
”صوفی ازم نہیں۔۔۔روٹی چاہیے“
منگل 21 جنوری 2020

نسیم الحق زاہدی
(جاری ہے)
سبحان اللہ اس انصاف پہ کہاں ہے انصاف۔ وہ وزیر اعظم کی سادگی مہم وہ فوری اورسستا انصاف ؟؟؟ اس حکومت نے تو مہنگائی کے تمام پچھلے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں امیر الباکستان کی دور حکومت میں کرپشن بھی نہیں ہورہی ٹیکسز میں بھی بے پناہ اضافہ ہونے کے باوجود ملک قرضوں کی دلدل میں مسلسل ڈوبتا جارہا ہے آخر یہ عوام کا پیسہ خرچ کہاں کیا جارہا ہے ؟ اس سوال کا جواب کون دے گا ؟؟؟اگر سچی بات لکھ دیں تو پہلی بات ہے کہ اخبارات والے شائع ہی نہیں کرتے اور دریافت کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اخبارات کی پالیسی نہیں کہ ہم اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر یہ پوچھنے کا بھی حق نہیں رکھتے کہ ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے ۔فرمان مصطفی ہے کہ افضل ترین جہاد جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے ۔ویسے جنت کے تو ہم ٹھیکیداربنتے ہیں مگر جنت میں جانے کے لیے مرنا بھی لازم ہے ۔میں تو چاہتا ہوں کہ مجھے حق گوئی کے جرم میں تختہ دار پر لٹکا دیا جائے اور میری موت ،میری ہم خیالوں کے لیے حیات ثابت ہو۔موجودہ دور حکومت کی مہنگائی نے غریبوں کا نہ صرف جینا دو بھر کردیا ہے بلکہ مرنا بھی مشکل بنا دیا ہے ۔جیسے حالات ہوچکے ہیں عنقریب غریب اپنے پیاروں کی لاشوں کو کوڑے دانوں میں پھینک کر جایا کریں گے ۔روٹی کے لیے ترسنے والوں کے پاس بیس سے پچیس ہزار روپے کفن، قبر کے کہا ں سے آئیں گے ؟۔آٹا ایک دم ستر روپے اور اکثر اشیاء کے مہنگا ہونے پر ہمارے حاکم وقت کو لاعلمی کا اظہار کرتے دیکھا ہے بتائیے جس حاکم وقت کو اپنی رعایا کی پریشانیوں کو علم نہ ہو میرے خیال میں اس شخص کو حاکم وقت کہلانے کا کوئی حق حاصل نہیں اور ویسے بھی اسلام میں اقتدار کے خواہشمند کو اقتدار کے لیے نااہل قرار دیا ہے ۔ حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمر فاروق کی مثالیں دینے سے پہلے انکی سیرت اور دور حکومت کا مطالعہ بھی نہایت ضروری ہے ۔حضرت عمر کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ آپ رعایا کا احوال جاننے کے لیے راتوں کو آبادی کا گشت کرتے اور لوگوں کی مدد فرماتے ،زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر ایک رات مدینہ کی گلیوں میں گشت کررہے تھے کہ ایک جگہ دیکھا کہ ایک عورت گھر میں بیٹھی ہے اور اس کے گرد بچے بیٹھے رو رہے ہیں اورپانی سے بھری دیگچی آگ پر رکھی ہوئی ہے ۔حضرت عمر نے پوچھا کہ یہ دیگچی آگ پر کیوں رکھی ہے ؟اس عورت نے جواب دیا کہ بچوں کو بہلانے کے لیے تاکہ یہ سمجھیں کہ کھانا پک رہا ہے اور انتظار کرتے کرتے سو جائیں ۔حضرت عمرفاروق یہ سن کر رونے لگے اور بیت المال سے آٹا ،گھی ،چربی کپڑے اور درہم لے کر ایک بوری میں ڈالے ،اپنے غلام اسلم سے کہا کہ یہ بوری مجھ پر لاد دو ،غلام نے عرض کی امیر المومنین اس بوری کو میں اٹھا لیتا ہوں ،آپ نے فرمایا آخرت میں اس کے ،متعلق مجھ سے سوال ہوگا ،اس لیے یہ بوری مجھے ہی اٹھانے دو ،حضرت عمر انکے گھر گئے اور اپنے ہاتھوں سے کھانا بناکر انکو کھلایا۔ریاست مدینہ منورہ ایک ایسی اسلامی ،فلاحی ریاست ہے جس کی بنیاد آقا دوجہاں رحمت دوعالم نے رکھی تھی ۔اس بابرکت اسلامی ریاست کی چند خصوصیات یہ تھیں ۔”رعایا کے لیے خوراک ،لباس ،صحت اور تعلیم کا مناسب انتظام کیا گیا ،شیر خوار بچوں تک کے لیے ریاست کی طرف وظائف کے انتظامات کی مثالیں بکثرت ملتی ہیں۔ “نہ صرف انسانوں کی زندگی میں اس کی کفالت کا انتظام کیا بلکہ مرنے کے بعد بھی اس کی جانب سے رہ جانے والی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا انتظام کیا۔“انسان تو کجا جانوروں اور نباتات کے بارے میں بھی واضح احکامات جاری کیے ۔درختوں کے کاٹنے کو ناپسند کیا گیا۔“معاشرہ میں دولت اور دیگر وسائل ثروت کی عادلانہ تقسیم کا بندوبست کیا گیا ۔زکوة اور انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب کے ذریعہ دولت کا رخ امراء سے غربا ء کی طرف پھیرا گیا ایسے ذرائع اور طور طریقوں پر پابندی لگائی گئی جس سے کسی خاص طبقے کے ہاتھ دولت کے ارتکاز کا امکان تھا مثلاً سود احتکار ،ذخیرہ اندوزی ،ناجائز منافع خوری وغیرہ ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہی سالوں میں دولت صالح خون کی مانندپورے معاشرے میں گردش کرنے لگی اور خوش حالی کادوردورہ ہوگیا ۔“قانون کا احترام سب کے لیے لازم قرار دیا گیا ۔حکمران اور رعایا کے درمیان فرق ختم کیا گیا ۔لوگوں کے لیے اپنے خلیفہ گورنر یا امیر تک رسائی انتہائی آسان بنائی گئی ۔“زکوة،صدقات اموال فے اور دیگر مدات میں جمع ہونے والی رقوم کو رعایا کی فلاح وبہود اور خدمت خلق کے دیگر کاموں پر خرچ کیا گیا ،اور چند ہی سالوں میں صورت حال یہ ہوگئی کہ صدقات دینے والے تو موجود تھے لیکن لینے والا کوئی نہ رہا۔“یا امیرالباکستان خدارا ہمیں صوفی ازم کا لولی پاپ نہیں چاہیے ،ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ آپ نے قوم کے چوروں سے قوم کا لوٹا ہوا پیسہ نکلوایا ہے یا کہ نہیں ؟آپ نے سادگی کی مثالیں قائم کی ہیں یا کہ نہیں ؟ آپ نے کرتارپورراہدای کھول کر ابھی نندن کو واپس کرکے خیر سگالی کا ثبوت دیا ہے یا کہ نہیں ۔بس خدارا ہم غریبوں کے حال پر رحم کرکے اس ریاست کو ریاست مدینہ بلاشک نہ بنائیں مگر ہم غریبوں کی پہلا اور آخری نوالہ ہم سے ”آٹا“اور روٹی مت چھینے۔امیر المومنین حضرت علی کا فرمان ہے ”اگر کوئی شخص اپنی بھوک مٹانے کے لیے روٹی چوری کرے تو چور کے ہاتھ کاٹنے کی بجائے بادشاہ کے ہاتھ کاٹے جائیں ۔“حاکم وقت اللہ کا واسطہ ہے رحم کریں اپنی مجبور،بے بس رعایا پر رحم کھائیں ترس کھائیں ورنہ آپکی دور حکومت میں روٹی کے چور پیدا ہونگے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
نسیم الحق زاہدی کے کالمز
-
” مسکان کا نعرہ تکبیر اور ہم “
منگل 15 فروری 2022
-
”کشمیریوں سے معذرت کے ساتھ“
ہفتہ 5 فروری 2022
-
”پب جی “کی ہلاکت خیزیاں
بدھ 2 فروری 2022
-
”افغان بحران پاکستان کے لیے نیا امتحان“
جمعہ 28 جنوری 2022
-
”اسلاموفوبیا اور تہذیبوں کا تصادم “
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
”نئے پاکستان میں مسجدیں گرانے اور مندروں کی تعمیر کا حکم“
جمعرات 13 جنوری 2022
-
”دور حاضر کا نظام الملک“
منگل 4 جنوری 2022
-
”افغانستان کا انسانی المیہ اور او آئی سی“
منگل 28 دسمبر 2021
نسیم الحق زاہدی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.