شادی کیلئے عمر کا معاملہ

پیر 31 مارچ 2014

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

پاکستان آئے روز کسی نہ کسی مسئلے میں الجھا رہتا ہے، اس الجھاؤ کا فائدہ حکومت کو بھی ہے کہ اسکی ناکامیوں پر پردہ پڑا رہے اور اصل مسائل سے لوگوں کا دھیان بٹ جائے ، الجھاؤ کا فائدہ میڈیا کو بھی ہے جس کو خبروں اور ٹاک شوز کیلئے نِت نئے موزوعات ملتے ہیں اور یوں اسکا بزنس چارچاند لگتا ہے۔ لیکن اس الجھاؤ کا اگر نقصان ہے تو وہ صرف عام پاکستانی لوگوں کا ہے جو پہلے ہی مسائل کے گرداب میں پس رہے ہیں اور نئے نئے مسائل سے انکی پریشانیوں میں اضافہ ہوتارہتا ہے۔

کبھی دو شادیوں کا معاملہ، کبھی دوسری شادی کیلئے پہلی بیوی سے اجازت کا معاملہ، کبھی خواتین کے کام کرنے کا معاملہ، کبھی مردوں اور خواتین کے درمیان مساوات کا معاملہ اور اب شادی کی عمر کا معاملہ ، اللہ جانے آگے کتنے مسائل انتظار کررہے ہوں گے۔

(جاری ہے)

دراصل یہ مسائل نہیں ہیں ، یہ زندگی کے معاملات ہیں جنہیں مسائل بنایا جارہا ہے، نہ جانے یہ اس ملک کے ساتھ اور یہاں کے عوام کے ساتھ کیا سازش ہے۔

چھوٹے چھوٹے مسائل کو اس طرح پیچیدہ بنایا جاتا ہے کہ وہ بہت ہی گھمبیر مسائل کا روپ دھارلیتے ہیں۔
پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل نے حال ہی میں اپنے اجلاس میں کم عمری کی شادی پر بھی بحث کی اور کونسل کا موقف یہ پیش کیا کہ اسلام میں بچے کا نکاح کسی بھی عمر میں ہوسکتا ہے ، اس کیلئے کونسل نے یہ جواز پیش کیا کہ اسلام میں بچوں کی شادی کیلئے کم سے کم عمر کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔

کونسل کی جانب سے اس موقف کے فوراً بعد یہ خبر میڈیا کی زینت بن گئی اور نہ صرف اس کو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کیا گیا بلکہ تقریباً تمام ٹیلی وژن چینلز نے اس پر کئی ٹاک شوز کئے۔ انسانی حقوق کے اداروں اور کارکنوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ بلکہ رکن قومی اسمبلی ماروی میمن نے کم عمری کی شادی کے خلاف موجودہ قانون "چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ" میں ترمیم کرنے کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔

بل میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا کم عمری میں بچیوں کا ماں بننا انکی صحت کیلئے خطرناک ہے یا نہیں؟
یہ بات تو درست ہے کہ بچے کی شادی کیلئے کم سے کم عمر کا تعین نہیں ہے لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایسی بچی کی شادی کردیں جو ذہنی طور پر ابھی بالغ نہ ہوئی ہو اور اس کو یہ احساس نہ ہو کہ شادی کے بعداسے کن مسائل سے اسے دوچار ہونا پڑے گا اور جو شادی کے بعد کی ذمہ داریاں نبھا سکے؟ کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ایک ایسی بچی کی شادی کی جائے جس کیلئے شادی خوشی کے بجائے مصیبت بن جائے اور کم عمری کی وجہ سے اسکی زندگی خطرے میں پڑ جائے؟ اگر اسلام میں شادی کیلئے بچے کی عمر کا تعین نہیں ہے لیکن اسلام میں یہ بھی نہیں ہے کہ بچے یا بچی کی شادی ایسی عمر میں کی جائے کہ شادی اسکے لئے مصیبتوں کا پہاڑ بن جائے اور اسکی زندگی سنورنے کے بجائے اجڑجائے۔


ماروی میمن کی طرف سے پیش کیا جانے والا ترمیمی بل اگرچہ قابل تعریف ہے لیکن کیا یہ بل منظور ہوبھی جائے گا یا نہیں، اگر بل منظور ہو بھی جاتا ہے تو اس پر عمل درآمد پھر بھی نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اگر پاکستان میں کم عمری میں بچیوں کی شادی کے وجوہات کو دیکھا جائے تو سب سے بڑے دو وجوہات ہمارے سامنے آتے ہیں، پہلا فرسودہ رسومات ، دوسرا غربت،،، یہی دو چیزیں ہیں جنکی وجہ سے والدین نابالغ بچیوں کی شادی پر مجبور ہوتے ہیں۔

اس ملک میں پہلے سے قوانین موجود ہیں لیکن عمل نہیں ہے، لہذا کم عمری میں بچیوں کی شادی کو اگر غیر قانونی بھی قراردیا جائے پھر بھی یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔ ہماے پڑوس میں ایک غریب ٹیکسی ڈرائیور رہتا ہے جسکی چار بیٹیاں ہیں،غربت سے بیٹیوں کومیٹرک سے زیادہ پڑھا بھی نہیں سکا۔ چند ہفتے قبل اسکی سب سے بڑی بیٹی کی شادی طے پائی ، شادی کو چند روز باقی تھے تو ٹیکسی ڈرائیور اور اسکی اہلیہ محترمہ کو خیال آیا کیوں نہ
دوسری بچی کی شادی بھی ساتھ ہی کی جائے تاکہ نہ صرف ایک ہی خرچے میں دو بچیوں کی شادی ہوگی بلکہ یہ کہ گھر یلواخراجات میں بھی کمی آئے گی، اس طرح ٹیکسی ڈرائیو ر نے دو بچیوں کی ایک ساتھ شادی کی اور انہیں انکے سسرالیوں کے حوالے کردیا۔

پہلی بیٹی تو شادی کے قابل تھی لیکن دوسری بیٹی ذہنی طور پر اتنی بالغ نہیں تھی کہ اسکی شادی کی جاتی،، لیکن ہم تو اپنے انداز سے سوچتے ہیں،،، ٹیکسی ڈرائیور نے اپنے مطابق درست فیصلہ کیا اور دیگر معاملات اللہ پر چھوڑدئیے۔
ہمارے آئین کے مطابق تو ہر بچے کی ابتدائی تعلیم ہر صورت ضروری ہے اور اسٹیٹ پر لازم ہے کہ ہر بچے کو بنیادی تعلیم سے نوازا جائے، لیکن اس کے باوجود اڑھائی کروڑ بچوں نے سکول کا دروازہ بھی نہیں دیکھا ہے۔

ہم مسائل کا حل نہیں نکالتے بلکہ مسائل کو جنم دیتے ہیں، آئین اور قانون پر عمل نہیں کرتے لیکن قوانین بناتے جارہے ہیں۔ اسی طرح "چائلڈ میرج رسٹرینٹ ایکٹ"میں ترمیم کر بھی دی جائے، اٹھارہ سال سے کم عمر بچیوں کی شادی پر قدغن بھی لگادی جائے تو بھی کیا فرق پڑے گا، یہاں کون کس کو روکنے والا ہے،،، اشارہ توڑنے والے ڈرائیور سے پوچھا جائے ، بھئی کیوں ایسا کررہے ہو، اس کا جواب ہوتا ہے "جناب یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے"لہذا جس ملک میں سب چلتا ہو وہاں آئین اور قانون کی پاسداری نہیں ہوتی!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :