شرمندہ تعبیر

پیر 16 مارچ 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

مجھے بطور استاد مطالعہ پاکستان پڑھاتے ہوئے عرصہ بیس سال ہو چلے ہیں اور اس مضمون کو پڑھاتے ہوئے شائد ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرا ہو کہ جس میں یہ فقرہ میرے منہ سے نہ نکلا ہو کہ اقبال کے خواب کوملک پاکستان کی صورت میں محمد علی جناح نے شرمندہ تعبیر کیا۔لیکن گذشتہ روز صحافت کے ایک بڑے نام کی گرفتاری پر ملک کے سابق وزیر ِ اعظم اور دیگر حواریوں کی پریس کانفرنس پر یقین جانیں مجھے شرمندہ ہونا پڑا کہ کیا اقبال کا خواب اور جناح کی تعبیر کا مقصد یہی تھا کہ بادشاہ گروں کو بچانے کے لئے ان کے حواری فوراْ میدان میں آجائیں بلکہ اسے میدان جنگ بنا دیں،اسی اخبار میں گذشتہ دوماہ سے ملازمین تنخواہوں کے لئے دست بستہ عرض گذار ہوچکے ہیں اور انہیں موصوف نے اسی پلاٹ جس کا اب ان پہ بے نامی کا الزام ہے کو فروخت کر کے تنخواہیں دینے کا وعدہ فرمایا تھا۔

(جاری ہے)

تب یہ غریب پرور سیاستدان کہاں سوئے ہوئے تھے۔قانون کے تحت ایک آدمی کسی بھی ٹاؤن میں ایک ساتھ اتنے پلاٹ رکھنے کا مجاز نہیں ہوسکتا ،تو پھر انہیں کس کے ایما پر یہ پلاٹ دئے گئے۔اور بھی ایسے سوالات ہیں جن کے بارے میں عوام اور میڈیا ہاؤسز جانتے ہیں کیا وجہ ہے کہ سابق وزیراعظم ان تما م باتوں سے بے خبر ہے،صرف یہیں اختتام نہیں ہوابلکہ اس مسئلہ کو پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پہ بھی اٹھایا گیا،چلئے ان کی اس حرکت سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ ان سیاستدانوں کو کسی غریب کی نہیں بلکہ غربا کا خون چوسنے والوں کی پراپرٹیاں عزیز ہیں،انہیں ورکرز کی تنخواہوں کی فکر نہیں بلکہ ورکرز کا خون چوسنے والوں کی فکر کھائے جاتی ہے۔

میں کافی دیر سوچتا رہا کہ کیا اقبال کے خواب کو اس لئے شرمندہ تعبیر کیا گیا تھا کہ ہم سب دنیا کے سامنے شرمندہ ہوتے رہیں۔
سنا تھا کہ رہبروں کے ضمیر مجرم ہیں مگر پتہ نہیں وہ کون سے رہبر تھے جن کے ضمیر مجرم ہوا کرتے تھے،اب تو لچا ہی سب سے اچا سمجھا جاتا ہے۔میر شکیل کی گرفتاری کو جمہوریت پر حملہ،صحافت پر حملہ اور چوتھے ستون کو گرانے کے مترادف خیال کیا جارہا ہے،نامعلوم ان سیاستدانوں نے جمہوریت کس کا نام رکھا ہوا ہے۔

موجودہ صورت حال سے تو یہ واضح نظر آرہا ہے کہ یہ سب بغضِ عمران میں کیا جا رہا ہے،کیوں ایک شخص کو گرانے کے لئے خود کو اپنی اور عوام کی نظروں میں گرا رہے ہیں۔یہ کسی ایک شخص کی پشت پناہی نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے حفظِ ماتقدم کے تحت یہ سب کیا جا رہا ہے۔اور تو اور ایک جوشیلے نے تو یہ تک کہہ دیا کہ یہ مولانا ظفر علی خان کے نظریات کو پامال کرنے کی سازش ہے۔

شائد انہیں پتہ نہیں کہ مولانا ظفر علیخان کون تھے،انیس صد بیس کے عشرہ میں جب ان کا اخبار زمیندار اپنے عروج پر تھا جو کہ حق وصداقت کا علمبردار خیال کیا جاتا تھا،اس میں شائع ہونے والی نظمیں اور اداریہ وہ خود تحریر فرمایا کرتے تھے ایسے میں انگریز سرکار کا مولانا کے خلاف سیخ پا ہونا بنتا تھا کیونکہ وہوہی لکھتے جنہیں وہ حق سمجھتے تھے،اس جرم کی پاداش میں مولانا ظفر علی خان کا پریس کوئی چار مرتبہ بحق سرکار ضبط کرلیا گیا جس کی کل رقم اس دور مین کوئی چار لاکھ کے قریب بنتی ہوگی،باوجودیکہ انہوں نے حق لکھنا نہیں چھوڑا۔

یہ سب انہوں نے ایک اعلی مقصد کی خاطر کیا اوت وہ مقصد کیا تھا؟وہ تھا پاکستان کا حصول ،جب اس مقصد میں مسلمانان ِ برصغیر کامیاب ہوگئے اور 1947 میں اس کی تعبیر ہمیں مل گئی تواب وہ لوگ جنہوں نے ملک کے لئے قربانیاں دیں تھیں انہیں تو زمردو جواہر سمجھتے ہوئے پاکستان کی حکومت کی انگوٹھی میں جڑنا چاہئے تھا مگر ایسا نہیں ہوا ،پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے کوئی دس سال بعد مولانا ظفر علی خان نے کرم آباد وزیر آباد میں کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہوئے اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔

لیکن نہ قلم بکا اور نہ گرددن جھکی اور نہ ہی ایمان فروخت کیا،یہ کون سی صحافت ہے کہ جس میں بحق سرکار کوچھ ضبط بھی نہیں ہوا لیکن ایک سرکار ان کا ساتھ دینے کے لئے مصروف عمل ہے کہ ہم صحافت کے ستون کو کسی صورت گرنے نہیں دیں گے۔اب ذرا آج کے مولانا ظفر علی خان کا حال دیکھ لیں کہ لاہور اور دبئی کے پوش علاقوں علاقوں میں محلات بنانے اور شاہانہ زندگی گزارنے کے باوجود بھی اپنے ہی ملازمین کو دینے کے لئے تنخواہیں تک اکاؤنٹ میں نہیں ہیں،پھر بھی کہتے ہیں کہ ہمارا دامن صاف ہے۔


خدا را کسی کو گرانے لئے آپ اتنا نہ گریں اور نہ ہی پاکستان کو دنیا کے سامنے گرنے دیں،وہ کیا ہے کہ کھادیاں جنہاں نے گاجراں ڈھڈ اونہاں نے پیڑ،اگر میر پر کوئی الزام ہے تو وہ جانے یا نائب جانے جو حق ہے اور سچ ہے وہ کھل کر سامنے آجائے گا،ساتھ دینے سے مراد ہے ان کی پشت پناہی کرنا،حق کیا ہے عوام سے بہتر کوئی نہیں جانتا،اس لئے خاموش تماشائی بننا آپ کے مفاد مین بہتر ہے ایسا نہ ہو کہ کرپشن کی غلاظت کے چھینٹے آپ کے دامن کو بھی گدلا نہ کردیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :