کرسمس کاتاریخی پس منظر

جمعہ 25 دسمبر 2020

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

دنیائے عیسائیت ہرسال 25دسمبرکوحضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش کے دن کوکرسمس کے نام سے مناتی ہے ۔کرسمس دراصل انگریزی زبان کے لفظ ”Christ“سے ماخوذہے ۔جس کے معنی مسیحا،نجات دہندہ،آسمانی روحانی بادشاہ کے آتے ہیں۔قدیم انگریزی میں کرسمس کو دوطرح سے لکھاجاتا تھا۔Cristes Messe اورCrist Mass عیسائی لوگ Cristکرائسٹ مسیح علیہ السلام کو کہتے ہیں جب کہ Massسے مراداجتماع اوراکٹھا ہونا ہے ۔

مسیح دراصل عربی زبان کالفظ ہے جس کا معنی مسح کرنا ہاتھ پھیرنا ۔اللہ تعالٰی نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو یہ معجزہ عطاکیا تھا کہ وہ کسی بیمارپرہاتھ پھیردیتے تووہ تندرست ہوجاتا تھا اسی لئے ان کو مسیح بھی کہا جاتا ہے۔
دنیا میں کرسمس کو مختلف ناموں سے یادکیا جاتا ہے پاکستان میں اس کے لئے عموما ’بڑادن ‘کہا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

جب کہ دنیا کے کچھ علاقوں میں اسے ”یول ڈے نیٹوئی “اور”نوائل “بھی پکاراجاتا ہے۔

کرسمس کا تہوارعیسائی فرقے پروٹسنٹ کلیسائی اوررومن کیتھولک 25دسمبرکوجب کہ مشرقی آرتھوڈوکس کلیسائی 6جنوری اورارمینیاکلیسائی 19جنوری کومناتے ہیں ۔عیسائیت میں جس طرح انجیل مقدس کے موجودہ نسخوں میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے اسی طرح پیدائش مسیح موعودمیں بھی اختلاف ہے۔
سن 530ء میں سیتھیا کاڈایونیس اکسیگزنامی ایک راہب جوکہ ماہرنجوم تھااس کو اس دن کی تحقیق کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔

جس نے 25دسمبرکو کرسمس قراردیا اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس سے قبل بھی آفتاب پرستوں کے ہاں 25دسمبرکو مختلف دیوتاؤں کااسی تاریخ کو یااس سے قریبی تاریخوں میں یوم پیدائش سمجھ کرعقیدت سے منایا جاتا تھا ۔چنانچہ انکی حمایت کو حاصل کرنے کے لئے اس نے اس دن کا انتخاب کیا۔کرسمس کے موقع پرعیسائیوں کے ہاں مختلف قسم کی رسومات وعبادات کی جاتی ہیں لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں خرافات کا اضافہ ہوتا چلاجارہاہے اورموجودہ کرسمس ناچ گانا،شراب نوشی ،عصمت فروشی ،فحاشی وعریانی اورسیم وزرکو پانی کی طرح بہانے کے مترادف بن چکا ہے ۔

من گھڑت قصے اورکہانیاں دھرلی گئی ہیں ۔حالانکہ کسی بھی شریعت ومذہب میں اس طرح کی خرافات کی قطعاگنجائش نہیں ہے ۔دین اسلام مذاہب عالم سے محبت کا درس دیتا ہے لیکن ان کی مذہبی رسومات میں شرکت کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ۔نبی اکرم ﷺاورصحابہ کی زندگی سے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ۔
حضرت عیسی ٰعلیہ السلام کومسلمان اللہ تعالی کا جلیل القدرنبی مانتے ہیں جن کوانسانیت کی ہدایت ورہبری کے لئے مبعوث کیاگیا ایک مدت تک وہ زمین پرزندہ رہے پھرزندہ آسمان پراٹھا لئے گئے اورقرب قیامت پھرنزول فرمائیں گے ۔

قرآن کریم اوردسیوں احادیث نبویہ ﷺمیں انکی نبوت ورسالت کو بیان کیا گیاہے۔ایک مسلمان کے لئے شاہ دوجہاں نبی آخرالزمان حضرت محمدﷺکاادب واحترام جس طرح ضروری ہے اسی طرح حضرت عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام کی تعظیم وتکریم اورانہیں اللہ تعالی کا رسول مانے بغیراس کا ایمان معتبرنہیں ۔اس لئے کہ ہرمسلمان اس بات پرصدق دل سے یقین اورزبان سے اقرارکرتاہے کہ میں اللہ تعالی اوراس کے فرشتوں پراوراسکی کتابوں پراوراسکے تمام رسولوں پراورآخرت کے دن پراوراچھی اوربری تقدیرپراورموت کے بعددوبارہ زندگی پرایمان رکھتا ہوں ۔

یہ وہ حلف نامہ ہے کہ جس میں سے کسی ایک شق کا انکاربھی مسلمان کودائرہ اسلام سے خارج کرتا ہے اوراسی وجہ سے سابقہ تمام انبیاء علیہم السلام مسلمانوں کے لئے قابل صداحترام وتکریم ہیں۔عیسائیت کوسابقہ مذاہب عالم میں ایک گونہ اہمیت حاصل ہے اوریہودیوں کے علاوہ صرف عیسائیوں کو ہی قرآن کریم نے اہل کتاب قراردیا ہے۔
امت محمدیہ ﷺکے لئے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی شخصیت اس اعتبارسے بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ قرب قیامت وہ دوبارہ دنیاپرنزول فرمائیں گے اورنبی آخرالزمان ﷺکی نبوت پرایمان لائیں گے اورامت محمدیہ ﷺکا فردہونے کی حیثیت سے رحلت فرمائیں گے۔

آج دنیا میں دوتہائی اکثریت غیرمسلموں کی ہے جن میں عیسائیت کے پیروکاروں کی تعدادزیادہ ہے مزیدبرآں یہ کہ جس قدرعیسائیت میں فرقوں کی بہتات ہے شاید ہی کسی دوسرے مذہب میں ہو۔مثلاملکانیہ،نسطوریہ ،یعقوبیہ وغیرہ ۔جس کی ایک بنیادی وجہ خود حضرت عیسی علیہ السلام کی حیثیت بارے ان کا اختلاف ہے کچھ فرقے انہیں نعوذباللہ ”خدا“توبعضے ”خداکابیٹا“قراردیتے ہیں ایک تیسراگروہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ خداکی روح ان میں حلول کرگئی تھی اورکوئی ان کی مصلوبیت کا قائل ہے ۔

لیکن اس وقت دنیا میں پروٹسنٹ اورکیتھولک فرقہ کو زیادہ شہرت حاصل ہے ۔
 دپاکستان میں اقلیتوں کو بنیادی حقوق وتحفظ حاصل ہیں اورایک مسلمان کی طرح انکی جان واملاک کوتحفظ فراہم کرنا حکومت کے فرئض میں شامل ہے ۔پاکستان میں رہائش پذیردیگرمذاہب سے تعلق رکھنے والی اقلیتوں کواپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے اوراپنے مذہبی تہوارمنانے کی مکمل آزادی ہے ۔

پوری دنیا میں بسنے والے کسی ایک مسلمان نے آج تک حضرت عیسی علیہ السلام اوردیگرانبیاء کی شان میں نازیباالفاظ استعمال نہیں کیے اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ایمان کا جزولازم ہیں۔کرسمس کے موقع پرپوری دنیائے عیسائیت کو یہ عہدواقرار کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ بھی دیگرانبیاء علیہم السلام اورخصوصاحضرت محمدﷺکی شان میں آئیندہ کسی قسم کی گستاخی سے گریزکریں ۔

گذشتہ دنوں عالمی عدالت انصاف نے بھی کسی بھی مذہب کی مذہبی ہستیوں خصوصاحضرات انبیاء علیہم السلام کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کواقوام عالم کے امن کوبرباد کرنے کے مترادف قرار دے کراس کی شدیدالفاظ میں مذمت بیان کی اس تناظر میں تمام مذہب کوایک دوسرے کااحترام کرناچاہئے تاکہ پوری دنیاامن کا گہوارہ بن سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :