”اک جھلک میری نظر سے“

منگل 15 جون 2021

Nafeesa Ch

نفیسہ چوہدری

یہ اس وقت کی بات ہے جب میں بی۔اے کے امتحانات دے رہی تھی ۔مطالعہ #پاکستان کا پیپر تھا ۔طبیعت بوجھل تھی ،تیاری کچھ خاص نہیں تھی۔موسم کے تیور بھی کچھ ٹھیک نہیں تھے ۔حسبِ عادت نمازِ فجر پڑھی اور دعا کرکے معاملہ اللہ پہ چھوڑ دیا۔کمرہ امتحان میں بیٹھی خیر اللہ اللہ کر کے پیپر اچھا رہا۔واپسی پر ابھی اپنے مقام سے نکلے 15منٹ نہیں گزرے تھے کہ #موسم اسقدر خوفناک صورت اختیار کر گیا کہ ایک عجیب سے ڈر کی لہر دوڑ گٸی۔

بارش اپنے زوروں پر تھی طوفان تھا کہ کسی آفت کا پیش خیمہ تھا ۔پُرزور ژالہ باری نے بھی خوب غُصہ دکھانا شروع کیا۔ایسے میں سفر کو جاری رکھنا ناگزیر ہی نہیں ناممکنات کی ایک کڑی لگ رہا تھا ۔اب پناہ گزیں ہونے کو ایک دوکان نظر آٸی، والدِ محترم نے سفر جاری رکھنے پر ٹھر جانے کو ترجیح دیتے ہوٸے اسی دوکان کا رُخ کیا۔

(جاری ہے)

جب ہم داخل ہو رہے تھے ایک نظر دیکھا کہ وہاں ایک نوجوان اور ایک عمر رسیدہ شخص بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔

وہ نوجوان والد صاحب کو مخاطب کر کے گویا ہوا
کہ ”دیکھا چاچا مسلماناں دا حال“
والد صاحب خاموش تھے کہ دوسرا جملہ اس بزرگ کی طرف سے آیا
”چنگا اے جی ایہناں مسلماناں نال انج ای ہونا چاہی دا اے، گل گل تے چوٹھ بول دیندے نے“
یہ سُننا تھا کہ میرے قدم ساکت ہوگٸے باہر کی بارش نے اب اندر کی جگہ لے لی عجیب سے اضطراری کیفیت نے گھیر لیا ۔


مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ میں یہ سارا #قصّہ آج کیوں سنا رہی ہوں۔آج جب ہم اس #وبا کا شکار ہوٸے تو میں نے دیکھا، سنا کہ ہر کوٸی کہہ رہا ہے ظلم ہورہے ہیں، زیادتیاں ہو رہی ہیں، نا انصافیاں ہو رہی ہیں تو یہی عالم ہوگا اسلیے اللہ ہم سے ناراض ہو گیا ۔
ایسے میں مجھے یہ واقعہ یاد آگیا اس بزرگ کی بات یاد آگٸی کہ اس نے عذاب کیوجہ جھوٹ بتاٸی کیا ثابت ہوتا ہے اس سے؟
کہ ہمیں گھر کے دروازے میں دور بین لگا کر باہر کے مناظر نہیں دیکھنے، ہمیں اپنے کمرے کی تنہاٸی میں خود کو ایک کٹہرے میں بحثیتِ مجرم یہ سوال کرنا ہے کہ بتا تیرا کہاں ، کتنا قصور ہے؟
اس بزرگ نے بتا دیا عذاب صرف ظلم و زیادتی سے نہیں آتے بلکہ #جھوٹ بھی عذاب کو دعوت دیتا ہے
تو پھر سوچیے نا ہمارا کہاں کہاں کتنا حصہ ہے عذاب میں، مشکلات میں۔

ہم مان کیوں نہیں جاتے کہ ہم سب مجرم ہیں ۔کوٸی ناپ تول میں کمی کا مجرم،کوٸی دکھاتا اور کرتا اور اس چیز کا مجرم، کوٸی رعایا کا مجرم، کوٸی ایک تعلیمی ادارے کا جو سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے وہ خصوصیات عملاً Develop نہ کرنے کا مجرم، لکھنے والا بھی مجرم، پڑھنے والا بھی مجرم، کوٸی بات کا راز نہ رکھنے کا مجرم، کوٸی راز رکھنے کیوجہ سے مجرم، کوٸی سب کی نظروں کا مجرم اور جو نظر سے بچ گیا وہ ضمیر کا مجرم، کوٸی کسی کی عزت پہ ڈاکہ ڈال کر اپنی عزت بنانے کا مجرم، کوٸی خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے کسی کے اعمال کو چوراہے پہ لٹکانے کا مجرم ۔

۔۔۔۔۔!!!!!!
ہمیں بڑے پیمانوں کو الزام دینے کی بجاٸے اپنے اندر کا چور تلاش کرنا ہے ۔ہم کیا سمجھتے ہیں کہ ہم نے لکھ دیا کہ ”دل مطمٸن ہونا چاہیے“ اور اس وقت ہماری قلم ہمارا ساتھ نہیں دے رہی ہوتی تو کیا ہم اس کیفیت سے ناواقف ہیں ؟ ہمیں معلوم ہے ہم یہ جملہ لکھتے وقت بھی مضطرب ہیں کہیں لکھا پڑھ کر بھی بے چین ہیں۔تو پھر ہم مان کیوں نہیں جاتے قوموں اور نسلوں کی بربادی میں ہم سب نے حصہ ڈالا ہے ۔

الگ بات ہے کوٸی پکڑا گیا اور کسی کی بچت ہو گٸ۔ہم بھول جاتے ہیں ایک چکی ایسی بھی ہے جہاں سارے دانے پستے ہیں مگر اپنی اپنی باری میں ۔ہم نے کیا سمجھا نقب صرف گھروں میں لگاٸی جاسکتی ہے؟کسی کی ذات میں نہیں لگتی ؟
ایسا نہیں ہے۔۔۔۔۔!!!!کوٸی مکانی نقب کا مجرم ہے تو کوٸ زمانی نقب کا۔کسی نے مال چرایا ہے، کسی نے اعتبار،کسی نے مان، کسی نےعزت، اور کسی نے کسی کی بے بسی چرالی۔

چرا کر اسے قتل کر دیا ۔یہ بھی نہ سوچا کہ اس کے پاس تو فقط بے بسی ہی تھی ۔نہیں ہمیں اس سے کیا لینا دینا۔۔!!!!!!
پھر بڑی مزے کی بات ہے ہم نے خود کو پاکدامن بھی کہہ لیا، وطن کا سرمایہ بھی کہہ لیا، اسکا مخلص بھی مان لیا.
ہم اپنے اپنے بوجھ تلے دبے وہ درماندہ اور تھکے ہوٸے ضمیر کے متحمل ہیں جنہیں سب معلوم ہے مگر ماننا دشوارہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :