کا دو سالہ سفر
منگل 8 ستمبر 2020
-
کورونا وائرس فنڈز میں کرپشن کی گونجیں
منگل 1 ستمبر 2020
-
باڈر ملٹری پولیس ڈیرہ غازی خان میں 20سال بعد ملازمین کی ترقیاں اور کرپٹ مافیا
بدھ 4 دسمبر 2019
محمد سکندر حیدر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.