ترکی ،اردگان اورارطغرل۔ قسط نمبر2

پیر 15 جون 2020

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

خلافت عثمانیہ کے دورمیں سرزمین حرمین شریفین بھی چونکہ سلطنت عثمانیہ کی عمل داری میں شامل تھی اس لئے مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ سے ان کاجذباتی لگاؤ تھاسلطان عبدالحمید ثانی نے 1909ء میں دمشق سے مدینہ منورہ تک ایک ریلوئے لائن بچھائی بعدازاں وہ مکہ مکرمہ اورجدہ تک اس منصوبہ کو لے جانا چاہتے تھے لیکن شریفِ مکہ اورکچھ نادان عرب اس منصوبہ میں رکاوٹ بن گئے عثمانی خلفاء نے اپنے زمانہ خلافت میں حرمین کی توسیع وتعمیرمیں بھرپورحصہ لیالہذایہی وجہ ہے کہ وہاں پرموجودتاریخی مقامات کے حوالہ سے ترکوں کوآج بھی بہت زیادہ تحقیقی معلومات حاصل ہیں، ترک قوم میں علماء ومشائخ اور تبرکات وزیارات سے عقیدت واحترام روزاوّ ل سے پایاجاتاہے اس لئے حجازمقدس میں خاتم النبین ﷺاہل بیت اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے منسوب زیارات کومحفوظ کرنے کا ترکوں نے بہت اہتمام کیاخلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد اگرچہ ترک قوم کو دین اسلام سے دور کرنے کی بہت سی کوششیں کی گئیں لیکن بہرحال یہ ایک مسلمہ حیثیت ہے کہ پیغمبراسلام ﷺ ،اہل بیت رضی اللہ عنہم اور اصحاب النبی ﷺکی حرمت پرمرمٹنے کاجذبہ ادنی مسلمان کے اندربھی موجودہے اورآج بھی آپ اگرحرمین شریفین کی زیارت کے لئے تشریف لے جائیں توترک علمائے کرام کی راہنمائی میں آپ قدیم تاریخی مقامات کی زیارت بہتر انداز میں کرسکتے ہیں ،عمرہ کے سفرکے دوران مدینہ منورہ میں قیام کے دنوں میں جنت البقیع میں الحمدللہ تقریباروزانہ زیارت کے لیے جاناہوتالیکن وہاں مدفون مقدس ومحترم نفوس کی قبورپرکسی قسم کاکوئی کتبہ یاعلامت ناہونے کی وجہ سے درست نشاندہی اورزیارت ایک دشواروتحقیق طلب امر ہے کچھ تاریخی کتب کی مددسے گرچہ چند بزرگ شخصیات کی قبورکاعلم ہواتاہم تحقیق وجستجو جاری رہی ،ایک دن حسب معمول بعدازنمازعصر بقیع میں فاتحہ خوانی کے لئے داخل ہواتوداخلی دروازہ کی دائیں جانب اہل بیت سے منسوب قبورپرمشتمل احاطہ کے قریب عام دنوں کی بنسبت زیادہ بھیڑنظرآئی اوروہاں نگرانی پرموجودسپاہی لوگوں کوراستہ میں بھیڑکرنے کی بجائے آگے بڑھنے کی ترغیب دے رہے تھے اسی دوران اس مجمع میں مجھے ترک زائرین کی ایک جماعت دکھائی دی جن کوایک ترک عالم دین ہاتھ میں موجودایک کتابچہ کی مددسے بقیع کی تاریخ کے حوالہ سے راہنمائی فرمارہے تھے میں اگرچہ ترکی زبان سے ناواقف تھا لیکن ان کی ساری گفتگوکامدعاسمجھ پارہاتھاچنانچہ میں بھی ترک زائرین کے گروپ میں شامل ہوکر گروپ لیڈر کے پیچھے پیچھے چلتارہا،اوریوں جنت البقیع میں موجود جن شخصیات کی قبورسے متعلق مجھے شرح صدرنہیں تھا وہ اطمینان و شادمانی میں بدل گیا اورمیں نے ترک زائرین کوڈھیروں دعائیں دیں ،حرمین میں زائرین کاکسی بھی زیارت پرمجمع اوراکٹھ سعودی حکومت کے لئے قطعی طورپرناقابل برداشت ہے اور جونہی کسی مقام پرچندلوگ اکٹھے ہونے کی کوشش کرتے ہیں توانہیں حفاظتی عملہ وانٹیلی جینس کے نمائندوں کی جانب سے منتشرہونے کو کہاجاتاہے لیکن میں نے اس بات کاخود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیاکہ ترک زائرین کامعاملہ دوسرے ممالک سے مختلف تھااوران سے شرطی (فوجی ) بہت کم مبارزت کرتے کثیرتعدادمیں آئے ترک وفود کے راہنما اورگائیڈرز اگرانہیں کسی مقام پررک کرتعارف کرواتے توان سے چشم پوشی کردی جاتی ، میں سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب کی حکومت ترکوں کی حرمین سے تاریخی رفاقت کی شایدرعایت کرتی ہے اوریہ سمجھتی ہے کہ اس سرزمین پرخلافت عثمانیہ کے فرماں رواؤں کی چونکہ لمباعرصہ تک عمل داری رہی لہذا انہیں کسی درجہ میں آج بھی رعایت حاصل ہے اگرچہ کچھ عرصہ سے ترکی اورسعودی عرب کے تعلقات میں خاصی کشمکش جاری ہے
ترک اورعرب دونوں قومیں ہمیشہ سے طاقت وقوت کا سرچشمہ رہی ہیں اور ان کی جنگی مہارت وحکمت عملی کی ساری دنیا معترف ہے لیکن دین محمدی ﷺ نے قومیت کوتفاخر وبڑائی کے لیے استعما ل کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے قرآن کریم نے واشگاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ ’اے لوگو ! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سب کوایک مرداورایک عورت سے پیداکیاہے اورتمہیں مختلف قوموں اورخاندانوں میں اس لیے تقسیم کیاہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو،درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والاوہ ہے جوتم میں سب سے زیادہ متقی ہویقین رکھو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا،ہرچیز سے باخبرہے “(الحجرات ۱۳)
اوریہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عرب اورترک دونوں نے اسلام کے دامن میں آنے کے بعد خودکواشاعت دین اوردفاع اسلام میں پیش پیش رکھاہے اسلام میں داخل ہونے سے قبل ان دونوں قوموں نے فقط قومیت کی بنیاد پر بیسیوں جنگیں لڑی ہیں اور superiorبننے کی کوشش میں باہمی کشت وخون سے بھی اعراض نہیں کیا،ان دونوں قوموں کاتاریخی پس منظرچونکہ اقوام عالم کے سامنے ہے اس لیے عالم کفرنے ان دونوں کے اندرسے کچھ منافقین کواسلام کی بیخ کنی کے لیے منتخب کیااورانہیں سلطنت وعہدے اورسیم وزر سے خریدکراپنے مفادات کے لئے استعمال کیا۔

(جاری ہے)

خلافت عثمانیہ کے مقابلہ میں قومیت کوبھڑکاکر خلافت عرب کامنصوبہ طاغوتی طاقتوں کاوہ ناپاک حربہ تھا جس نے ناصرف ان دونوں قوموں کی وحدت کوپارہ پارہ کردیابلکہ ان کا اسلامی تشخص اورقائدانہ صلاحتیں بھی باہمی اختلاف کی نظر ہوگیا،خلافت عثمانیہ کومسمارکرنے میں یوں تو بہت سارے منفی کردارتھے لیکن قومیت کے تعصب نے اس گرتی ہوئی دیوار کوآخری دھکا دے کرہمیشہ کے لیے نیست ونابود کردیا،
انگریزوں نے خلافت عرب اورتحریک بیداری عرب کاپروپیگنڈاپوری شدومد کے ساتھ شروع کررکھا تھا اوراس کے لیے لارنس آف عریبیہ کی مددسے پراسرارطریقہ سے سازشوں کاجال بچھادیاگیااورزرخریدمنافقین کی ایک جماعت کی خدمات حاصل کی گئیں،یہ وہ چنانچہ اس سازش کوکامیاب بنانے کے لئے انگریزوں نے اس وقت کے والی مکہ حسین بن علی جسے شریف مکہ کے نام سے جانا جاتاتھا کوخلافت عثمانیہ کے خلاف بھڑکایااورپورے حجازکی حکومت بدلہ میں عطاکرنے کا وعدہ کیاچنانچہ شریف مکہ نے اسی لالچ میں بغاوت کردی اوریوں ترکوں کوعرب کی حمایت سے ہاتھ دھوناپڑااورخلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیااس کے بعد انگریزوں نے شریف مکہ سے بھی دھوکہ کیااوراسے حجازکی بجائے صرف اردون اوراس سے ملحقہ علاقوں کی حکومت عطاکی اردون کاموجودہ بادشاہ اسی کی نسل سے ہے بعدازاں حجازمیں آل سعود کواقتدارمنتقل ہوگیا(جاری ہے)۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :