بخشیش ہم شرمندہ ہیں!!!

جمعرات 23 مئی 2019

Musharraf Hazarvi

مشرف ہزاروی

روزنامہ کے ٹوٹائمزاورکے ٹوٹی وی کے ہری پور میں بیوروچیف اورہزارہ کے معروف صحافی بخشیش عباسی کودوسال قبل رمضان المبارک کی ایسی ہی مقدس ساعتوں میں سفاک ملزمان نے لورہ چوک میں سربازاردن دیہاڑے فائرنگ کر کے قتل کردیاتھاجوحکومت،تفتیشی اداروں،پولیس حکام اورمیڈیاکی غفلت ولاپرواہی کے باعث ابھی تک انصاف کے کٹہرے میں نہیں آسکے اوریارلوگ جوپہلے دن سے روایتی بیان بازی اورمظلوم خاندان کو کھوکھلی وجھوٹی طفل تسلیوں سے رام کرنے کی لایعنی وبے سودکاوشوں میں مشغول تھے اب بھی ان کے چلن وہی نظرآرہے ہیں ۔

نہ بخشیش کے بچوں سے کسی کو حقیقی ہمدردی ہے اور نہ ہی اس کے متاثرہ خاندان سے۔کوئی کسی سے یہ پوچھنے کی زحمت کر رہا ہے اورنہ کوئی کسی کو بتانے کو تیارہے کہ دوسال کا لمباعرصہ گذرنے کے باوجوداس قدر بے حسی کیوں اوربخشیش قتل کیس سردخانے کی نذرکیوں ہے؟اتناہائی پروفائل کیس آخراچانک داخل دفترکیوں کردیاگیاتھا؟اپنے دوسرے پنجسالے میں داخل ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت جس کا نعرہ ہی غریب عوام کو سستے وفوری انصاف کی فراہمی اورروایتی تھانہ کلچروگھسے پٹے تفتیشی نظام سے نجات دلاناتھا مگربخشیش قتل کیس میں انصاف حکومت کے مذکورہ تما تر بلندبانگ دعوے بری طرح بے نقاب اورزمین بوس ہو چکے ہیں مگرپھربھی میڈیاسمیت کوئی سوال اٹھانے والا،حکومتی وتفتیشی اداروں اوراعلیٰ پولیس حکام سے سوال کرنے اورحساب مانگنے والاکوئی نہیں،صحافیوں کی زبانیں تو تب بھی گنگ تھیں جب یہ دلدوزسانحہ رونماہوااوروہ پولیس سربراہ پریس بریفنگ کے نام پر کبھی کیا بونگیاں مارتارہا اورکبھی کیا جب کہ سامنے بیٹھے ہوئے اس سے بھی زیادہ غیرذمہ دارنکلے جو جاتے جاتے بھی اس سے بخشیش قتل کیس کا جواب اورحساب تو مانگ نہیں سکے البتہ وہ ان کے گلوں میں شاندارصحافتی کارکردگی کے میڈل ضرورڈال گیاجوانھیں ساری زندگی یاددلاتے رہیں گے کہ ایک دبنگ پولیس افسرکے دورمیں ہری پور میں ایک صحافی کو دن دیہاڑے قتل کردیاگیاتھاجس کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے پر مامورپولیس سربراہ اوردیگرتفتیشی ادارے تو ناکام رہے مگرجاتے جاتے بخشیش کے پیٹی بندصحافی بھائیوں نے اس پولیس سربراہ کے ہاتھوں میڈل پہنناگواراکر لیا مگرکوئی احتجاج کیانہ اسے یہ کہہ سکے کہ صاحب مان لیجئیے کہ آپ بخشیش قتل کیس ضائع کرکے دیگربے حسوں اورمجرمانہ غفلت اپنانے والوں میں آپ بھی شامل ہو گئے ہیں اتناہی اگراس پولیس افسرکوکہہ دیاجاتاتوآٹے میں نمک کے برابرحق اداہو ہی جاتا اگرچہ ایساکہنابھی مجرمانہ غفلت کے ازالے کی دلیل اورسندہرگزنہیں ہو سکتا۔

(جاری ہے)

یہ ایک ناقابل تردیدحقیقت اورکڑواسچ ہے جسے کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے کہ ضلعی و صوبائی حکومتوں،محکمہ پولیس ،انسانی حقوق (بالخصوص بچوں اورخواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی )کی نام نہادتنظیموں ،علاقائی وقومی صحافتی اداروں ،پریس کلبوں اورصحافتی تنظیموں کی غفلت ولاپرواہی اوربے حسی پر مبنی غیر ذمہ دارانہ و افسوس ناک رویوں کے باعث بخشیش قتل کیس دوسال گذرنے کے بعدبھی فائلوں میں بندہے اورکسی کو کوئی پرواہ بھی نہیں ۔

مختلف صحافتی گروپوں سمیت سول سوسائٹی کے کسی ایک مکتبہ فکرکی بھی مثال پیش نہیں کی جا سکتی کہ انھوں نے بخشیش کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوئی سنجیدہ و مخلصانہ کوشش کی ہو۔گذشتہ روز ہری پور پریس کلب میں بخشیش عباسی کے بھائی ذوالفقار عباسی کو صحافیوں کے جلومیں براجمان دیکھاتومزیددکھ ہوا کہ آخربخشیش کی غمزدہ فیملی کے ساتھ مزیدکتنی ناانصافی ہوتی اوراس ایشوپرمزیدکتنی سیاست چمکائی جاتی رہے گی؟یہ بات قطعی طورپرکسی بغض کی بنیادپرکہی اورلکھی نہیں جا رہی کہ درحقیقت اس ساری افسوس ناک صورتحال میں کسی ایک بھی صحافتی گروپ کو بری الذمہ قرارنہیں دیاجاسکتا سب نے ہی بے حسی کا لبادہ اوڑھے رکھاہے اورتاحال اوڑھاہواہے حالانکہ اگریہ صحافی جاگ رہے ہوتے ،اس ٹیسٹ کیس میں ہی سہی،منظم ہوتے اوربخشیش کے ساتھ، اس کی غمزدہ فیملی اورمعصوم بچوں کے ساتھ مخلص ہوتے توکسی ضلعی وصوبائی حکومت یا قانون نافذکرنے والے اورتفتیشی و تحقیقاتی اداروں کی طرف سے بخشیش قتل کیس کی فائل سردخانے کی نذرہونے کا سوال ہی پیدانہ ہوتااس لیے جہاں انصاف کی ضلعی و صوبائی حکومتیں اورماڈل پولیس کے دبنگ افسران بخشیش قتل کیس کے ملزمان کوکٹہرے میں لانے میں ناکام وغفلت کے مرتکب ثابت ہوئے ہیں وہیں میڈیابھی اپنااصل اوربھرپورکرداراداکرنے سے قاصررہا ہے جواب بھی صحافتی برداری کے لیے لمحہ فکریہ ہوناچاہییے اورانھیں ایک بارپھرنئے سرے سے صف بندی کر کے پوری قوت اورمنظم حکمت عملی سے بخشیش قتل کیس میں ملوث ملزمان کوبے نقاب کرنے میں اپنی نظرآنے والے بے لاگ کاوشیں ضرورکرنی چاہییں اوراس کے لیے سارے صحافتی گروپوں کو بخشیش کے خاندان کو انصاف کی فراہمی اوردادرسی کے یک نکاتی ایجنڈے پرضرورایک پیج پر ہوناچاہییے۔

بے شک ان کے جو تنظیمی یا دیگراختلافات ہیں وہ اپنی جگہ پرضرورموجودرہیں البتہ بخشیش قتل کیش صحافتی اختلافات کی بھینٹ ہرگز نہیں چڑھناچاہییے کیونکہ اب تک کی افسوس ناک صورتحال میں ایک اہم عنصریہ بھی ہے کہ دیگراضلاع اورصوبوں کی طرح ہری پور کے صحافی بھی باہمی اختلافات کا شکارہیں اوربخشیش قتل کیس میں بھی اگر صحافیوں نے اس بڑے مقصد کے لیے ایک ہونے کی قربانی نہ دی توبخشیش قتل کیس خدانخواستہ ضائع ہوسکتا ہے اورپھر بھی اگرصحافتی گروپس اس اہم نقطے پر بھی ایک پیج پر نہیں آسکتے توکم از کم انھیں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے بخشیش قتل کیس کا بھرپورانداز میں تعاقب کرناچاہییے ،انھیں ضلعی و صوبائی حکومتوں اور قانون نافذکرنے والے اداروں پر دباؤبڑھاناچاہییے کہ وہ مظلوم خاندان کی دادرسی کریں اورفوری وسستے انصاف کی فراہمی کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں جوبدقسمتی سے اس وقت تک نظرنہیں آسکے ۔

اس تناظر میں بخشیش کے ورثاء کو محض پریس کلب یااپنے اپنے صحافتی دفتربلالینے سے کام نہیں چلے گابلکہ اس کے لیے عملی اورنظرآنے والی ٹھوس ومنظم کوششیں کرناہوں گی اوراسے افرادمعاشرہ کے سامنے بھی لاناچاہییے تا کہ انھیں اس تحریک میں بھرپورمعاشرتی کمک اورمعاونت بھی میسرآسکے۔ستم ظریفی کی انتہاء یہ ہے کہ ضلعے اورصوبے میں تحریک انصاف کی حکومت ہونے کے باوجودنہ صرف بخشیش قتل کیس کے ملزمان دوسال بعد بھی گرفتارنہیں ہو سکے بلکہ اسی کیس میں درجنوں بے گناہ مردوخواتین کی گرفتاریوں سمیت تحریک انصاف کی ایک خاتون ممبرضلع کونسل اورکئی ایک صحافیوں کو کئی کئی روز تک زیرحراست رکھاگیاجب کہ تحریک انصاف کی خاتون ممبرضلع کونسل تو ضلع کونسل کے اجلاسوں میں چیخ چیخ کراپنے اوپرہونے والے بہیمانہ پولیس تشددکا روناروچکی ہیں جس کی گواہی ضلع نائب ناظم نے بھرے اجلاس میں دی مگرانصاف کے نعرے کی دعویدارحکومت کے ضلع ناظم،ضلع نائب ناظم اورمردوخواتین بشمول اپوزیشن ممبران ٹس سے مس نہیں ہوئے اورخاتون ممبرپرہونے والے تشددکاھساب نہیں لے سکے توپھریہ چھوٹے بڑے انصافی حکمران کس منہ سے روایتی تھانہ کلچراورفرسودہ پولیس نظام ختم کرنے کے دعوے کرتے اورکے پی پولیس کو ملک بھر کی ماڈل پولیس قراردیتے ہیں؟دوسرے یہ کہ اگربرسراقتدارحکومت کی خاتون ممبرضلع کونسل کو بھی پولیس بہیمانہ تشددکا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتی تواندازہ کیاجاسکتا ہے کہ ایک عام اوربے آسراآدمی کے ساتھ پولیس کیاکچھ نہیں کرتی ہو گی؟بخشیش قتل کیس میں پولیس کو کرناکیاتھااوروہ کرتی کیارہی؟مگرہمارے حکمران،ہماری انسانی حقوق کی چیمپئین تنظیمیں،بچوں اورخواتین کے حقوق کے تحفظ کے بلندبانگ دعوے کرنے والی نام نہادتنظیمیں اورمیڈیاکہاں تھا؟ظلم کی اس اندھیرنگری میں آوازبلندکرناکس کی ذمہ داری ہے اور کس کس نے یہ ذمہ داری نبھانے میں انصاف برتاہے؟غورطلب بات یہ ہے کہ بخشیش قتل کیس کے اس سارے قضیے میں فرائض سے کوتاہی برتنے والی ضلعی وصوبائی حکومتیں ہیں جوگذشتہ کئی برسوں سے غریب عوام کو فوری اورسستے انصاف کی فراہمی،روایتی تھانہ کلچراورگھسے پٹے تفتیشی نظام کے خاتمے کی دعویداررہی ہیں لیکن اس ہائی پروفائل کیس میں مذکورہ حکومتوں اورنام نہادسیاستدانوں کی کارکردگی شرمناک حدتک افسوس ناک رہی ہے جوبخشیش قتل کیس میں غفلت ولاپروای کے ذمہ دارپولیس افسران سے جواب طلب کر سکیں اورنہ ہی انھوں نے آج تک اس کی کوئی ضرورت محسوس کی بلکہ اپنی خاتون ممبرضلع کونسل پر ہونے والے بہیمانہ پولیس تشددپربھی مکمل خاموشی اختیارکیے رکھی جوان کے بلندبانگ دعوؤں کا ابھی تک منہ چڑارہی ہے اورجب تک بخشیش قتل کیس منطقی انجام کو نہیں پہنچ جاتااورمذکورہ خاتون ممبرضلع کونسل پرمبینہ تشددمیں ملوث پولیس ملازمین کواپنے غیرقانونی رویوں کی سزانہیں مل جاتی تب تک یہ شرمندگی ٹالی نہیں جا سکے گی۔

القصہ،اس کربناک صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام صحافتی تنظیمیں بخشیش عباسی کے قاتلوں کی گرفتاری اورمظلوم خاندان کو انصاف کی فراہمی تک اپنے تمام تر اختلافات بھلاکرپوری قوت سے یکجاہوکرملزمان کو کیفرکردارتک پہنچانے میں اپنابھرپورکردارداکریں ،ضلعی،صوبائی اورمرکزی حکومت پر دباؤ بڑھائیں کہ حکمران شہیدصحافی کے مظلوم خاندان کو فوری اورسستے انصاف کی فراہمی کے لیے اپنے تمام تر وسائل بروئے کارلائیں،ذمہ دارپولیس افسران سے ناقص کارکردگی پر جواب طلب کر کے ان کا احتساب کریں،انھیں ملزمان کو کٹہرے میں لانے کا ٹاسک دیں اورنتیجہ لیں تب بخشیش قتل کیس سردخانے سے نکل سکتاہے اورمتاثرہ خاندان کو انصاف کی فراہمی کی کوئی سبیل پیداہو سکتی ہے۔

اس کے لیے ضلع سے ڈویژن ،پریس کلبوں اورپھرضرورت پڑنے پر منظم صحافتی تحریک کوملک بھر میں پھیلایاجاسکتا ہے بصورت دیگر گذشتہ دوسالوں کی طرح ہر سطح پراپنائی گئی مجرمانہ غفلت سے خدانخواستہ بخشیش کے قاتلوں کو تحفظ تو ملے گا ہی مگراس کے ساتھ ساتھ صحافتی برداری بھی تاعمراپنے آپ کو بخشیش قتل ضائع کرنے پرمبنی الزام اورحقیقت سے بری الذمہ قرارنہیں دے سکے گی اوراس حوالے سے ان کی طرف سے پیش کی جانے والی تاویلوں اوروضاحتوں میں کچھ وزن بھی نہیں ہوگااورپھرضمیرکایہ بوجھ سارے قصوروارساتھ ہی لے کرراہی عدم ہو جائیں گے اورقلم سے،پیشے سے اورکمیونٹی کے ساتھ ساتھ فرض سے بھی بددیانتی کی سیاہ تاریخ بھی رقم ہوجائے گی۔

۔۔اللہ ہمیں اس وقت سے بچائے اورمظلوموں کی جنگ میں اپنااپناحصہ ڈالنے اوراپنی ذمہ داریوں سے انصاف برتنے کی توفیق عطاء فرمائے(آمین)کاش! بخشیش عباسی کے قاتل انجام کو پہنچ سکیں اورمظلوم خاندان کو انصاف مل سکے،اے کاش!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :