
قرنطینہ قید نہیں
پیر 23 مارچ 2020

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
حالیہ موذی مرض کرونا نے اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے دنیا کے دو صد سے زائد ممالک میں سے کوئی ایک سو اسّی کے قریب ممالک اس وقت اس وبائی مرض کا شکار ہیں۔
ان میں سے ایک ملک جہاں میں اب مقیم ہوں یعنی قطر اور دوسرا یہاں میرا خاندان مسکن پذیر ہے یعنی ارض پاک پاکستان دونوں ہی اس خوفناک اور مہلک مرض کا شکار ہیں۔دوحہ چونکہ ایک بین الاقوامی شہر ہے اور اس میں بین الاقوامی کمیونٹی کا دخول وخروج پاکستان کی نسبت زیادہ ہوتا ہے تو مجھے یہاں رہتے ہوئے لوگوں کے خوف اور نفسیات کو جاننے کا زیادہ موقع ملا ہے تو ایک بات جو میں نے مسلمانوں مین خاص طور میں دیکھنے کو ملی ہے وہ ہے ان کا روٹین سے ہٹ کر توبہ و استغفار کی طرف بڑھتا ہوا رجحان ،جو کہ میرے خیال میں خوش آئند ہے کہ وہ لوگ بھی اللہ کی حمدوثنا میں مصروف ہیں جو صرف جمعہ کی نماز ہی ادا کیا کرتے تھے۔یعنی اللہ جب چاہے اپنے بندے کو اپنی طرف پھیر لے۔دعا ہے کہ اللہ تعالی ٰ ہم سب کو اسی ٴخشوع وخضوع کے ساتھ عبادت میں دل لگانے کی توفیق عطا فرمائے رکھے۔اگر حالیہ اعداد وشمار کا جائزہ لیں تو اس وقت پوری دنیا میں متاثرین کی تعداد 299344 ہے جن میں سے مرنے والوں کی تعداد 12587 ہے جبکہ صحت یاب ہونے ہونے والے95113 ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ اگر احتیاطی تدابیر اپنائیں جائیں تو اس موذی مرض سے بچا جا سکتا ہے۔یعنی حفاظت آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔سوشل میڈیا پر چلنے والا یہ پیغام بالکل صحیح ہے کہ ہسپتال کے بیڈ پر جانے سے بہتر ہے کہ اپنے گھر کے بستر پر آرام کیا جائے۔خدا نہ کرے اگر پھر بھی کوئی اس مرض کا شکار ہو جاتا ہے تو پھر اسے چاہئے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے حکومت کی طرف سے ہنگامی بنیادوں پر بنائے گئے قرنطینہ میں قیام کریں۔اس طرح نہ صرف آپ اپنی زندگی کو بچا سکتے ہیں بلکہ اپنے ارد گرد اپنے پیاروں کو بھی بچانے کا باعث بن سکتے ہیں۔قرنطینہ ایک عارضی احتیاط ہے کہ جس میں مریض کو تنہائی میں رکھ کر اسے دوسروں سے اور دوسروں کو اس سے بچایا جاتا ہے تاکہ اس بیماری کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔یہ مرض ایسا ہے کہ جو بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔اس سلسلہ میں ایران اور اٹلی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔کہ دونوں ممالک نے اس بیماری کے آغاز میں اسے سنجیدہ خیال نہیں کیا جس کا نتیجہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔کہ اٹلی سے جان گسل تصاویر اور خبریں دیکھ اور پڑھ کو دل خون کے آنسو روتا ہے۔اس لئے میری اپنے ملک کی عوام سے بھی التجا ہے کہ اس مرض کوانتہائی سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنی اور اپنے پیاروں کی حفاظت از خود کرنا ہے۔ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجائے اور جب دیر ہوجاتی ہے تو ماسوا پچھتاوے کے اور کچھ نہیں بچتا۔ہمیں احتیاط اور ایمان کو ایک ساتھ لے کر چلنا ہوگا،یقین کریں اگر ایسا ہم کریں گے تو قدرت کی مہربانی ہم پر ضرور ہوگی۔بعض سوشل میڈیا فلاسفر اس بات کو ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ احتیاط کی کیا ضرورت ہے۔ہمارا ایمان ہے کہ جو رات قبر میں آنا ہے وہ آکر رہے گی۔اگر اس بات پر ایمان نہ بھی رکھیں تو کیا جو رات قبر میں آنا ہے وہ نہیں آئے گی۔ہمیں قرآن وحدیث کو اس کے صحیح معنی ومفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔میرا ایمان یہ ہے کہ قرآن عالمگیر کتاب اور آقا ﷺ خاتم النبین ہیں تو پھر کیوں نہ اس بات پہ ایمان رکھا جائے کہ تاقیامت آنے والے مسائل ومصائب کا حل بھی اسی قرآن واحادیث اور سنت نبویہ ﷺ میں مضمر ہے،بس اسے دیکھنے کے لئے پارکھی اور ایمان والی نظر درکار ہے۔ایسے فلاسفر حضرات کی نذر میں دو باتیں پیش خدمت کہ ایک بار ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی شخص بھی دربار رسالت ﷺ میں حاضر ہوا۔رسول اکرم ﷺ نے اسے اس کے مقام سے ہی لوٹا دیا،نہ عملا بیعت فرمائی اور نہ ہی اس سے مصافحہ فرمایا اور نہ ہی سامنا کیا۔لہذا اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایسے حالات میں مصافحہ نہ کرنا سنت نبوی ﷺ ہے۔ایسے ہی جو لوگ کہتے ہیں کہ ایمان کے ہوتے ہوئے ہمیں احتیاط کی کیا ضرورت ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ان کہ آنکھوں کے سامنے سے سرکار دوعالم ﷺ کا یہ قول نہیں گزرا کہ اونٹ کا گھٹنہ باندھو اور پھر توکل کرو۔گویا اسباب اختیار کرنا ،احتیاط کرنا ہی توکل ہے اس سے بے نیازی توکل نہیں ہو سکتا ،گویا ایسے حالات میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا عین سنت اور عین اسلام ہے۔اور پھر شام میں پھیلنے والی طاعون کی بیماری کے بارے میں بھی تاریخ اسلام کی کتابیں بھری پڑی ہیں کہ اس مرض کو حضرت عمر کی انتظامی فہم وفراست اور سنت پر عمل پیرائی سے ہی شکست سے دوچار کیا گیا تھا۔حالانکہ اس بیماری سے ایک عشرہ مبشرہ صحابی حضرت ابو عبیدہ بن جراح اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔لیکن اس سارے حالات وواقعات میں حضرت عمر ایک بار بھی ملک شام نہیں گئے تھے۔کیا آج کے نام نہاد شوسل میڈیا فلاسفران کا ایمان،عقیدہ،توکل اور تقویٰ حضرت عمر سے زیادہ ہو سکتا ہے۔
گویا اگر حکومت کی طرف سے کوئی احتیاطی تدابیر اپنانے کی التجا کی جاتی ہے تو ہمیں حکومت وقت کی قدر کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہونا ہے کہ حکومت کو اپنی رعایا کی صحت کی فکر سب سے پہلے ہے۔محض چند ایام کے لئے ایک دوسرے سے ملنا جلنا بند کر دیجئے،ماسک کا استعمال کریں،جراثیم کش محلول کا استعمال کریں،اجتماعات میں جانے سے پرہیز کریں،بے جا سفر سے اجتناب کریں،میل ملاپ کو محدود کریں،ان شااللہ صرف احتیاطی تدابیر اور توبہ واستغفار سے ہی ہم بہت جلد اس موذی مرض کو قابو کر لیں گے۔اور اگر کسی مریض کو احتیاط کی غرض سے قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں انہیں کوئی قید بامشقت ہو گئی ہے۔قرنطینہ کوئی قید نہیں ہے بلکہ احتیاط ہے،آپ کی صحت کے بارے میں اور آپ کے پیاروں کے بارے میں۔ہمیں اخلاقی طور پر اور عملی طور پر آگاہی مہم میں حصہ لیتے ہوئے لوگوں کو یہ ترغیب دینا ہے کہ ہمیں قرنطینہ میں محفوظ اپنے پیاروں کی جان کی خاطر وہاں ہنگامہ آرائی اور ہلڑ بازی سے اجتناب کرنا ہے،تاکہ حکومت کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اسی میں ہی ہماری اور ہمارے ملک کی حفاظت اور سلامتی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.