عدم برداشت کا بڑھتا رجحان

منگل 22 دسمبر 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

ماہرعمرانیات کا کہنا ہے کہ معاشرہ میں تقریبا 90 فی صد مسائل کی وجہ عدم برداشت کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔اس لئے کہ سماج میں عدم برداشت کی بنا پر ہی معاشی،اخلاقی،نفسیاتی اور حالیہ دور میں سیاسی مسائل بھی اسی ایک مسئلہ کی پیداوار ہیں۔اگر عدم برداشت کے رویہ کو ”معاشرتی ام الامراض“ کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔کیونکہ اسی ایک منفی رویے سے ہی باقی تمام مسائل جنم پذیر ہو رہے ہیں تو پھر اسیے بھی اگر عدم برداشت کو معاشرتی برائیوں کی ماں کہہ دیا جائے تو برا نہیں ہوگا۔

فی زمانہ ہم نے ایسے لوگوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا شروع کردیا ہے ،جیسے کہ آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ لوگ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ
”مجھ سے غلط بات برداشت نہیں ہوتی“،میرے سامنے میرا کوئی رشتہ دار آنکھ اٹھا کر بات نہیں کرتا،میں کوئی بھی بات دل میں نہیں رکھتا منہ پر بول دیتا ہوں چاہے کسی کو برا ہی کیوں نہ لگے۔

(جاری ہے)

وغیرہ وغیرہ۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں شیخ سعدی شیرازی فرماتے ہیں کہ
”جس میں برداشت کی قوت نہیں وہ کمزور اور بے وقوف ہے“
لیکن ہم نے ایسے افراد کو جن میں برداشت کی انتہائی کمی ہے انہیں سچا ،طاقتور اور سیدھی بات منہ پر کہنے والا سمجھ لیا ہے حالانکہ ایسے افراد میں برداشت کی کمی ہوتی ہے۔

یعنی اگر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ میں کسی کو یہ کہتے ہوئے برداشت ہی نہیں کر سکتا تو اس کا مطلب کیا ہوا کہ برداشت کی اس میں خود سے کمی ہے۔کیونکہ برداشت کی تو تعریف ہی یہ کی جاتی ہے کہ کسی شخص میں بدلہ لینے کی ہمت طاقت اور حوصلہ ہو اور اس کے باوجود وہ دوسرے شخص کو معاف کردے اسی کو تو برداشت کہتے ہیں۔اور پھر ایسے شخص جو یہ کہتا ہے کہ مجھ سے غلط بات برداشت ہی نہیں ہوتی ایسا بندہ ہے جس میں انا تکبر اور غرور کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔

اس لئے کہ جس شخص میں ”میں “کا عنصر پیدا ہو جائے وہی تو متکبر ہے اور ہم جانتے ہیں کہ کبریائی صرف اور صرف اللہ کو زیبا ہے۔اس لئے انسان اگر باری تعالیٰ کی اس صفت کو اپنانے کی کوشش بھی کرے گا تو وہ منہ کے بل اوندھا پڑا ہوگا۔
ایسی سماجی برائیوں کا فی زمانہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔کیونکہ آپ نے بھی میری طرح مشاہدہ کیا ہوگا کہ لوگوں میں منفی رویے دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔

ہم ایک دوسرے کو تسلیم کرنے،ان کی بات ماننے اوراپنے ہی احبا ب و رشتہ داروں کو اپنے سے نیچا دکھانے کے درپے ہیں۔ایسے میں مثبت رویے کہاں سے جنم لیں گے۔یقین جانئے تکبر ایسا فعل ہے جو انسان کو اندر سے مکمل طور پر کھوکھلا کر دیتا ہے۔ہمارے اندر تو دوسروں کو عدم برداشت کا رجحان اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اگر کسی سے تعلق نہ بھی ہو پھر بھی ہم غریب کو اس کی غربت کے طعنے دے دے کر مارنے کی کوشش کریں گے حالانکہ اگر تعلیمات اسلامی کو دیکھا جائے تو غریب کو طعنہ زنی کی بجائے اسے اپنے ساتھ کھڑا کرنے کی سعی کی جانی چاہئے۔

مگر ایسا نہیں ہے۔
یقین جانئے اگر انسانی رویوں میں عدم برداشت کو منہا کر دیا جائے اور اس کی جگہ قوت برداشت کی تربیت کی جائے تو معاشرہ کی نوے فی صد برائیاں اپنی موت آپ ہی مر جائیں گے۔جیسا کہ عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رجحان سے سماج میں استحصال،لا قانونیت،جرائم،منفی رجحانات،ہیجان انگیزی،عدم مساوات جیسے مسائل بڑھتے ہیں تو ان کی بیخ کنی صرف اور صرف مثبت سوچ سے ہی کی جا سکتی ہے۔


مگر اس کے لئے لگتی ہے محنت زیادہ
مگر یاد رکھیں وہی قومیں زمانہ میں پنپتی ہیں جن کا شعار کام ،کام اور کام ہوتا ہے۔ہاتھ پہ پاتھ دھرے رہنی والی قوم کبھی بھی ترقی کی شاہراہ کی مسافر نہیں بن سکتی ہے۔اقبال نے کہا تھا کہ ،،ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو۔یقینا سچ ہی کہا تھا کیونکہ ہم وہی قوم ہیں جو ہمیشہ سے ہی کسی معجزہ کی منتظر رہتی ہے کہ ہمارا کام بھی کوئی اور ہی کر دے یا پھر قدرت خود ہی میرے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا دے۔

یقین جانئے یہی وہ رویہ ہے جو ہماری مثبت سوچ کو بھی منفی میں تبدیل کر رہاہے۔حالانکہ منفی کو مثبت میں تبدیل ہونا چاہئے۔اور یہ عمل کچھ اتنا بھی مشکل نہیں ہے۔اگر ہم نے کبھی منفی کی علامت پر غور کیا ہو تو محض ایک سیدھی لکیر ہی ہوتی ہے اگر ہم اس سیدھی لکیر کو اپنے اعمال کی ایک لکیر اوپر سے عمودی گرا دیں تو یہی منفی علامت مثبت علامت میں تبدیل ہو جائے گی۔

لہذا ہمیں اپنے منفی رویوں کو مثبت رویوں میں تبدیل کرنے کی از حد ضرورت ہے۔اور اسی کا نام قوت برداشت ہے۔جو کہ ضد ہے عدم برداشت کی۔اور جہاں ضد آ جاتی ہے وہاں انسانی دماغ کے منفی رجحانات اپنی سپیڈ بھی تیز کر دیتے ہیں۔ہمیں انہیں منفی رویوں کی رفتار کو قابو میں کرنا ہے،بالکل ایسے ہی جیسا کہ رستم زماں گاما پہلوان نے کیا تھا۔
گاما پہلوان کے بارے میں مکمل تفصیل کا آپ ادراک رکھتے ہوں گے لیکن ان کی زندگی ایک ایسا واقعہ جس سے کم لوگ ہی واقف ہیں،اس واقعہ نے مجھے بہت متوجہ کیا۔

واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک روز گاما پہلوان بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک دوکاندار نے وزن کرنے والا باٹ گاما پہلوان کے سر پر دے مارا۔ظاہر ہے کہ سر سے خون پہنا شروع ہو گیا۔گاما پہلوان نے ایک نظر اس دوکاندار کی طرف دیکھا،مسکرایا اور اپنی راہ لی۔ساتھ چلنے والے ایک شخص نے کہا کہ پہلوان جی کیا وہ دوکاندار آپ سے طاقتور ہے۔گاما پہلوان نے جواب دیا کہ نہیں ایسا بالکل بھی نہیں۔

تو اس شخص نے پھر سے سوال کیا کہ اگر وہ آپ سے طاقتور نہیں ہے تو پھرآپ نے اسے جواب میں مارا کیوں نہیں۔اس پر گاما پہلوان نے بہت خوبصورت جواب دیا۔
”مجھے میری قوت برداشت نے پہلوان بنایا ہے،جب تک مجھ میں قوت برداشت ہے اس وقت تک دنیا کا کوئی پہلوان مجھے گرا نہیں سکتا“
لہذا ہمیں بھی اپنے اندر گاما پہلوان جیسا مثبت برداشت کا رویہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔اور یہ تبھی پیدا ہو گا جب ہم میں عدم برداشت کا رجحان کم سے کم اور منفی سوچ نہ ہونے کے برابر ہو جائے گی۔ہمیں اپنے رویوں پر روازنہ کی بنیاد پر غور کرنا ہوگا۔تب کہیں قوم کا رویہ تبدیل ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :