مسائل ومشکلات اہل سوات کا مقدرکیوں؟؟

جمعرات 6 اگست 2020

 Nasir Alam

ناصرعالم

 سوات میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیاہے،یہاں پر ایک طرف حکومت کی جانب سے اشیاء کی قیمتیں مسلسل بڑ ھ رہی ہیں تو دوسری جانب کاروباری لوگ بھی غریب عوام کو لوٹنے میں پیش پیش نظر آرہے ہیں مگرمقام افسوس ہے کہ اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے تاحال کسی نے کوئی قدم نہیں اٹھایا،کروناکی روک تھام کی غرض سے لاک ڈاؤن نے رہی سہی کسرپوری کرد ی ہے،کاروباری لوگوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام تر اشیائے ضروریہ کے من مانے نرخ وصول کرنا شروع کردئے ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام ذہنی کرب اور کوفت میں مبتلا ہورہے ہیں،حال ہی میں حکومت نے دو مرتبہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام پر مہنگائی کا پہاڑ توڑ دیا جبکہ دوسری جانب ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے لوگوں کی مشکلات بڑھادیں اب توعوام کی قوت خریدبھی جواب دے گئی ہے کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر ادویات کے نرخوں میں اضافہ ہورہاہے اورادویہ ساز کمپنیاں لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں مگرروکنے ٹوکنے اور پوچھنے والاکوئی نہیں،ادویات کے بے قابو نرخوں کی وجہ سے عوام سے جینے کا حق چھن گیااورمریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں چلے جانے پر مجبور ہوگئے ہیں،ٹیکس فری زون ہونے کے باوجود سوات کے عوام کے کاندھوں پر اگر ایک طرف مختلف ناموں سے مسلط کردہ ٹیکسوں کا بوجھ بڑھ رہاہے تو دوسری طرف ادویہ ساز کمپنیوں کی جانب سے انہیں لوٹا جارہاہے یہاں پر روزانہ کی بنیاد پر میڈیسن کی قیمتوں میں ٹیکس سمیت اضافہ ہورہاہے جس کے سبب عوام کی تشویش بڑ ھ رہی ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے انہیں صحت کی سہولیات میسر نہیں جبکہ بازاروں میں ادویات کے نرخ دیکھ کر لوگ ذہنی پریشانی اور کرب میں مبتلا ہوجاتے ہیں،کم وقت میں ادویات کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں جنہیں خریدنااب عوام کے بس کی بات نہیں رہی،مقامی لوگ کہتے ہیں کہ ملاکنڈڈویژن ٹیکس فری زون ہے مگر اس کے باوجود یہاں کے عوام سے مختلف ناموں سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے،یوٹیلٹی بلوں سمیت موبائل کارڈسے لے ادویات تک میں ٹیکس کی وصولی کی جارہی ہے جو سراسرظلم وناانصافی ہے مگر اس ظلم پر انصاف کے نام پر قائم حکومت نے مکمل خاموشی اختیار کررکھی ہے جو حکومتی نعروں اوروعدوں کو غلط ثابت کررہی ہے،عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کے دعویدارحکمرانوں نے عوام کو دواساز کمپنیوں اورلوٹ مار کرنے والے دیگر کاروباری کمپنیوں کے حوالے کردیا ہے جو پیسے کی خاطر عوام کی کھالیں ادھیڑنے میں مصروف عمل ہیں جس کے سبب عوام کی زندگی اجیرن بن گئی ہے،ایک اور چلتی پھرتی مصیبت رکشوں کی شکل میں یہاں کے عوام کودرپیش ہے ان رکشوں کے زیادہ تر ڈرائیور وں میں غیر مقامی،غیر لائسنس یافتہ،نوعمر لڑکے اور ٹریفک قواعدوضوابط سے ناواقف افرادشامل ہیں جو نہ صرف بھرے بازاروں میں تیز رفتاری کا مظاہرہ کرکے سواریوں اور راہگیروں کیلئے خطرہ بن گئے ہیں بلکہ مرضی کا کرایہ بھی وصول کررہے ہیں جس کے سبب سواریوں اور رکشہ ڈرائیوروں کے مابین توتو میں میں معمول بن گیا ہے حیرانگی کی بات یہ ہے کہ تاحال ان رکشوں کیخلاف کسی نے قانونی کارروائی نہیں کی ہے صرف عارضی طورپر چند رکشوں اورڈرائیوروں کو پکڑا جاتا ہے جنہیں بعدازاں چھوڑدیا جاتاہے جو ایک بار پھر سواریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف عمل ہوجاتے ہیں،اسی طرح بازاروں میں سبزیوں سے لے کر پھلوں تک اور پکی پکائی اشیائے خودونوش تک کے من مانے نرخ وصول کئے جارہے ہیں مگر متعلقہ محکمے تماشادیکھنے پر ہی اکتفا کررہے ہیں،بڑی پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ سوات کے عوام کو غذا کے نام پر زہرکھلایا جارہاہے کیونکہ یہاں پر بازاروں میں ملنے والی خوراکی اشیاء انتہائی ناقص،غیر معیاری اور مضرصحت ہیں جن کا استعمال کئی قسم کے امراض کا سبب بن سکتا ہے مگر یہاں کے سادہ لوح عوام بے خبری میں یہ چیزیں استعمال کررہے ہیں بلکہ کھانے کے نام پر پیٹ میں زہر اتار رہے ہیں جو انتہائی قابل افسوس امر ہے اور اس سے بھی قابل افسوس بات یہ ہے کہ سوات کے عوام کو پینے کیلئے صاف پانی بھی میسر نہیں کیونکہ سرکاری طورپر جو پانی گھروں میں سپلائی ہوتا ہے اس کی پائپ لائنیں ندی نالوں میں سے گزاری گئی ہیں جو زنگ آلود اور خستہ حالی کا شکار ہوچکی ہیں جن میں ندی نالوں کا گندہ پانی گھس کر سپلائی کے وقت گھروں میں پہنچ جاتا ہے ظاہری بات ہے کہ اس آلودہ پانی کا استعمال امراض کا سبب بنے گا،ایک رپورٹ کے مطابق سوات میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد کافی زیادہ ہے اوراس مرض کے پھیلنے کی بڑی وجہ آلودہ پانی کا استعمال بتایا گیا ہے، مہنگائی کے ساتھ ساتھ سوات کے عوام بے روزگاری کی چکیوں میں بھی پس رہے ہیں یہاں کے تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادملازمتوں اور روزگاری کی تلاش میں سرگرداں پھرتے نظر آرہے ہیں مگر انہیں ہرجگہ مایوسی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے اس لئے بیشتر نوجوان بیرون ممالک میں جاکر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہورہے ہیں،سرکاری ملازمت تو یہاں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی قسمت میں ہے ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ ان نوجوانوں کی صلاحیتیں ضائع ہورہی ہیں،ایسا کوئی مسئلہ نہیں جو اس وقت سوات کے عوام کو درپیش نہیں جن کی نشاندہی باربار انہی صفحات پر کی گئی ہے مگر حکومت اور دیگر متعلقہ حکام نے ان مسائل کے حل کیلئے اقدامات اٹھانے کی زحمت تک گوارا نہیں کی ہے تاہم اہل سوات نے ایک بار پھر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کے حال پر ترس کھا کر انہیں مسائل سے چھٹکارا دلانے اور انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کیلئے ٹھوس،موثر،عملی اور فوری اقدامات اٹھائے تاکہ انہیں کی پریشانیوں میں کمی واقع ہوسکے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :