میری ترجیح اول، رسول اللّٰہ کی زندگی

جمعہ 30 اکتوبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

ربیع الاول شروع ہوتے ہی ایک منفرد سی کیفیت اور خوشی ہوتی ھے، دل کرتا ہے کسی سے ڈھیروں باتیں کی جائیں، اپنی زبان کی طاقت، رنگوں میں دوڑتے خون کی حدت اور قلم ،سوچ کے دھارے مدحت رسول میں گزر جائیں، دوڑ کر مدینے پہنچ جائیں، اور کہہ دوں کہ "آقا آگیا گناہوں کی دبیز تہہ میں لپٹا ہوا، ایک بوجھ عصیاں ھے کندھوں میں، ایک درد ھے جو جینے نہیں دیتا، آنکھیں ہی کہ بس آپ کو دیکھنا چاھتی ہیں، درد مندوں کا آپ تو سہارا ہیں، میری کیا اوقات ہے کہ آپ کے در پر آ سکوں، مگر جب آپ کی رحمت، معافی اور محبت کی زندگی یاد آتی ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہوں، آنسو ہیں کہ روکتے نہیں، دل ھے کہ بے تاب ہے، آپ ہی تو ہیں رحمت دوجہاں ، پھر کہاں جاؤں؟سوچتا ہوں کوئی ھو جو میری روح و جسم کو ریزہ ریزہ کر کے مدینہ کی مٹی میں ڈال دے، اس مٹی کی شان سے میری بھی کوئی پہچان بن جائے، میرا جسم و روح اس آزار سے آزاد ھو جائے، وہ بہتے دریا کی طرح بولتا جا رہے تھے، جیسے معصوم بچہ بلک بلک کر رو رہا ہو میں اسے چپ کرانے کی کوشش کرتا رہا مگر کوئی بھی حربہ کار گر ثابت نہ ھوا، اتنی بھی محبت ھوتی ھے، میں سوچتا رہا، کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تو اللہ نے کیا معجزے دکھائے، فارس کے آتش کدے بجھ گئے، کسری کے محلات میں گنگرے گرنے سے لرزہ طاری ہو گیا، خانہ کعبہ میں رکھے بت اوندھے منہ گر پڑے، راہب جو کبھی گھر سے نہ نکلا تھا ہڑبڑا کر باہر بھاگا، گویا یہ ایک نظام کو چیلنج تھا کہ اب شرک، جہالت، بددیانتی، ظلم اور جبر کو مٹانے والا دنیا میں آگیا، جس کی تلوار حق کا نام اخلاق ھے، وہ انسانیت کا محسن اور غریب اور مسکین کا ھاتھ تھامنے والا ہے، جس کی تربیت روم اور فارس کو بھی ھلاکر رکھ دے گی۔

(جاری ہے)

گھر سے میدان جنگ تک، ھجرت سے دارالامن تک، اخلاق کی تلوار نے سب کو شکست دی، فتح مکہ  اعلیٰ اخلاقی قدروں سے عام معافی کا مرکز بن گئی، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ شاہ جی پھر گویا ھوئے کہنے لگے بیٹا میری ترجیح اول ھمیشہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی رہی ہے محبت میں انتہا ھے تو ان کی زندگی سے وفا ھے، میں نے پوچھا شاہ جی وفاداری کی شرط کیا ہے، کہنے لگے پوری امت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کتاب اور سنت کی امانت سپرد کر کہ گئے تھے، اگر آپ وفا دار ہیں، محبت اور پیار میں سچے ہیں تو اس امانت میں خیانت کیسے کر لیتے ہیں، سب سے بڑی دعوت وہ شرک، تکبر، غرور اور حرص کے خاتمے کے لیے لے کر آئے اور پوری حفاظت، دیانت داری اور سچائی سے ھمارے حوالے کر دی مگر ھم جگہ جگہ شرک سے ناطہ جوڑ رہے ہیں، غیر اللہ کا پرچار کر رہے ہیں، کمزور اور غریب کو کچل رہے ہیں، ان کے ساتھ کوئی کھڑا ھونے کے لئے تیار نہیں طمع اور لالچ میں حرام و حلال سب جائز کر دیتے ہیں تو پھر ھم کس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار ھو سکتے ھیں، شاہ جی بولتے رہے اور میں لمحہ لمحہ مرتا رہا کہ کاش ھم حقیقی  وفادار ھوتے، محبت کی شرط ھی وفا ھے وہ نہ ھو تو محبت کیسی؟ذرا سوچیں ایک محبوب کے ھوتے ھوئے دوسرے کو محبوب بنایا جا سکتا ہے؟اگر بنائیں گے تو وفا کیسی؟ کیا اخلاقی طور پر ھم اس مقام پر کھڑے ہیں کہ ایک غیر مسلم ھمارا اخلاق دیکھ مسلمان ہو جائے، کیا قرآن جو آقا ھمارے حوالے کر گئے تو اس امانت کو ھم نے کبھی پڑھا، سوچا، فکر کی، ھم نے تو امریکی، یونانی، انگریز، ھندوستانی، پاکستانی اور پتہ نہیں کہاں کہاں کے سکالرز کی کتابیں پڑھ ڈالیں، انفارمیشن کس سمندر دائیں بائیں بہہ رہا ہے مگر نسخہء کیمیا کو ھم نے قسمیں اٹھانے، طاقوں میں سجانے یا دلہن کے سر پر رکھنے کے لیے وقف کر دیا یہ کیسی وفا ھے شاہ جی پھر گویا ھوئے اور بس رونے لگے کہ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو ترجیح بنا کر نکلا تھا ھر جگہ گیا اور دکھ ھے کہ آقا کے وفادار صرف باتوں کے ہیں عمل کے نہیں، ورنہ آج بھی ھم اخلاق سے معاشرے میں انقلاب بپا کر سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :