رشید حسن خاں۔ایک عظیم محقق اور مدون

ہفتہ 8 مئی 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

آدمی کو اپنی صلاحیت دکھانے کے مواقع زندگی میں کبھی کبھار ہی ملتے ہیں۔ اگر وہ بروقت اپنی صلاحیت بروئے کار لانے میں کامیاب ہوجائے تو یقیناً اپنی ذات میں نکھار پیدا کرنے کے علاوہ دوسروں کو بھی معطر کر سکتا ہے۔ کون جانتا تھا کہ گھریلو حالات اور معاشی تنگی کے باعث فیکٹری میں کام کرنے والا مزدورایک دن اُردو تحقیق و تدوین کا بہت بڑا حوالہ بن جائے گا۔

جی ہاں! آج اُردو تحقیق و تدوین کی روایت رشید حسن خاں کی خدمات کا ذکر کیے بناادھوری رہتی ہے۔ وہ 10 جنوری 1930ء کو شاہ جہاں پور میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد کا نام امیر حسن خاں تھا جو پولیس میں ملازم تھے۔ رشید حسن خاں نے ابتدامیں عربی کی تعلیم ایک عربی مدرسے بحرالعلوم، شاہ جہاں پور سے1939ء تک حاصل کی۔

(جاری ہے)

گھریلو حالات تنگ ہونے کے باعث اُنھوں نے1939ء میں آرڈی ننس فیکٹری، شاہ جہاں پور میں مزدور کی حیثیت سے ملازمت اختیار کر لی۔

فیکٹری کے مزدوروں نے مل کر 1941ء میں لیبر یونین بنائی جس کے جوائنٹ سیکرٹری رشید حسن خاں تھے۔ اِس فیکٹری میں اُنھوں نے چھ سال تک کام کیا۔1945ء میں جنگِ عظیم دوم کے خاتمہ پر اِس فیکٹری کے بہت سے مزدوروں کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا جن میں رشید حسن خاں بھی شامل تھے۔ یہیں سے اُن کے تدریسی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ فیکٹری سے فارغ ہونے کے بعد اُنھوں نے کچھ عرصہ مدرسہ فیضِ عام، شاہ جہاں پور میں عربی اور ابتدائی فقہ کی کتابیں پڑھائیں۔

اُسی سال وہ اسلامیہ ہائیر سیکنڈری سکول، شاہ جہاں پور میں عربی و فارسی کے استاد مقرر ہوئے۔مفتی محمد مجتبیٰ حسن خاں شاہ جہاں پوری اُن کے عربی کے استاد تھے جنھیں وہ سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ اپنے معنوی اساتذہ میں وہ ہمیشہ حافظ محمود شیرانی، قاضی عبدالودود، مولانا امتیاز علی عرشی اور علامہ نیاز فتح پوری کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

لغت، زبان کے مسائل، عروض، املا اور قواعد کے علاوہ ادبی تحقیق و تدوین اُن کی دل چسپی کے اہم مباحث تھے۔ اسلامیہ سکول میں ملازمت کے بعد وہ شعبہٴ اُردو، دہلی یونیورسٹی میں درس و تدریس کے ساتھ منسلک ہو گئے جہاں وہ 31 دسمبر 1989ء تک خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 26 فروری 2006ء کو اُنھوں نے دہلی میں وفات پائی۔
تحقیق کے اُصولوں کے حوالے سے وہ اِس بات کے قائل تھے کہ تحقیق کو سچ کی تلاش رہتی ہے۔

جھوٹ کس نے بولا،یہ بھی ایک بات ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ جھوٹ کیوں بولا گیااور کیسے بولا گیا۔ اِس’ کیوں‘ اور’ کیسے‘ کی تلاش اور وضاحت تحقیق کا اصل مقصد ہے۔یہی اُن کا مشغلہ تھا۔ اُن کے نزدیک ایک اچھا محقق کبھی بھی تسامحات کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ وہ تنقید اور تحقیق کے مابین فرق کے قائل تھے۔ اُن کے خیال میں تنقید کے نتیجے میں ناقدین کی آرا ایک ہی معاملے میں مختلف ہوسکتی ہیں جب کہ تحقیق کے میدان میں عموماً ایسا نہیں ہوتا۔

”شبلی کا فارسی تغزل“ کے عنوان سے پہلا مضمون لکھ کر رشید حسن خاں نے اپنے تحقیقی سفر کا آغاز کیاجو ”نگار“ لکھنوٴ میں مئی 1950ء کو شائع ہوا۔ اُن کے نمایاں کاموں میں ”انتخابِ نظیر اکبر آبادی“ (1970ء)، ”انتخابِ شبلی“ (1971ء)، ”انتخابِ مراثی انیس و دبیر“ (1971ء)، ”دیوانِ خواجہ میر درد“ (1971ء)، ”انتخابِ ناسخ“ (1972ء)، ”انتخابِ سودا“ (1972ء)، ”اُردو املا“ (1974ء)، ”اُردو کیسے لکھیں (صحیح املا)“ (1975ء)، ”زبان اور قواعد“ (1976ء)، ”ادبی تحقیق: مسائل اور تجزیہ“ (1978ء)، ”تلاش و تعبیر“ (1988ء)، ”فسانہ عجائب (تدوین)“ (1990ء)، ”باغ و بہار (تدوین)“ (1992ء)، ”تفہیم“ (1993ء)، ”انشا اور تلفظ“ (1993ء)، ”مثنوی گلزارِ نسیم(تدوین)“ (1995ء)، ”مثنویاتِ شوق (تدوین)“ (1998 ء)،”تدوین، تحقیق، روایت“ (1999ء)، ”املاے غالب“ (2000ء)، ” مصطلحاتِ ٹھگی(تدوین)“ (2002 ء)اور ”کلیاتِ جعفر زٹلی (تدوین)“ (2003ء) شامل ہیں۔

اِس کے علاوہ اُنھوں اصولِ تحقیق، مشرقی شعریات، اصولِ تدوین، کلاسیکی ادب کی تفہیم، تصوف اور تحقیق جیسے موضوعات پر بمبئی یونیورسٹی، جموں یونیورسٹی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی، اور اورینٹل کالج، لاہور جیسے اداروں میں مختلف اوقات میں کئی لیکچرز دیے ۔رشید حسن خاں کی تحقیق وتدوین اور زبان کے مسائل و معاملات پر بیان کی خوبی یہ ہے کہ یہ بیک وقت اعلیٰ سطح کے تحقیقی مباحث کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ طالب علموں کے لیے بھی رہنمائی کے کئی در وا کرتی ہے۔

لسانی حوالے اُن کی تحقیقی و تدوینی روایت کا تخصص ہیں۔
رشید حسن خاں نے کلاسیکل نثری اور شعری ادب کی تدوین کے ساتھ ساتھ لغات بھی مرتب کیں۔ اُن کی تدوین کی خاص بات متن ترتیب دینے کے ساتھ اُ ن کے تحریر کردہ طویل مقدمات ہیں جن میں معلومات کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ پھر کتاب کے آخر میں ضمائم، فرہنگ اور اشاریے کا اہتمام کرنا بھی اُن کا نمایاں کارنامہ ہے۔

دوسری طرف اُردو میں لسانی تحقیق بالخصوص اُردو املا اور قواعدِ زبان کے حوالے سے بھی اُنھوں نے کام کیا۔ اُن کے نزدیک قواعدِ زبان سے متعلق مسائل جن کی طرف سب سے کم توجہ دی گئی، اُن میں املاکے مسائل سب سے اوپر ہیں۔ کسی زبان کو معیاری شکل میں لکھنے کا نام ”رسمِ خط (رسم الخط)“ہے جب کہ رسمِ خط کے مطابق صحت سے لکھنے کا نام املا ہے۔ رشید حسن خاں کے مطابق بہت سی بحثیں ایسی ہوئی ہیں جو دراصل املا کے مسائل سے تعلق رکھتی تھیں مگر وہ رسمِ خط کے عنوان سے شروع ہوئیں اور اِس کے برعکس بھی ہوا۔

اِس خلطِ مبحث نے بھی املا کے مسائل کی واقعی اہمیت کو نمایاں نہیں ہونے دیا(اُردو املا، 1974ء، ص 12) ۔ اُردو املا کے تناظر میں اُنھوں نے ’الف اور ی‘، ’الف اور ہاے مختفی‘، ’الف تنوین‘، ’ہاے ملفوظ‘، ’ہاے مخلوط‘، ’ہمزہ اور الف‘، ’ہمزہ اور واو‘، ’ہمزہ اور ہاے مختفی‘، ’ہمزہ اور ی‘، ’نقطے، شوشے، حرفوں کے جوڑ، نسخ و نستعلیق کی خصوصیات‘، ’اعراب‘، ’علامات‘، ’رموزِ اوقاف‘، ’املاے فارسی‘، ’تدوین اور املا‘، اور ’لغت اور املا‘جیسے مباحث پر بات کی ہے۔

”زبان اور قواعد“ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے صحتِ الفاظ، مشترک الفاظ، لغت اور استعمالِ عام، ملائی اور بالائی، ترکیبِ مہند، سقوطِ حروفِ علت، اعلانِ نون، مختاراتِ امیر مینائی، اور بحرالبیان جیسے موضوعات پر بحث کی ہے۔ ”ادبی تحقیق: مسائل اور تجزیہ“ کو رشید حسن خاں نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے جس میں ایک طرف ادبی تحقیق کے اُصول و مسائل اور دوسری طرف تحقیقی تجزیے شامل ہیں۔

”املاے غالب“ کو اُنھوں نے الفاظ اور قاعدے کے عنوان سے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
خاں صاحب نے قاضی عبدالودود سے متاثر ہوتے ہوئے اُن کی تحقیقی روایت کو آگے بڑھایا۔ ”تلاش و تعبیر“ رشید حسن خاں کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جس میں محمد علی جوہر، جوش، فیض، فانی، چکبست، سیماب، جعفر زٹلی، مومن، حالی، دیا شنکر نسیم، ناسخ، سلیمان ندوی جیسی شخصیات کے فن پر مضامین شامل ہیں۔

اِس کے علاوہ زبان و بیان کے بعض پہلو، ادب اور صحافت، نصابی کتابوں کی ترتیب میں املا، رموزِ اوقاف اور علامتوں کا مسئلہ جیسے موضوعات کا بھی احاطہ کیا گیاہے۔اپنے مجموعہ مضامین ”تفہیم“ میں اُنھوں نے مولانا آزاد کا اُسلوب، مشرقی شعریات اور نیاز فتح پوری، ذاتی خطوں سے متعلق چند معروضات، یادوں کی برات، پہیلیوں سے متعلق چند باتیں، نیاز اور آزادی فکر، اختر انصاری، زور صاحب، مولوی سید احمد دہلوی، ہندوستانی فارسی میں تلفظ اور املا کے بعض مسائل، اور ترقی اُردو بورڈ کا لغت جیسے موضوعات کا احاطہ کیا ہے۔

”تدوین۔تحقیق، روایت“ میں شامل بیشتر مضامین کا تعلق تدوین کے ساتھ ہے جس میں تدوین میں منشاے مصنف کا تعین، تدوین اور اعراب نگاری، کلام اقبال کی تدوین، دکنی ادب کی تدوین کے مسائل، اور اُردو میں تدوین کے پچاس سال جیسے نمایاں مباحث شامل ہیں۔اُردو تحقیق و تدوین کی روایت میں رشید حسن خاں اغلاط گیری کے حوالے سے مشہور ہیں جو بالکل ٹھیک ہے مگر وہ محض اِن کی نشان دہی تک محدود نہیں رہتے بلکہ اِس کا جواز اور ازالہ بھی پیش کرتے ہیں۔ اُردو میں تدوین بالخصوص رشید حسن خاں کی خدمات کی معترف رہے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :