بارڈر ملٹری پولیس کی تنظیم نو اور کرپٹ مافیا

پیر 24 جون 2019

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

صوبہ پنجاب کی مغربی سرحد پر واقع ضلع ڈیرہ غازی خان سرکاری آفیسران کے لیے سونے کی کان کہلاتا ہے۔ پاکستان کے دیگر علاقہ جات بالخصوص اپر پنجاب سے جب کوئی بیورو کریٹ ٹرانسفر ہو کر اِس ضلع میں پوسٹ ہوتا ہے۔ تو عام کہاوت ہے کہ وہ روتا ہوا آتا ہے ۔ابتدائی طورپر وہ یہاں باامر حکم نامہ سرکار کی بناپر قیام کرتا ہے ۔ پھر اگر دوتین چارسال بعد اُس کا یہاں سے ٹرانسفر واپس کسی اور شہرکیا جاتا ہے تو پھر بھی وہ روتا ہوا واپس جاتا ہے۔


سادہ الفاظ میں بندہ بشر کی مانند وہ آتا بھی روتا ہوا ہے اور جاتا بھی روتا ہوا ہے۔ مگر اِس درمیانی عرصہ میں جو سروس وہ اِس ضلع میں کرتا ہے وہ اِس قدر پرکشش بن چکی ہوتی ہے کہ وہ ،جس طرح انسان غفلت میں پڑ کر دُنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے اور اللہ کوبھُولا بیٹھتا ہے بعین ہی اُسی طرح یہاں بھی افسران کو کرپشن کرنے اور مال وزر کمانے کے اتنے سہل اور سنہری مواقع دسیتاب ہو جاتے ہیں کہ جب وہ واپس ٹرانسفر ہوتاہے تو پھر بھی روتا ہواجاتا ہے۔

(جاری ہے)


اِس ضلع کا 52فیصد رقبہ قبائلی علاقہ پر مشتمل ہے ۔ جتنے بھی سرکاری محکمے قبائلی علاقہ سے وابستہ ہیں وہ سب غربت زدہ قبائلی عوام کے نام پر فنڈز کھاتے ہیں اور اندھی لوٹ مار کرتے ہیں۔ سرکاری محکمہ جات بالخصوص محکمہ تعلیم، انہار، بلڈنگ ، پروانشنل اور نیشنل ہائی وے، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، صحت ، بہبود آبادی، سمال انڈسٹریز، معدنیات ، اوقاف، جنگلات، ایف ایم ڈی اے، لائیو سٹاک، کسٹم انٹیلی جنس، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور باڈر ملٹری پولیس کے مقامی سربراہان اور ضلعی انتظامیہ کے افسران قبائلی علاقہ جات کے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی امور کے نام پر بے خوف کرپشن کرتے ہیں۔

قبائلی علاقہ میں کونساسرکاری محکمہ کس طرح لوٹ مار کرتا ہے اور سرکاری امور کی انجام دہی میں فراڈ کرتا ہے۔ یہ ایک الف لیلوی داستان کی مانند طویل شب کی داستان ہے۔ تاہم پولیسنگ کے فرائض سرانجام دینے والی باڈر ملٹری پولیس ( بی ایم پی) قبائلی علاقہ کی اہم ترین ایک فورس ہے۔انگریز راج کی1890میں بنی ہوئی یہ فورس مسائل اور مصائب اور چند درجن کرپٹ اہلکاروں کی کرپشن کا شکا رہے۔

اِس فورس کا سب سے اہم مسئلہ وسائل کی کمی ، فورس کے اہلکاروں کی کم مراعات اورفورس کا جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔
وزیر اعلیٰ پناب سردار عثمان خان بزدار کا آبائی گھر قبائلی علاقہ بارتھی میں واقع ہے۔ اُن کا ایک بھائی سردار عمرخان بزدار بھی اِسی بی ایم پی فورس کا ایک سرکل آفیسر ہے۔ بی ایم پی درحقیقت انگریزدور سے قبائلی سرداروں کی فورس ہے۔

اِس فورس کی افرادی قوت 99فیصد قبائلی تمن کے بلوچوں پر مشتمل ہے اور اِن بلوچوں پر آج بھی اِن کے سرداروں کا راج قائم ہے۔ سردار عثمان خان بزدارنے جب سے منصب وزارت اعلیٰ سنبھالا ہے۔ اُن کی شدید خواہش ہے کہ باڈر ملٹری پولیس اور بلوچ لیوی فورس کے مسائل کو فوری طورپر حل کیا جائے۔ ملازمین کو دیگر فورسز کی مانند تربیت یافتہ کرتے ہوئے کئی سالوں سے بندش کے شکار پروموشن پروسس کوشروع کیا جائے۔

اور کئی سالوں سے موجود خالی آسامیوں پر بھرتی کی جائے۔ اِس سلسلے میں گذشتہ دس ماہ سے فقط کاغذی گھوڑے دوڑائے جار ہے ہیں۔ عملی نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا۔ ماسوائے یہ کہ بی ایم پی اور بلوچ لیو ی کے افسران کے لیے نو عدد گاڑیاں خریدی گئی ہیں۔ بی ایم پی کے ایماندار اہلکاروں یعنی وہ ا ہلکار جن کا گزربسر فقط زرق حلال پر ہے۔ اُن میں اضطراب پایاجاتاہے کہ نجانے کب انہیں ترقیاں دی جائیں گی اور نجانے کب اُن کے بچوں کو نوکریاں ملیں گی۔

اُمید ہے وزیر اعلیٰ پنجاب جلد اِس پر کوئی ایکشن لیں گے کہ بیورو کریسی تاخیری حربے کیوں استعمال کر ر ہی ہے۔
دوسری جانب بی ایم پی کے چند درجن وہ کرپٹ اہلکار ہیں جنہوں نے اِس پوری فورس کو بدنام کر رکھا ہے اور ہر دور حکومت میں اُن کا راج یہاں قائم رہتا ہے۔ یہ کرپٹ مافیا ہمہ قسمی غیر قانونی سرگرمیوں مثلاً غیر ملکی سامان، منشیات ،ایرانی تیل اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں سمیت اسلحہ بارودکی اسمگلنگ میں براہ راست ملوث ہے۔

اِن درجن بھر کرپٹ ملازمین کے نام و چہرے متعدد معتبر اداروں کی رپورٹس میں بے نقاب ہو چکے ہیں۔ مگر افسوس آج تک اِن کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ تمام انکوئریوں کو دفتری خانہ پری کے بعد دفن کر دیا گیا ہے۔ 2014، 2016اور2017کی کئی مفصل خفیہ رپورٹس ہیں جن میں اِس قبیلہ ابلیس کا نامہ اعمال درج ہے مگریہ نوٹوں کی چمک سے سب کچھ ٹھیک کی گردان افسران کو یاد کرادیتے ہیں اور یہ لوگ اِس قدر طاقتور ہیں کہ اِن پر کرپشن کے الزامات عائدہیں مگر آج بھی یہ اہم عہدوں اور تھانہ جات میں تعینات ہیں۔


کمانڈنٹ سیدموسی رضا جنہیں گذشتہ چند ماہ قبل یہاں تعینات کیا گیا ہے۔ اُن کے متعلق بی ایم پی کے ایماندار اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ نئے کمانڈنٹ موسیٰ رضا حسبِ منشا وزیر اعلیٰ پنجاب اِس فورس کی تنظیم نو کریں گے اور کرپٹ مافیا کو نتھ بھی ڈالیں گے۔ جبکہ کرپٹ مافیا اِس آس میں ہے کہ نئے کمانڈنٹ صاحب کے” نئے نو دن “پورے ہو جائیں تو اُن کو بھی اپنے رنگ میں وہ رنگ ہی لیں گے۔

اب اصل امتحان سینئر کمانڈنٹ ڈپٹی کمشنر طاہر فاروق اور کمانڈنٹ سید موسی رضا کا ہے کہ وہ پرانی روایات اور پرانے کرپشن کلچر کو تبدیل کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں۔ بے شک عوامی آرا کے مطابق اِس وقت ضلع انتظامیہ کے چند اہم عہدوں پر تعینات افسران بالا کا دامن کرپشن سے پاک ہے۔
بی ایم پی میں کریشن کی آکاس بیل لائن آفیسر ہے۔لائن آفیسرکرپشن کی وہ Parasite ہے جو سابقہ اداور میں افسران اور تھانیداروں کے درمیان بارگینگ کے لیے فرنٹ مین کے طور پر کام کر تاچلا رہا ہے۔

لائن آفیسر فورس کے نظم و ضبط میں ایک ایسا عہدہ ہے جوکہ افسران اور ملازمین کے درمیان سرکاری امور کی انجام دہی کے حوالے سے کلیدی کردار کا حامل ہے اور اِسی بات کا فائدہ یہاں تعینات ہونے والا ہر لائن آفیسر اُٹھتا رہا ہے ۔ منفی رحجانات کی بناپر عہدہ کا ناجائز استعمال ہونا پاکستان میں کوئی انہونی نہیں ہے۔ لائن آفیسر ماہانہ بنیادوں پر منتھلی وصول کرتا ہے اور افسران تک پہنچاتا ہے اور بدلے میں پوری فورس پریہ راج کرتا ہے۔


سینئر کمانڈنٹ ڈپٹی کمشنر طاہر فاروق جن کی ایمانداری کی بناپر انہیں ضلع ڈیرہ غازی خان میں یہ منصب دیا گیا ہے اب اُن کا فرض بنتا ہے کہ وہ اُن تمام ملازمین کو جن پرمعتبر اداروں کی رپورٹس کرپشن کے الزامات عائد کر چکی ہیں اُنہیں فیلڈ میں ایک سائیڈ لائن پر لگا دیں اور کسی ایماندار اہلکار کو لائن آفیسر تعینات کریں تاکہ اِس فورس کا تاثر بھی تبدیل ہو ، کرپشن کا راج ختم ہو اور وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدارکی محنت بھی ضیائع نہ ہو۔


گنتی کے چند کرپٹ عناصر کی سرکوبی سے پوری فورس میں کرپشن کلچر بدل سکتا ہے۔ بعض ملازمین نے اربوں روپے کے اثاثہ جات نامی اور بے نامی بن رکھے ہیں۔ اُن لوگوں کا طرز زندگی اُن کی کرپشن کاسب سے بڑا ثبوت ہے۔تمام ملازمین سے اثاثہ جات کی تفصیل طلب کی جائے اور پھر معتبر اداروں کی معرفت اُن کی جانچ پٹرتا ل کرائی جائے تو بہت سے شرفا بے نقاب ہوں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کی اولین ترجیح کرپشن کا خاتمہ ہے کیونکہ پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ یہی کرپشن ہے اور اِس ناسور کو ہر سرکاری ادارے سے اب ختم ہونا بھی چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :