ریاست مدینہ کے خدوخال

اتوار 7 جون 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

پاکستان دنیا کی واحد ریاست ہے جو خالصتاً اسلام کے نام پر وجود میں آئی۔ اس کا نظام حکومت اسلامی تعلیمات کے مطابق ہونا ضروری قرار پایا۔ماضی و حال کی تمام حکومتوں نے اپنے اپنے انداز میں اسلامی نظام کے نفاذ اور اسلامی طرز حکومت کو فروغ دینے کی کوشش کی۔تاہم ہم یہ کوشش کبھی بھی بارآور ثابت نہ ہو سکی اوراسلامی نظام حکومت کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے واضح انداز میں کہہ دیا تھا کہ پاکستان کا نظام حکومت اسلامی اصولوں کے مطابق ہوگا۔گورنر جنرل کا حلف اٹھانے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کا نظام حکومت وہی ہوگا جو چودہ سو سال پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشکیل دیا تھا۔

(جاری ہے)


اسلامی نظام ریاست کے بانی سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ایک ایسے خطہ میں ہوئی تھی جو قانون اور نظم و ضبط سے کلیتاً عاری تھے۔یہی وجہ ہے کہ سرکار کی بعثت سے قبل کے دور کو دور جہالت کہا جاتا ہے کیونکہ اس دور میں کوئی بھی شخص خود کو کسی ضابطے کا پابند نہیں سمجھتا تھا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ کے آغاز میں ایسے شعور اور آگہی،تہذیب، اور کلچر کو فروغ دیا جس کی مثال آج کی جدید دنیامیں مشکل سے ملتی ہے۔

اعلیٰ انسانی اقدار کا فروغ، انسانیت کی حرمت،انسانی جان کی قدر،اور باہمی رواداری ریاست مدینہ کے بنیادی اصول تھے۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ریاست مدینہ کے آغاز میں مسجد کو بنیادی مرکز قرار دیا یہیں پر سیکرٹریٹ قائم ہوا جہاں پر بڑے فیصلے کیے جاتے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ریاست مدینہ کا بنیاد رکھی تو اس وقت ایک طرح کی ہنگامی حالت تھی مسلمان مکہ مکرمہ میں اپنی جائیداد چھوڑ کر کے مسافرت عالم میں مدینہ منورہ میں بطور مہاجر تشریف لائے تھے۔

سب کی مالی حالت اتنی اچھی نہ تھی۔حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی حکمت و بصیرت کے ساتھ سب سے پہلے اس معاشی تفاوت کو ختم کرنے کے لیے مواخات کا قدم اٹھایا جس کی وجہ سے ایک طرف تو ایسے صحابہ جن کی مالی حالت کمزور تھی وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوگئے دوسری طرف صحابہ انصاریوں اور مھاجرین کے درمیان محبت کی ایسی فضا پیدا ہوئی جو ہمیشہ قائم رہیں۔

آنے والی سطور میں ہم اختصار کے ساتھ چند ایسے نکات ذکر کریں گے جو ریاست مدینہ کے بنیادی اصول خیال کیے جاتے ہیں۔اور یہ بنیادی اصول آج بھی قابل عمل ہیں۔اگر ان پر کما حقہ عمل کیا جائے تو معاشرے کی حالت تبدیلی کی جاسکتی ہے۔
مساوات۔قانون کی یکساں عملداری۔    ریاست مدینہ کا سب سے پہلا اصول یہ تھا کہ قانون کا نفاذ سب کے لئے برابر ہوگا۔

حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجة الوداع کے موقع پر واضح طور پر ارشاد فرمادیا تھا کہ کسی کالے کو گورے پر یا گورے کو کالے پر، کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے۔ریاست مدینہ میں کسی امیرادمی کو قانون سے استثنیٰ حاصل نہ تھا۔چوری کے مقدمہ میں ایک معزز قبیلے کی خاتون ملزم نامزد ہوئی تو سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو اس کے لیے بھی یہی قانون لاگو ہوتا۔

قانون کے یکساں نفاذ نے ریاست کے شہریوں میں ایک طرف تو احساس تحفظ پیدا کر دیا دوسری طرف ریاست پر ان کا اعتماد بڑھ گیا۔
معاشی انصاف۔سود کا خاتمہ۔    ریاست مدینہ کے تمام شہریوں کو معاشی سرگرمیوں کے مساوی حقوق حاصل تھے۔حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو کاروبار کی طرف راغب کیا۔آپ نے متعدد ارشادات سے ان میں محنت مزدوری کا جذبہ بیدار کیا۔

آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہاتھ سے کمانے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے۔اس مضمون کے متعدد ارشادات آج بھی کتب احادیث میں موجود ہیں۔جس طرح پہلے عرض کیا کہ مواخات مدینہ نے مالی طور پر کمزور صحابہ کرام کی معاشی حالت کو بہتر کیا۔تمام صحابہ کرام نے کاروباری سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا اور سب کو صلاحیت کے مطابق ترقی کے برابر مواقع میسر آئے۔معاشی مساوات کا ایک اہم اور بنیادی حکم سود کا خاتمہ تھا۔

حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجة الوداع کے موقع پر سود کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان فرمایا۔بلکہ یہاں تک ارشاد فرمایا کہ سود کا لین دین کرنے والا اللہ سے اعلان جنگ کرتا ہے۔سودی نظام کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کی معاشی حالت میں بہتری نمایاں ہوئی۔
نظام تعلیم۔    اسلامی نظام ریاست میں تعلیم کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ کو ہجرت سے قبل ہی معلم بنا کر مدینہ منورہ بھیج دیا۔ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں باقاعدہ درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا۔غیر مقامی طلباء کے لئے لیے صفہ کا قیام عمل میں لایا گیا جہاں پر نہ صرف صحابہ کرام کو تعلیم دی جاتی بلکہ ان کو کھانا بھی کھلایا جاتا۔

عرب میں لکھنے کا رواج نہیں تھا اس لیے حضرت عبداللہ بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کو لکھنا سکھانے پر مامور کیا گیا۔ صحابہ کرام نے مختلف ممالک کی زبانیں سیکھیں۔خواتین کو گھریلو صنعتوں کے ساتھ ساتھ علاج معالجے کی بھی تربیت دی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ جنگوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی ان کے شانہ بشانہ ہوتی۔

اورامہات المومنین بھی اس کام میں پیچھے نہ رہتی۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،مسلم ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے شہریوں کی تعلیم کے لئے اتنے فکر مند تھے کہ آپ نے جنگوں میں گرفتار ہونے والے قیدیوں کیلیے تعلیم دینے کو بطور فدیہ مقرر فرما دیا۔اور کئی غیر مسلم قیدیوں سے مسلمانوں نے دیگر علوم و فنون بھی سیکھے۔
حکام کا احتساب۔

        حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احتساب کا بنیادی اصول بھی بیان فرما دیااوراپ جو عمال مقرر کرتے ان کو ہدایات جاری کر کے بھیجا جاتا۔اور اگر کسی کے خلاف شکایت ملتی تو اس پر سخت کارروائی بھی کی جاتی۔اسی طرح شہریوں کے معاملات کی بھی کڑی نگرانی کی جاتی اور اگر کوئی شخص کس تجارتی اصول کی خلاف ورزی کرتا تو اس کو بھی سزا دی جاتی۔


ریاست مدینہ کی سفارتی پالیسی۔    ریاست مدینہ کی سفارتی پالیسی تمام ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات پر مبنی تھی۔قبائل کے ساتھ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جو معاہدہ کرتے اس کو پورا کرتے اور اگر کوئی معاہدے کی خلاف ورزی کرتا تو اس کے ساتھ باقاعدہ جنگ کی جاتی۔سفارتکاری کا اصول اور بنیادی نقطہ امربالمعروف اور نھی عن المنکر تھا۔

سب لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا اور دین کی دعوت بنیادی
اصول تھا۔جو لوگ دین کی دعوت کو قبول نہ کرتے ان کو دو آپشن دیے جاتے۔۔اول ٹیکس دے کر ریاست کی حفاظت میں آجاتے۔ اور اس سے بھی انکار کرتے تو پھر جنگ کرکے ان کو مطیع کیا جاتا۔
اللہ کے حدود کا نفاذ۔    ریاست مدینہ کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ احکامات کی مکمل عملداری قائم کی جائے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اصول و ضوابط وضع کیے ہیں انکو کما حقہ نافذ کیا جائے۔

جو شخص اللہ کے حدود کو توڑتا اس کو سزا دی جاتی اور جو عمل کرتا اس کو دنیا و آخرت میں کامیابی کی بشارت دی جاتی۔
ریاست مدینہ اور خلفاے راشدین۔        حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے خلفائے راشدین نے بھی انہی اصولوں پر اسلامی ریاست کے نظم و نسق کو چلایا۔ریاست مدینہ کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے تمام خلفائے راشدین نے نہ صرف اپنے شہریوں کے حقوق کا خیال رکھا بلکہ ان کی فلاح و بہبود کے لیے بھی اقدامات کیے۔

۔خلفاء راشدین کے دور میں ریاست مدینہ کی حدود عرب سے نکل کر عجم اور افریقہ تک وسیع ہویں۔لیکن ہر جگہ وہی اصول اور ضوابط کارفرما رہے جو سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضع فرماے تھے۔سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات پر حرف بحرف عمل کیا۔منکرین زکوة کے خلاف آپ کی جدوجہدضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔

اور آپ کا یہ ارشاد آب زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ اگر کوئی ایک رسی بھی بطور زکوة دینے سے انکار کرے گا تو میں اس کے خلاف بھی جہاد کروں گا۔سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور کا ایک اہم واقعہ منکرین نبوت کے خلاف جہاد تھا۔۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے شہریوں کی خبر گیری کرتے رات کو مدینہ منورہ کا خود گشت فرماتے۔

اور لوگوں کی ضروریات کو پورا کرتے۔طبقات ابن سعد میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں ایک دفعہ سخت قحط پڑا۔۔اس کو عالم الرمادہ یعنی ہلاکت کا سال کہا جاتا ہے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ صرف ریاستی وسائل استعمال کرکے ان کی ضروریات کو پورا کیا بلکہ سارے معاملات کی خود نگرانی کرتے رہے یہاں تک کہ بارش ہوئی اور اللہ تعالی نے وہ قحط ختم فرمایا۔

سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے قبیلہ کے کچھ لوگوں کو لے کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے۔ آپ نے قبیلہ بنو طے کے افراد کیلئے دو ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا۔مگر انہیں نظرانداز فرما دیا۔حضرت عدی نے پوچھا کہ امیرالمومنین مجھے کیوں نظر انداز فرمایا۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ بے شک تم اسلام لانے میں سب سے اول ہو، اسلام کے ہمیشہ وفادار رہے ہو،سب سے پہلی زکات تمہارے قبیلے نے ہی دی تھی مگر میں نے وظیفہ ان لوگوں کو مقرر کیا ہے جو فاقوں کا شکار ہیں۔

یہی صورتحال حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت علی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں بھی رہی۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ امیر المومنین ہونے کے باوجود کئی دفعہ قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے۔قاضی نے انہیں اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مقدمات کے فیصلے کیے جو سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضاحت فرما دیے تھے۔
مدینہ کی ریاست اللہ کے احکام پر عمل کرنے کا نام ہے۔

مدینہ کی ریاست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو قانونی شکل دینے کا نام ہے۔ریاست مدینہ غریب اور نادار لوگوں کی دیکھ بھال کا نام ہے۔ریاست مدینہ جلتی یتیموں اور مسکینوں کے حقوق کے تحفظ کا نام
ہے۔ریاست مدینہ قانون کی برابر عمل داری کا نام ہے۔ریاست مدینہ معاشی مساوات کا نام۔ریاست مدینہ سب کو یکساں مواقع ملنے کا نام ہے۔مدینہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کا نام ہے۔ریاست مدینہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا نام ہے۔ریاست مدینہ کمزور اور طاقتور کے مابین توازن کا نام ہے۔وہی ریاست فلاحی ریاست تصور ہو گی جو ان اصولوں پر عمل پیرا ہوکر تشکیل پائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :