کمشنرہزارہ کا تھپڑاورریاست مدینہ

منگل 28 مئی 2019

Musharraf Hazarvi

مشرف ہزاروی

سوشل میڈیاپرایک ویڈیووائرل ہوئی ہے جس میں کمشنرہزارہ سید ظہیرالاسلام ایک غریب محنت کش کو تھپڑمارکرسربازاراس کی توہین وتذلیل کر تے نظرآرہے ہیں اورپھرصاحب بہادرکی پیروی اورخوشنودی کے چکر میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادارایک کالی وردی والے نے بھی لگے ہاتھوں اسی بے بس ولاچارشہری کو ایک اورچانٹارسیدکرکے منہ سے بھی کچھ بول بڑبڑائے جوظاہری بات ہے محنت کش کی عزت افزائی توہرگزنہیں تھی بلکہ اس غریب کی مزیدتذلیل وتحقیرہی تھی۔

یہ ساراتماشاپاس کھڑے ریاست کے دیگرماتحت افسران اورشہری بھی دیکھتے رہے۔ویڈیوسے بظاہرلگ تو یوں رہا ہے کہ صاحب بہادرشہرکے راؤنڈپرنکلے تواس غریب کی شائدسبزی سڑک کنارے پڑی تھی جوشہرکاماحول خراب کر رہی تھی اورتجاوزات کاباعث بھی تھی سویہ جرم دیکھ کربڑے صاحب یکدم آگ بگولہ اورآپے سے باہر ہو گئے اورپھر انھوں نے آؤدیکھانہ تاؤاورغریب محنت کش کو چانٹے رسیدکر تے ہوئے اپنے مبارک ومعتبرلبوں سے بھی چندالفاظ اس کی نظرکیے اورپیچھے کھڑے اپنے کسی ماتحت افسرکوٹانگیں توڑنے کا نادرشاہی فرمان بھی جاری کیا ۔

(جاری ہے)

آہ !او غریبو:اصل میں ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کسی کے لب کھلتے ہیں تو غریب پر!ہاتھ اٹھتاہے تو بے کس پر!شامت آتی ہے تولاچاری وبے بسی کے مارے غریبوں کی !اورسارے قصوروغلطیاں بڑے صاحبوں اورقانون کے رکھوالوں کو نظرآتی ہیں تو صرف نچلے طبقے کے لوگوں میں جو بمشکل اپنے بچوں کے لیے دووقت کی روٹی بھی کمانے کے قابل نہیں اوران کے شب وروزکیسے بیت رہے ہیں یہ کوئی ا ن سے ہی پوچھے اورجانے تواسے سمجھ آئے ۔

سوال یہ ہے کہ جس غریب شخص کو کمشنرہزارہ نے سربازاروسرعام تھپڑمارے کیایہ کمشنرکاقانونی اقدام ہے؟آئین پاکستان اورمجوزہ ریاست مدینہ کے کس اصول اور قانون کے تحت کمشنریاکوئی اس سے بھی بڑافسرکسی عام شہری کو کسی جرم کی پاداش میں تھپڑمارکراس کی سرعام توہین وتذلیل کر سکتا ہے؟لیکن صاحبو!اس بے بس ولاچارمحنت کش کا قصوربس اتنا ہی ہے کہ یہ غریب ہے!ایک غربت ہی اس کا مذاق اڑانے کے لیے کافی ہے!یہ کدھرجائے ؟اپنے بال بچوں کے لیے کہاں سے روزی روٹی کا سامان کرے؟اورآج نظر بھی آگیاکہ یہ بیوروکریٹ اوربڑے افسرکتنے خیرخواہ ہیں غریبوں کے!کتنی ہمدردی ہے انھیں غریب مزدوروں محنت کشوں سے!کتنی انسانیت ان کے اندرپنپ اورمچل رہی ہے؟سوال یہ بھی ہے کہ جوافسرخودقانون سے تجاوزکریں ان کے لیے کیااس ریاست پاکستان اور مجوزہ ریاست مدینہ میں کوئی قانون اور سزانہیں؟لیکن تھوڑی دیر کے لیے سوچیں تو ٹھیک ہی ہورہا ہے ہمارے ساتھ؟سربازارایک غریب پر ظلم ہو رہا ہے،اس کی تذلیل ہو رہی ہے،اس کے حق عزت پرڈاکہ پڑرہاہے،اس کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے،اس کی عزت سربازارنیلام ہو رہی ہے مگرکوئی بھی بولنے والا اوراس ظلم کو ظلم کہنے والانہیں!یہ تھپڑاس ایک غریب کے منہ پر ہی نہیں لگابلکہ یہ پوری سوسائٹی ، اس کے فرسودہ وگلے سڑے نظام اوراس معاشرے میں بسنے والے سارے لوگوں کے منہ پر لگاہے!سب سے زیادہ ان پڑھے لکھے جاہلوں کے منہ پر!جی ہاں!جوخودکو باشعور،پڑھالکھااورنجانے کیاکیاکہتے نہیں تھکتے مگرافرادمعاشرہ پر ڈھائے جانے والے ہر ظلم پر ان کی زبانیں گنگ اورعقل کہیں گھاس چرنے گئی ہوتی ہے!!!یہ تھپڑلگناچاہییے ان نام نہادعوامی نمائندوں اورمقتدرشٹصیات کے منہ پرجوابھی تک اپنے اپنے علاقوں اورشہروں میں محنت کش افرادکے خوانچوں،ریڑھیوں اورمحدودکاروبارکی جگہوں کاکوئی بندوبست بھی نہیں کر سکے ،اگرanغریب محنت کشوں کے لیے کوئی جگہیں متخص ہوتی تو انھیں سڑکیں ناپنے کی کیاضرورت باقی رہتی؟پھربھی اگریہ تجاوزکرتے تو ان کے خلاف مروجہ قوانین کے مطابق کاروائی ہونی چاہییے نہ کہ اس طرح سرعام تشدداورتذلیل!توصاحبو!یہ تھپڑلگناچاہییے تھا ان مجازافسران کو کہ جن کی ملی بھگت وناہلی سے ہزارہ ہی نہیں بلکہ ملک کے ہرچھوٹے بڑے شہر میں تجاوزات کی بھرمارہے!یہ تھپڑلگناچاہییے تھا متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کے منہ پرکہ اگرشہروں میں تجاوزات ہیں توان کی کارکردگی کیا ہے؟کیاوہ محض ٹھنڈے و گرم کمروں میں بیٹھنے اورعوام پر حکمرانی کی تنخواہیں ومراعات سرکاری خزانے سے وصول کرتے ہیں؟اوراگرخدالگتی کہیں تو کمشنرصاحب یہ تھپڑدرحقیقت آپ نے اپنے منہ پر دے مارا ہے کہ اگرتجاوزات ہیں توانھیں قابوکرنے کے لیے چھوٹے بڑے کئی ایک افسران کی فوج ظفرموج بھی ہے اوراگر اس کے باوجوداگرتجاوزات ہیں توان سارے افسروں پرسب سے بڑاافسرانتظامی افسرکمشنرہوتاہے جسکاصاف مطلب ہے اس پارٹ پر کوتاہی موجود ہے!اس لیے کمشنرصاحب !اگرآپ کو ایک دیہاڑی دارمحنت کش زمین پربرلب سڑک کوئی سوداسلف لگائے نظرآہی گیاتھاتومتعلقہ افسروں اورذمہ داروں کو آپ نے کیا سزادی جو اس غریب کی سربازارتوہین وتذلیل کر کے رکھ دی؟سوہماری دانست میں کمشنرہزارہ کو اس غریب و متاثرہ محنت کش سے معافی مانگنی چاہییے ،اس کی دلجوئی کرنی چاہییے اورتجاوزات کے بے ہنگم پھیلاؤکے جو اصل ذمہ دارہیں ان کے خلاف بلاامتیاز سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جانی چاہییے۔

اگرکمشنرہزارہ اس غریب محنت کش سے اپنے اس توہین آمیزاورمجرمانہ رویے کی معافی نہیں مانگتے اوراس کی دلجوئی نہیں کرتے توپھرمجوزہ ریاست مدینہ کے ارباب اختیارانصاف کریں اورکمشنرموصوف کو بھی قانون و انصاف کے کٹہرے میں کھڑاکریں اورا ن سے جواب طلب کیاجائے کہ کمشنرصاحب! آپ نے کس قانون کے تحت اس غریب کو سربازارمارااورمروایاہے ؟اگرریاست مدینہ کے ارباب حل وعقداپنے ایک بیوروکریٹ اورکمشنرکے ہاتھوں ظلم کا نشانہ بننے والے مظلوم شہری کو انصاف نہیں دلواسکتے تو پھر حکمرانوں کو مدینہ جیسی عظیم ریاست کا ماڈل بنانے پرمبنی کھوکھلے دعوے کر کے اس بے مثل ریاست کی توہین وتحقیرسے دست کش ہوجاناہی زیادہ بہترہے کیونکہ ریاست مدینہ اصولی اوراسلامی رویوں کے اپنانے اورقول و فعل کے تضادکے خاتمے کا نام ہے،غریب کو انصاف دلوانے اورمجرم خواہ کتناہی بااثر،بڑاحاکم یاامیرکبیریاوزیرمشیرہی کیوں نہ ہواسے انصاف کے کٹہرے میں کھڑاکر کے اس سے اس کے جرم کا حساب لینے کا نام ہے!اس لیے حالیہ کمشنرواقعہ کے تناظرمیں اب گیندنئے پاکستان کے معمارحکمرانوں اورمجوزہ ریاست مدینہ کے ارباب اختیارکے کورٹ میں ہے ،دیکھتے ہیں ریاست مدینہ کے حکمرانوں کے انصاف کا معیاراورپیمانہ کیاہے!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :