نصاب اور جدید طریقہ تدریس

منگل 27 اگست 2019

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

مقصد کے بغیر انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا ارتقا ممکن نہیں ہوتا۔اس لئے مقصد ایسا محرک ہے جو انسان کو ہمہ وقت متحرک رکھتا اور یہی تحریک انسانی زندگی میں تبدیلی اور انقلاب کا باعث بنتا ہے۔یہ تبدیلی اور انقلاب دراصل انسان کو ایسے ہموار راستے پر گامزن کرتا ہے کہ جس کا اختتام ماسوا منزل کے اور کچھ نہیں ہوتا۔یہی مقصد انسان کا نصب العین بھی ہوتا ہے بلاشبہ یہ مقصد جدید نصاب تعلم ہی متعین کرتا ہے کیونکہ تعلیمی نصاب منزل کے حصول کا معتبر راستہ ہوتا ہے۔

اور اسی نصاب تعلیم میں معاشرہ کی اقدار،ثقافت،ترقی اور خوش حالی کا راز بھی مضمر ہوتا ہے۔گویا اعلی اور جدید تعلیم نصاب دراصل خوش حال،مستحکم اور مثالی معاشرہ کا ضامن اور انفرادی زندگی کی ترقی کے ثمرات کے حصول کا ذریعہ بھی ہے۔

(جاری ہے)

نصاب جسے انگریزی میں currirulum کہا جاتا ہے دراصل قدیم لاطینی زبان کی اصطلاحcurrier سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہی ہموار راستہ ہے۔

گویا نصاب ایسا ہموار راستہ ہے جو انسانی زندگی کالائحہ عمل متعین کرتا ہے جس پر چل کر انسان گوہر مقصود اور حاصل حیات کا حقدار ٹھہرتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جاری کردہ نصاب جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہے،کیا پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج ہے،کیا ہمارے سالانہ بجٹ میں تعلیمی ضروریات اور اخراجات کے مطابق رقم مختص کی جاتی ہے،کیا ہم سات دہائیاں گزرنے کے باوجود اپنے تعلیمی اہداف مقرر کرنے اور انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہو پائے ہیں کہ نہیں؟یہ تمام ایسے سوالات ہیں جو ہر ذی شعور،اہل فکر ودانش کے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں۔

مگر اس کا جواب تلاش کی سعی مفقود کیوں ہے،شائد اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم یکساں نصاب تعلیم اور نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں ابھی تک گومگوں اور تذبذب کا شکار ہیں۔میری ناقص رائے میں اس کی چند وجوہات اس طرح سے ہیں کہ استاد کو جو مقام ،اہمیت اور حیثیت جو اسلام نے مقرر اور واضح کی ہم اپنے اتالیق کو وہ مقام دینے سے قاصر ہو گئے ہیں۔

معاشرہ میں عزت و تکریم کی بجائے اسے اچھوت بنا دیا گیا ہے کہ ملک میں کسی قسم کا سروے کرنا ہو،مردم شماری کروانی ہو،الیکشن ڈیوٹی ہو ااساتذہ کو ایسے کاموں کے لئے بلا سوچے سمجھے بلا لیا جاتا ہے حالانکہ جدید معاشروں میں اساتذہ کی بجائے ایسے کام نوجوان والنٹئرز سے مناسب معاوضہ سے کروا لئے جاتے ہیں۔طالب علموں کی تخلیقی صلاحیتوں کو محدود کر دیا گیا ہے کہ عرصہ دراز سے ایک ہی طریقہ تدریس اور رٹہ سسٹم نے بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو سلب کر لیا ہے ۔

اس کا آسان حل یہ ہے کہ طالب علموں میں سرگرمی اور تجربات کی عادت ڈالی جائے اور انہیں صرف گائیڈلائن مہیا کی جائے بقیہ کام طالب علم از خود کرے جس سے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا ملے گی ۔
لہذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ تعلیمی میدان میں ترقی کریں تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ترتیب دیا جائے جس میں جدید طریقہ تدریس سے طلبا کی ذہنی پرورش کی جائے۔

موجودہ دور میں ایک طریقہ تدریس بڑی تیزی سے اچھے تعلیمی اداروں میں پنپ رہا ہے جسے KASH کہا جاتا ہے جس سے مراد ہے کہ knowledge,attitude,skill and habbit ۔اگر ہم اپنے تعلیمی اداروں میں پڑھایا جانے والے نصاب اور طریقہ تدریس پرغور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام مذکور میں سے صرف اور صرف knowledge پر ہی توجہ اور زور دیا جاتا ہے،اگر ہم اس پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس تدریسی عمل میں صرف بنیادی معلومات،وضاحت اورآموز ش کے سوا کچھ بی نہیں سکھایا جاتا،جبکہ ایسا علم جو اپنے تجربات اور مشاہدہ سے سیکھا جائے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہی علم دیرپا ہوتا ہے۔

لہذا ہمیں علم کے ساتھ ساتھ ہنر،اقدار اور عادات کو بھی اپنے تعلیمی عمل کا حصہ لازم بنانا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر ہم جدید تقاضوں پر پورا نہیں اتر سکتے۔گویا اگر پاکستان چاہتا ہے کہ ملک تعلیمی میدان میں ترقی کرے تو اسے جدید طریقہ تدریس کو ہنگامی بنیادوں پراپنے تعلیمی اداروں میں لاگو کرنا ہوگا کیونکہ تعلیم کے بغیر کوئی ملک ترقی کی بلندیوں کو نہیں چھو سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :