اسلام میں عورت کا مقام اور بین الاقوامی یومِ خواتین

ہفتہ 7 مارچ 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

 ہرسال 8 مارچ کو پوری دنیا میں عورتوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔جس کا مقصد خواتین کے حقوق،معاشرے میں ان کی عزت و مقام ،سماجی حیثیت کو تسلیم کرنا ہے۔ساتھ ہی ساتھ انہیں ان تمام حقوق کا شعور فراہم کرنا جو مرد اس معاشرہ میں رکھتے ہیں۔اس دن کو منانے کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ بلا تخصیص مرد و زن حقوقِ نسواں کو اہمیت دینا اور ان کا معاشرہ میں مقام متعین کرنا۔

حقوقِ نسواں کا پہلا قومی دن ۱۹۰۹میں تھریسا سربر theresa serberکے کہنے پر سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے منایا۔جو اپنے عہد کی معروف مصنفہ اور سماجی کارکن تھی۔ ایسے ہی 1910 میں کوپن ہیگن ڈنمارک کی سوشلسٹ پارٹی نے بھی ایک میٹنگ میں حقوقِ نسواں کے متعلق فکر کی اور یہ سلسلہ آسٹریا،جرمن،ویانا،پیرس اور سوویت یونین تک جا پھیلا۔

(جاری ہے)

1917کے انقلاب روس میں خواتین پہ ڈھائے جانیوالے ظلم اور استبداد کے خلاف روس نے باقاعدہ اس دن سرکاری تعطیل کا اعلان کر دیا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ مرد بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

بالآخر اقوامِ متحدہ نے 1975 میںآ ٹھ مارچ کو باقاعدہ اس دن کو بین الاقوامی طور پر منانے کا اعلان کر دیا۔یہ تو تھے وہ تاریخ ساز حقائق جسے آجکل کی نام نہاد مغربی تعلیم یافتہ نسل عورت کو معاشرہ میں مظلوم بنا کر پیش کرتی ہے،اور اس بات کا واویلا ایسے مچاتی ہے کہ جیسے دنیا میں مظلوم ترین مخلوق صرف اور صرف عورت ہی ہے ۔اس شور کا شعور اب چند اسلامی ممالک میں بھی سنائی دینے لگا ہے۔

اگر میں پاکستان کا حوالہ دوں تو اکثر اس بات کو عیاں کیا جاتا ہے کہ دیہی عورت پر طرح طرح کے ظلم رواں رکھے جاتے ہیں۔اسے گھر کے علاوہ کھیتوں میں بھی کام کاج کے لئے جانا پڑتا ہے اور یہ اس کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے۔اور بلا معاوضہ۔تو جناب میں نے اپنی زندگی میں بہت سے دیہات کا دورہ بھی کیا ہے اور میرے ننہال کا تعلق بھی ایک دیہات ہی سے ہے۔میں نے آج تک نہیں دیکھا کہ عورتوں کو زبردستی کھیتوں میں کام کرنے پہ لگایا گیا ہو،یہ سب تو وہ خاندان اور خاوند کی محبت میں کرتی ہیں۔


یہ سب تو ایک صد ی کا قصہ ہے کہ جب سے حضرت انسان نے عورت کے سر سے دوپٹہ سرکنے کے نام کو آزادی نسواں کا نام دے رکھا ہے۔جبکہ میرے آقاﷺ کے دینِ حق نے تو آج سے پندرہ صدیاں قبل عورتون کے بطور بہن،ماں،بیوی الغرض باندیوں تک کے حقوق کو اس وضاحت و استراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ عقل حیران و ششدر رہ جاتی ہے۔ سورة النسا میں حکمِ باری تعالیٰ ہے کہ”مومنوں: تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔

اور اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو ،انہیں گھروں میں مت روک رکھنا۔ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں“۔اسی طرح سورة بقرہ میں ارشادِ ربانی ہے کہ”عورتوں کا حق(مردوں پر) ویسا ہی ہے،جیسے دستور کے مطابق(مردوں کاحق) عورتوں پر ہے۔البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور خدا غالب صاحبِ حکمت ہے۔اللہ تعالی نے سورة النسا میں تو یہاں تک فرما دیا کہ” اگر میاں بیوی میں(موافقت نہ ہو سکے)اور ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو خدا ہر ایک کو اپنی دولت سے غنی کر دے گا۔

اور خدا بڑی کشائش والا اور حکمت والا ہے۔“میں حیران ہوتا ہوں ایسی تمام نام نہاد تنظیموں کے جلوس نکالنے،ریلیاں نکالنے پر اور ایسے حقوق کی تشہیر پر جس پہ کم از کم میرا مذہب تو کوئی قدغن نہیں لگاتا۔جو مذہب باندی سے لے کر بیوی اور ماں کے حقوق اور عزت کی پاسداری کے لئے مرد کو حاکم بنا کر خواتین کو شہزادیوں کی طرح گھروں میں عزت کا تاج پہنا کر بٹھانے کی بات کرتا ہو،وہ بھلا خواتین پر تشدد اور استبدادیت کے واقعات کو کیسے تسلیم کر کے اس کو ہوا دینے کی اجازت دے سکتا ہے۔

یہ سب انسانون کے بنائے ہوئے معاشی عدم توازن کی بنا پر ہوتا ہے۔اس لئے کہ ہم جس معاشرہ میں رہ رہے ہیں وہاں عورت کو ایک مخصوص سمبل کے طور پر جانا جاتا ہے۔جس کی نشاندہی اکبر بادشاہ کے درباری گویے تان سین نے کی تھی۔واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ تان سین کا ایک ہی شاگرد تھا جسے تان سین رموزِ موسیقی اور لحن کے اتار چڑھاؤ سے روشناس کرواتا تھا۔

ایک روز کسی کام کی غرض سے استاد نے بازار بھیجا کافی دیر تک جب شاگرد واپس نہ آیا تو تان سین کو فکر لاحق ہوئی اور اس نے چند درباریوں کو اس کی تلاش میں روانہ کر دیا کہ اسی اثنا میں شاگردِ خاص محل میں وارد ہوتا ہے اور استاد سے آتے ہی یوں ہمکلام ہوا کہ استادِ محترم آج میں جو آواز سن کے آ رہا ہوں اس کے سامنے آپ کی آواز کچھ بھی نہیں ۔کیا سریلی اور دل موہ لینے والی آواز تھی؟آپ کی آواز اس کے سامنے ایسے جیسے کوئل کے سامنے مور چیخ رہا ہو،تان سین بڑا حیران ہوا،استاد آخر استاد ہی ہوتا ہے،کہنے لگا اچھا اگر وہ اتنا ہی سریلا ہے تو پھر وہ آدمی نہیں بلکہ کوئی خوبصورت عورت ہوگی۔

اور ایسا ہی تھا۔
مقامِ صد حیف اور المیہ یہ ہے کہ ہم جس مغرب کی تقلید میں ننگِ بدن ہونے جا رہے ہیں ان کے اپنے ملک اور آئین میں عورت کا مقام ومرتبہ،عزت وتکریم اور احترام کی اخلاقی وآئینی حیثیت وہ نہیں ہے جو میرے ملک کے آئین،اخلاقیات،اقدار اور خاندانی نظام میں موجود ہے،ہاں یہ اعتراض ضرور بنتا ہے کہ ان تمام کا اطلاق کس حد تک ہے؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں آئین ساز ادارے موجود ہیں اور ان کے اطلاق کے لئے تنظیمی ادارے بھی فعال ہیں لیکن انفرادی طور پر اخلاقیات کی پاسداری ہم سب کے رویوں سے جھلکتی نظر آنا چاہئے جس کا مکمل طور پر فقدان نظر آتا ہے۔

یعنی ہم اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہونے سے راہِ فرار اختیار کئے ہوئے ہیں۔عورت کے حقوق کی پاسداری میں مغرب نوازوں کے علم میں یہ بات ہونا چاہئے کہ خود امریکہ اور انگلینڈ میں خواتین کو یہ حقوق 1918اور1920 میں ملے ہیں اور وہ بھی صرف حقِ ووٹ،دیگر حقوق نسواں کے لئے امریکی پارلیمنٹ میں equal rights amendments bill جو کہ 1971 میں پیش کیا گیا اور اس کی توثیق وتصدیق کے لئے مقررہ وقت پر بھی صرف سنتیس امریکی ریاستیں قائل ہو سکیں اور اس طرح یہ بل ابھی تک ردی کی ٹوکری میں پڑا ہوا ہے۔

اس کے برعکس پاکستان کو قدامت پرست اور خواتین کے حقوق کی رذالت والا ملک خیال کرنے والوں کے لئے عرض ہے کہ پاکستان میں آئینی،سیاسی،اخلاقی،مذہبی اور روائتی حقوق نہ صرف دئے جارہے ہیں بلکہ عورت کوعزت واحترام میں بھی وہ مقام حاصل ہے جو کسی اور مذہب اور آئین میں کہیں نہیں ہے۔لہذا ایسے بے ہودہ نعروں سے میری نسل کی سیدھی سادھی خواتین کو بے راہ اور گمراہ نہ کیا جائے کیونکہ ہمارا معاشرہ اور مذہب اس کا کبھی بھی متحمل نہیں ہوسکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :