انسداد سود کیلئے عظیم کاوش‎

پیر 21 دسمبر 2020

Mujahid Khan Tarangzai

مجاہد خان ترنگزئی

پاکستانی معیشت کو اسلامی اُصولوں پر استوار کرنے اور سودی نظام کے خاتمہ کے لیے مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور دانش وروں نے ”تحریک انسداد سود پاکستان“ کے نام سے ایک مستقل فورم 2 نومبر 2013 ء کو قائم کیا تھا۔ جس کا کنونئیر مفکر اسلام علامہ زاہد الراشدی صاحب کو منتخب کیا گیا تھا۔اس کے ساتھ مختلف مکاتب فکر کے علماء اور دانش وروں کی ایک رابطہ کمیٹی تشکیل دے دی گئی جو کہ سودی نظام وقوانین کے بارے میں دینی حلقوں کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کو بیدار کرنے اور میڈیا کے ذریعے آگاہی کیلئے مشترکہ سعی ومحنت کریں گی۔

اس سلسلے میں 2نومبر 2013 ء کو ایک مشترکہ اجلاس قرآن اکیڈمی ماڈل لاہور میں منعقد کیا گیا تھا۔ اور اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ”تحریک انسداد سود پاکستان“ کا یک نکاتی ایجنڈا پاکستان میں سودی نظام کا خاتمہ ہوگا تاکہ ملکی معیشت کو اسلامی اُصولوں پر استوار کیا جاسکے، جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سودی قوانین ہیں۔

(جاری ہے)

جبکہ اس سے ہٹ کر اس تحریک کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہوگا۔

اس مقصد کئے لیے ملک کے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام، بڑی دینی جماعتوں اور عملی مراکز کے ساتھ ساتھ تاجروں، اساتذہ, میڈیا دانش وروں اور معیشت واقتصاد کے ماہرین کو اعتماد میں لیا جائے گا اور اسے ایک قومی تحریک کی صورت میں منظم کیا جائے گا۔
اس سلسلے میں گزشتہ روز 9دسمبر کو انجمن تاجران سٹی فیصل آباد کے زیر اہتمام انسداد سود کنونشن کا انعقاد کیا گیا تھا جسمیں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام، تاجر تنظیموں کے رہنماء اور وکلاء نے شرکت کی۔

مقررین نے خطاب میں فرمایا کہ ہم سودی نظام سے اس لیئے نجات چاہتے ہیں کہ ایک تو سودحرام اور کھلم کھلا اللہ اور رسول سے جنگ ہے اور دوسرا بانی پاکستان قائداعظم محمد جناح  ؒ نے یکم جولائی 1948 ء کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کراچی کا افتتاح کرتے ہوئے واضح فرمایاتھا کہ پاکستان میں مغربی معاشی نظام کی بجائے اسلامی اُصولوں کی روشنی میں معاشی نظام کی خواہش رکھتے ہیں اور انہوں نے اس موقع پر اس بات کا دو ٹوک اظہار کیا تھا کہ مغربی نظام معیشت نسل انسانی کے لیے تباہی کا باعث بنا ہے اور اس سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی اور ساتھ ہی معاشی ماہرین اور اسٹیٹ بینک کے ملازمین کو ہدایت کی آپ اسلامی اُصولوں کو سامنے رکھ کر ملک کے معاشی نظام کو ترتیب دے، تاکہ قرآن وحدیث کے ہدایات کے مطابق ملک کو ایک اسلامی معاشی نظام کے تحت چلا سکے۔

لیکن اس کے تقریباً دو مہینے بعد قائداعظم ؒ کا انتقال ہوا اور اب تک ہم مغربی معاشی نظام کے شکنجے میں ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ تازہ ترین عالمی ریسرچ کے مطابق عالمی سطح پر معاشی عدم توازن کی سب سے بڑی وجہ ”سود“ ہے۔ اس کا ایک حوالہ یہ ہے کہ چند سال پہلے جب عالمی کمپنیاں دیوالیاں ہوئی تھی۔ تواس دوران پاپائے روم نے معاشی ماہرین کی ایک کمیٹی بنائی تھی۔

تو انھوں نے ریسرچ کے بعد ایک رپورٹ جاری کی تھی کہ بین الاقوامی، ملکی و قومی اور طبقات وافراد کے سطح پر جو معاشی عدم توازن بڑھ رہا ہے، اس سے نکلنے کے لیے اُن اُصولوں کے بغیر جو قرآن واسلام نے پیش کیئے ہیں، کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اسی طرح IMFجو پوری دنیا کے معیشت کا یک شکنجہ ہے۔اُنھوں نے حال ہی میں رپورٹ جاری کی ہے کہ غیر سودی بینکاری کا تجربہ کرنا چاہیئے کیونکہ سودی بینکاری نے ہمیں سوائے نقصان کے کچھ نہیں دیا۔

اور IMF نے باقاعدہ غیر سودی بینکاری کے تجربہ کے لیئے ایک الگ شعبہ قائم کر دیا ہے۔ اِس وقت یورپی دنیا میں تقریباً 200 غیر سودی بینک کام کررہے ہیں اور IMF کا یہ رپورٹ ہے کہ سودی نظام کا متبادل غیر سودی بینکاری میں رسک کم اور منافع ذیادہ ہے اسلیئے وہ اس طرف آرہے ہیں۔
لیکن ہمارا ہاں ”چراغ تلے انداھیر“ کہ جہاں سودی بینکاری نظام کے متبادل اسلامی بینکاری نظام کے عالمی ماہرین مفتی تقی عثمانی صاحب اور دیگر علماء کرام جیسے ہستیاں موجود ہے اور دنیا ہم سے یہ ڈیمانڈ کررہی ہے، وہاں خود سودی نظام نافذ ہے۔


قائداعظم ؒ نے 1948ء میں اس نظام کو نافذ کرنے کی ہدایت کی تھی اور پھر 1956 ء کے آئین پاکستان میں بھی سود کے خاتمے کا ذکر تھا  اور 1973 ء کے آئین کے آٹیکل F-31 میں دو ٹوک لکھا ہے کہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر ملک کو سودی قوانین ونظام سے نجات دلائے۔ اسی طرح وفاقی شرعی عدالت کے جج نے 16نومبر 1991ء کو علماء کرام کے توسط سے فیصلہ دیا تھا کہ سُودی قوانین کو ختم کئےجائے۔

اس کے بعد سپریم کورٹ کو یہ مقدمہ پہنچا تو سپریم کورٹ کے فل بنچ نے باقاعدہ دو ٹوک ہدایت کی کہ چھ مہینے کے اندر اندر یہ سودی قوانین ختم کئے جائے اور اس کا متبادل اسلامی بینکاری نظام کو نافذ کیاجائے۔
بعض لوگ تو یہ بھی پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ یہ اسلامی بینکاری کوئی متبادل نہیں۔ تو آپ ذرا IMFاور ورلڈبنک کو دیکھ لے کہ وہ اس کو متبادل مان رہے اور یورپ میں تقریباً 200بینکوں میں غیر سودی بینکاری نظام نافذ ہے اور ہم کہہ رہے کہ یہ متبادل نہیں؟۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ تفصیلی اور ہر حوالے سے مکمل و حتمی تھا۔
لیکن پھر 2002ء میں سپریم کورٹ شریعت ایپلٹ بینچ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے ریوینیو بینچ نے ازسر نو سماعت کے لیئے وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیا جو اب تک وہی قائم ہے۔ لہذا خلاصہ یہ کہ یہ جدوجھد جو 1980ء میں شروع ہوئی تھی، تو پھر بات زیرو پر آگئی، ہم اب بھی جہاں تھے وہی ہے۔
اب پھر وفاقی شرعی عدالت نے 12 سال بعد اس کیس کو پھر فریزر سے نکالا ہے اور اس پر پھر بات شروع ہوئی ہے۔

اللہ کریں کہ ہمیں اس حرام اور اللہ ورسول سے جنگ والے نظام سے چھٹکارا ملے اور ہمارے ملک سمیت پوری دنیا میں اسلامی بینکاری ومالیاتی نظام نافذ ہوجائے۔
اسلامی معاشی و بینکاری نظام کے لیئے علماء کرام، تاجر حضرات اور قانونی ماہرین کو مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ علمی، قانونی اور معاشی جنگ ہے۔ علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ منبر و محراب پر اس کے حوالے سے آواز بلند کریں، وکلاء قانونی سپورٹ کیلئے عزم کریں اور تاجر حضرات مارکیٹوں میں شعور و آگاہی پھیلائیں تو ان شاءاللہ بہت جلد ہم اس لعنت سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :