تہذیبوں کا تصادم کیوں؟

اتوار 27 ستمبر 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

تہذیبوں کے تصادم سے قبل میں ضروری سمجھتا ہوں کہ تہذیب اور عقیدہ کے باہمی تعلق کو سمجھ لیا جائے تاکہ نتیجہ اخذ کرنے میں سہل پیدا ہو سکے کہ کیا مشرق و مغرب کی تہذیبوں میں تصادم ،مقابلہ و موازنہ کرنا بنتا بھی ہے یا پھر سیموئل ہن ٹنگٹن کے پیش کردہ clash of civilization نظریہ کے خلاف ہمارے دانشوروں،اہل علم وفکر اور فلاسفروں نے اپنے نظریات پیش کر کے خوامخواہ کی ایک بحث چھیڑ دی ہے۔

کہ مشرقی تہذیب ،مغربی تہذیب سے ہر حال میں بہتر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر آپ کسی کے جھوٹے خدا کو تنقید و تضحیک کا نشانہ بنائیں گے تو مخالفین آپ کے سچے رب کو بھی جھوٹا قرار دے سکتے ہیں جو ہمارے لئے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔اس لئے جب تک آپ تہذیب و عقیدہ میں حد اتصال قائم نہیں کریں گے اس وقت تک ہم دونوں تہذیبوں میں ہونے والے تصادم کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔

(جاری ہے)

صرف یہی نہیں بلکہ فکرِ اقبال،دانش مولانا روم،فلسفہ غزالی(تہامة الفلاسفہ)،سرسید احمد کا دو قومی نظریہ اور اکبر کی سخنوری کو سمجھنا ناممکن ہوجائے گا۔ہمیں کسی بھی تہذیب ،مذہب یا دین کے ساتھ موازنہ سے قبل اپنے دین کی اکملیت ،حقیقت اور عالمگیریت پر یقین ِ کامل ہونا از بس ضروری ہے۔اگر آپ قرآن و حدیث کی تشریح کو مکمل سمجھتے ہیں اور ان کا مکمل علم رکھتے ہیں تو دنیا کا کوئی علم،مذہب،فلسفہ اور خیال آپ کو متاثر نہیں کر سکتا کیونکہ دینِ کامل ماسوا دین اسلام کوئی اور نہیں ہو سکتا اس بات پر ایمان ِ کامل ہی ہمارا عقیدہ ہونا چاہئے۔

اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ دیگر مذاہب عالم اپنا مضبوط تاثر نہیں رکھتے بلکہ ہم اپنے مذہب سے بے گانہ ہوتے جا رہے ہیں۔اسی لئے دنیا میں ذلیل ورذیل ہورہے ہیں۔
عقیدہ اور تہذیب دراصل اعمال اور مظاہر افعال کا نام ہیں۔عقیدہ مستقل اکائی کا نام ہے جسے ثبات اور استقلال واستحکام حاصل ہے۔جبکہ تہذیب(مظاہر) غیر مستقل اور تبدل و تغیر کے پیراہن میں ملبوس ہر صدی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

لیکن جب ہم بات مشرقی و مغربی تہذیب کی کرتے ہیں تو اس سے مراد ہم اسلام اور غیر اسلام مراد لے کر اس پر بحث کرتے ہیں،یا مقابہ و موازنہ کرتے ہیں۔کیونکہ ہمارا عقیدہ ”وحی“پر مبنی ہے جبکہ مغربی تہذیب سائنس ،مشاہدہ اور دنیوی علم پر منتج ہوتا ہے۔الہام میں کوئی تغیر وتبدل ممکن نہیں کیونکہ وہ ذات الہی کی طرف سے نزول شدہ ہوتی ہے۔جبکہ مغربی تہذیب سودوزیاں پر مبنی اعمال وافعال کا نام ہے۔

اقبال نے بہت خوب کہا تھا کہ
کیا ہے تو نے متاع ِ غرور کا سودا
فریب ِ سودوزیاں لاالہ الا اللہ
میری رائے میں مشرقی تہذیب کا کیونکہ موازنہ ومقابلہ دیگر تہذیبوں سے نہیں بنتا وہ اس لئے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری تہذیب و عقیدہ کا انحصار وحی پر ہے تو پھر صرف ایک واقعہ ہی بطور دلیل کافی ہے کہ جب حضرت خزیمہ  نے بوجہ خوف پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ جو بھی فرماتے ہیں میں وہ لکھ لیتا ہوں کیا مجھ سے کوئی گستاخی تو سرزد نہیں ہو رہی۔

اس پر آقا ﷺ نے اپنے لب اطہر کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ خزیمہ  اس زبان سے جو بھی نکلتا ہے حکم الہی سے نکلتا ہے۔اور پھر حضرت عمر  کا ایک قول کہ ”ہم تمہیں تمہارے افعال سے جانتے ہیں اور انسان اس کے سوا کیا کرسکتا ہے۔“
اب دیکھتے ہیں کہ تصادم اگر برپا ہے تو وہ کیوں ہے؟وہ اس لئے کہ مغرب سرمایہ دارانہ نظام،انڈسٹری،پیدائش دولت،صرف دولت،افادیت پرستی و پسندی،جمع تفریق اور سودوزیاں ہی ان کا خدا ہے۔


یہ مال و دولت،یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم وگماں لاا لہ الااللہ
جبکہ مشرق تو حید ورسالت ﷺپر ایمان کامل،وحی،الہام،اخوت،رواداری،سلیقہ طریقہ،مساوات وعدل،حقوق و فرائض،تقویٰ اور اسلامی اصول و ضوابط پر مشتمل ایک ایسا نظام پیش کرتا ہے جس میں اکملیت اور عالمگیریت دونوں موجودد ہیں۔اور سب سے بڑھ کر انسان کی قدر جس قدر اسلام میں ہے کسی اور مذہب میں دکھائی نہیں دیتی۔

بس اس کے لئے اقبال کے اس ایک شعر کی عملی تفسیر بننا ہوگا پھر دیکھئے کیا کیا معجزات دکھائی دیتے ہیں۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد ﷺ سے اجالا کر دے
اب میرا سوال یہ ہے کہ جب دونوں کے کنارے بعد المشرقین ہیں تو پھر تصادم و موازن کیوں کر،بس کیا ہے کہ جب ہمیں اپنے قرآن وحدیث کا مکمل علم نہیں تو پھر ہم فلسفہ مغرب سے متاثر تو ہوں گے ہی۔

لیکن تھوڑی سی سعی اگر اپنے علم کے حصول کے لئے کر لی جائے تو یقین جانئے آپ سمجھ سکیں گے کہ دنیا کے تمام علوم کا منبع و سرچشمہ انہیں دو علوم سے ہے یعنی قرآن و حدیث۔ہمیں ضخیم کتابوں اور دقیق فلسفہ سے متاثر نہیں ہونا بلکہ کسی کے مذہب کو نہ چھیڑتے ہوئے اپنے مذہب کو چھوڑنا نہیں۔جب اپنے دین پر ہم مکمل کاربند ہو جائیں گے تودنیوی علم ماسوا گرد دنیا کے کچھ نہیں دکھائی دے گا۔

کسی دوسرے سے متاثر نہ ہونے سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا جو کہ ضروری خیال کرتا ہوں کہ اپنے قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کیا جائے۔
بھارت کے قومی ترانہ کے خالق اور بنگالیوں کے گرو دیو رابندر ناتھ ٹیگور کے شعری مجموعہ”گیتانجلی“کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تو مشرق و مغرب میں اس کی دھوم کا مچ جانا عین فطرت تھا کیونکہ جب کبھی بھی کسی کو نوبل انعام ملا پوری دنیا اس کی طرف کھینچی چلی آتی ہے بلکہ ان میں ایسے ایسے اوصاف حمیدہ بھی تلاش کر لئے جاتے ہیں جو انعام یافتہ خود بھی نہیں جانتا ہوتا۔

لہذا گیتا نجلی ادبی حلقوں کے علاوہ دیگر حلقوں میں مقبول ہو کر اس نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دئے اور اس کا ترجمہ دنیا کی کئی زبانوں میں ہونے لگا۔چونکہ ادب کے نوبل انعام سے شخصیت کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے تو ٹیگور کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ٹیگور نے اچھے اچھوں کو چونکا دیا ،خاص کر اس کی ظاہری حالت نے یعنی ٹیگور کے بے ترتیب بڑھے ہوئے سفید بال اور داڑھی نے اسے دنیا میں اور بھی مشہور کردیا۔

دنیا میں جو بڑے بڑے لوگ ٹیگور سے متاثر ہوئے ان میں سے جارج برنارڈ شا بھی ایک تھا۔موصوف کو ادب کا نوبل انعام دیا جانا تھا کہ انہوں نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیا کہ ”نوبل انعام تو ہر سال دیا جاتا ہے لیکن برنارڈ شا ہر سال پیدا نہیں ہوتا“
برنارڈ شا نے ”گیتانجلی“پڑھی،متاثر ہوا اور ٹیگور سے ملنے ہندوستان چلا آیا۔جب وہ ٹیگور سے مل کر واپس جا رہ اتھا تو ائیر پورٹ پر ایک صحافی نے برنارڈ شا سے پوچھا کہ کہیے جناب گرو دیو کو آپ نے کیسا پایا۔

برنارڈ جو کہ ٹیگور سے مل کر اس سے بالکل بھی متاثر نہیں ہوا تھا کمال ہوشیاری سے جواب دیا کہ
”shave him he is a fool “
امید ہے کہ مشرق ومغرب میں توازن وتصادم پیدا کرنے والی مغرب زدہ میری نوجوان نسل کے لئے جارج برنارڈ شا کا یہی واقعہ اکسیر ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :