اور بسمہ کا خواب پورا ہوگیا

بدھ 17 جون 2020

Munir Tahir

منیر طاہر

کہاں کھوئی ہوئی ہو؟ بسمہ کی سہیلی نے کہنی مارتے ہوئے اسکے کان میں سرگوشی کی، چیف جسٹس نے سانحہ ماڈل ٹاون کا فیصلہ سنانا شروع کردیا ہے۔ بسمہ ان خیالات سے چونک اٹھی جس میں وہ دیکھ رہی تھی پچھلے چھ سال سے کیسے وہ پاکستان کے اجتماعی ضمیر پہ بوجھ بنی بیٹھی رہی، جب سترہ جون 2014 کو حکمران وقت نے طاقت کے نشے میں چور ہو کر ماڈل ٹاون میں منہاج القرآن کے مرکز پر غیر قانونی آپریشن کیا تھا اور اسکی والدہ تنزیلہ امجد اور اسکی حاملہ پھوپھو شازیہ مرتضیٰ سمیت بہت سے لوگوں کو دن دیہاڑے ریاستی پولیس نے اسکی آنکھوں کے سامنے گولیاں ماریں تھیں جس میں 14 پاکستانی شہید اور سو سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے اور وہ بے بسی سے وہاں کھڑے لوگوں سے سوال کررہی تھی کیوں مارا میری ماما کو، کیوں مارا؟
 لیکن اب خوش قسمتی سے اس مقدمے کی سماعتوں سمیت تمام دیگر ضروری کاروائی مکمل ہوچکی تھی اور سپریم کورٹ کے فل بینچ نے آج تین ماہ قبل محفوظ کیا گیا وہ فیصلہ سنانا تھا جس کا نہ صرف اسے بلکہ پوری قوم کو شدت سے انتظار تھا۔

(جاری ہے)

اس ہائی پروفائل کیس کے فیصلے کی بریکنگ نیوز دینے کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے درجنوں نمائندے کیمرے سنبھالے تیار کھڑے تھے جس میں تین دفعہ کے سابقہ وزیراعظم اور تین دفعہ کے سابق وزیراعلی اور انکے پانچ طاقتور وزرا پہ ریاستی سرپرستی میں اپنے ہی سینکڑوں شہریوں کو گولیاں مروانے کا مقدمہ تھا جس کو ملک کے اکثر چینلز نے لائیو نشر کیاتھا۔


چار سال در در بھٹکنے اور تھکا دینے والی قانونی چارہ جوئی کے بعد بسمہ نے ایک بڑا فیصلہ کیا جب اپریل 2018 کو سڑک کے درمیان کھڑے ہو کے اس نے اسوقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی گاڑی کا راستہ بلاک کردیا، چیف کے پوچھنے پہ بسمہ نے سوال کیا کہ عدالت میری ماں کے قاتلوں کو سزا کیوں نہیں دے رہی اور مجھے انصاف کیوں نہیں مل رہا؟ جس پہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بسمہ امجد کے سر پر ہاتھ رکھ کے وعدہ کیا تھا کہ آپ کو انصاف ملے گا آپ بس حصول تعلیم پر توجہ دیں اور اپنی شہید ماں کے خواب کو پورا کریں. لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو، جسٹس ثاقب نثار کچھ کیے بغیر ریٹائرڈ ہوگئے تواسے یوں لگا کہ انصاف کی امید ختم ہونے پہ شاید وہ زندہ نہ رہ پائے اور ماں کے دکھ میں جلتی ہوئی جان دے دے اور اپنی ماں سے جاملے۔


لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور مظلوموں کی اس دنیا میں اسے اللہ کے بعد آخری امید اب بھی عدلیہ سے ہی تھی اور ایک بار پھرچار صفحات پہ لکھی تفصیلی درخواست لیکر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سردار محمد شمیم کی عدالت میں پہنچ چکی تھی لیکن پانچ گھنٹے کمرہ عدالت میں انتظار کے باوجود نہ صرف اس سے ملنے سے انکار کیا گیا بلکہ اس کی درخواست تک وصول نہیں کی گئی۔

یہ وہ جج صاحب ہیں جنہوں نے اسی کیس کی ایف آئی آر کے ایک نامزد ملزم نواز شریف کو لندن بھیجنے کے لیےچھٹی والے دن عدالت لگا کر انکی ضمانت منظور کی تو اسکا چھوٹے سا زہن سوال کیے بنا نہ رہ سکا کہ مجھ جیسی بچی کی فریاد سالوں سے اس لیے نہیں سنی جارہی کہ میں اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ پولیس کی گولیاں کھا کر مرنے والی ایک عام سی عورت کی بیٹی اور بھتیجی ہوں؟ روکنے کے باوجود اسکے ننھے زہن نے ایک اور سوال داغ دیا کہ کیا نواز شریف کو ملنے والا یہ سلیکٹڈ جسٹس نہیں؟ اورمیری پھوپھو اور ماں کے قتل کا سالوں سے انصاف اس لیے نہیں مل رہا کہ انکی جان اشرافیہ سے سستی ہے؟ آؤٹ آف دی وے جا کر مجرمان کو ایسے ریلیف دینے پہ یہ سوال اٹھنا فطرتی بات ہے کہ اسکی ماں اور پھوپھو پہ اس ظلم کے خلاف احتجاج کرنے والے عوامی تحریک کے 107 ارکان کو سزا ہو گئی، ایک سال ہو گیا ہے کہ ان کی سسپنشن فکس نہیں ہو رہی، اور سماعت نہیں ہو رہی، ان میں سے ایک شخص کی پولیس حراست میں ہلاکت بھی ہوچکا لیکن میڈیا یا انسانی حقوق کا شور مچانے والوں کو کوئی دکھ نہیں ہوتا، آخر کیوں؟
چیف جسٹس فیصلہ سناتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اسوقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دھرنا ختم کرانے کے لیے ایف آئی آر درج کرانے میں عوامی تحریک کی مدد نہ کی ہوتی تو نہ جسٹس باقر نجفی کمیشن 132صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ مرتب کرپاتا اور نہ یہ کیس آج اس فیصلے تک پہنچ پاتا۔

فیصلے میں وزیراعظم اور وزیراعلی کے ملوث ہونے کے ثبوت دستیاب نہ ہونے پر انہیں شک کا فائدہ دے کر بری کردیا گیا تھا جبکہ اسوقت کے وزیر دفاع، وزیر پانی و توانائی، وزیر قانون پنجاب اور وزیراعلی پنجاب کے پرنسپل سیکریٹری اور ڈی سی او لاہور(ریٹائرڈ کیپٹن) کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔
پولیس افسران میں سے اس وقت کے سی سی پی او لاہور، ڈی آئی جی آپریشنز اور اس سانحے میں سینکڑوں گاڑیاں توڑ کر دہشت پھیلانے والے گلو بٹ کو کیمروں کے سامنے گلے لگانے والے ایس پی ماڈل ٹاؤن کو بھی سزائے موت کا حکم اور دیگر 126 پولیس آفیسرز کو عمر قید کا حکم دیا گیا تھا بارہ تھانوں کی وہ نفری جو سترہ جون کی رات منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ پہ حملے کے لیے آئی تھی اسکے ایک ایک فرد کو نہ صرف نوکری سے معزول کیا گیا تھا بلکہ تاحیات کسی بھی سرکاری ملازمت کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔


گلاس گرنے کی آواز سن کر وہ چونکی تو اسے ہوش آیا کہ وہ کمرہ عدالت میں نہیں بلکہ اپنے بستر پہ تھی اور چیخ مار کے اٹھی تھی اور اسکی چھوٹی بہن بھاگتی ہوئی پانی کا گلاس لے کر اسکی طرف آرہی تھی لیکن زمین پہ پڑے اسکے جوتوں سے پاوں رپٹ جانے سے گلاس سنبھال نہ سکی، ماں کی شہادت کے بعد سے تین سالہ بھائی علی اور اس چھوٹی بہن کو وہ ماں بن کے ہی پال رہی تھی اسکی یہ حالت دیکھ کر اسکے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور آنسووں کا سیل رواں تو جاری ہوگیا لیکن سوالات تھے کہ آنسووں سے بھی تیز رفتاری سے اسکے معصوم زہن میں زلزلے کے جھٹکے دے رہے تھے۔


موجودوہ وزیراعظم نے کہا تھا سب نے پولیس کو گولیاں مارتے لائیو دیکھا، اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے پولیس کو ٹھیک کروں گا لیکن پولیس ٹھیک کرنا تو درکنار، اسکی اصلاحات تک پہ کیوں کچھ نہیں کیا جارہا؟
حکومت بدل گئی لیکن مجرمان نہ صرف آزاد بلکہ اپنے عہدوں پر برقرار ہیں اور ترقیاں بھی پا رہے ہیں، دو سال بعد تبدیلی حکومت کیوں سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ایک بھی ملزم جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں پہنچا سکی؟
کل صرف 72 منٹ کی سماعت کے بعد چینی کمیشن رپورٹ پرسٹےآرڈرجاری کرتے ہوئے عدالت نے اداروں کوکارروائی سے روک دیا، کیا اتنا تیز ترین انصاف صرف اشرافیہ اور سرمایہ دار کے لیے ہی ہے، میری ماں اور پھوپھو سمیت عام چودہ پاکستانی شہریوں کے لیے نہیں؟
یہ کیسا عجیب نظام ہے جس میں باقرنجفی رپورٹ میں نامزد IG سےSHO  تک تمام ملزمان اپنےعہدوں پربراجمان جبکہ انصاف مانگنے والے جیلون میں قید ہیں؟
ہمارے ملک میں طاقت کےتین ستون، آرمی چیف , چیف جسٹس اور وزیراعظم کے بار بار وعدوں کے باوجود انصاف نہیں ملا، کیا کوئی کوئی چوتھی طاقت بھی ہے جو ان تینوں سے طاقتور اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہے؟
کیا تحریک انصاف کا کوئی ورکر وزیر اعظم سے سوال کرنے کی ہمت رکھتا ہے کہ الیکشن کمپین میں انصاف دلانے کے وعدے پہ ووٹ لینے کے بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن پر 2 سال سے خاموشی کیوں؟
ماڈل ٹاؤن میں شہید ہونے والے پاکستانیوں کا خون عدل کے مقفل دروازے پر چھ سال سے دستک دے رہا ہے آخر یہ قفل کب کھلے گا؟
اقوام متحدہ میں ظالم کو للکارنے والا میرا وزیراعظم اپنی حکومت میں اس ظلم کے خلاف چپ کیوں؟
عمران خان صاحب تو کہتے تھے ماڈل ٹاؤن سانحہ کا انصاف زیادہ سے زیادہ ایک ماہ میں مل جانا چاہئے انکی حکومت کو دو سال ہوگئے، انصاف اب تک کیوں نہیں ملا؟
کرونا وائرس میں مبتلا ہونے پہ آج ہی آرمی چیف نے اس سانحہ کی ایف آئی آر اور دیگر نیب کیسز میں ملوث، شہباز شریف کو فون کرکے انکی خیریت دریافت کی اور ہر ممکن مدد کی پیشکش کی، لیکن کسی آرمی چیف نے ماڈل ٹاون سانحے میں شہید ہونے والے ان عام پاکستانیوں کے گھر والوں کو فون کرکے کیوں خیریت یا انکی ضرورت نہیں پوچھی؟
بسمہ کی ماں اور پھوپھی کا خون وہ خون ہے جو آج بھی سرخ ہے، جاری ہے ۔

یہ وہ درد ہے جو آج بھی دہکتا ہے، کب انصاف ملے گا کہ یہ خون ٹھنڈا اور پرسکون ہوسکے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :