غربت کا خاتمہ مگر کیسے؟

پیر 27 اپریل 2020

Professor Ihsaan Ullah Derwi

پروفیسر احسان اللہ دیروی

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بازار میں ایک بوڑھا شخص دیکھا جو لوگوں سے بھیک مانگ  رہا تھا۔  تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بوڑھے سے کہا  کیا آپ کو بیت المال سے وظیفہ نہیں ملتا ؟
اس نے کہا کہ مجھے وظیفہ مل رہا ہے لیکن میں یہودی ذمی ہو حکومت مجھ سے سالانہ جذیہ لے رہی ہے میں کمزور ہو مزدوری نہیں کرسکتا ہوں تو اس کی ادائیگی کے لئے سال میں ایک دفعہ لوگ سے مانگ کر حکومت کو جمع کرتا ہوں۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے کہا کہ سوال نہ کرو کل میر ے پاس آجائو ۔
کل جب وہ دربار میں پیش ہوا تو مجلس شوری نے قانون بنادیا کہ آج کے بعد بوڑھے ذمیوں سے جذیہ  معاف ہوگا۔
آج ہمارے ملک پاکستان میں لوگ پر باری باری ٹیکس عائد کیا ہے ۔ جو اس کی وجہ سے لوگ روز بروز اپنے کاروبار چھوڑ رہے ہیں۔

(جاری ہے)


 ساری دنیا کے غریب ممالک میں عوام بہت غربت سے زندگی بسر کر رہی ہیں۔

بہت ایسے لوگ روئے زمین پر موجود ہیں جو ایک وقت کا کھانا بھی ان کو نہیں ملتا۔ افریقہ اور جنوبی ایشاء کے بعض ممالک جیسےانڈیا، بنگلادیش، پاکستان اور افغانستان میں بہت عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
پاکستان میں خاص کر پنجاب اور سندھ کی دیہاتوں میں بچے بھوک وافلاس کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ کتنے بچے،خواتین اور مرد دو وقت کھانے کے خاطر غلامی کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔

روز روز کی واقعات سن کرآپ کی پریشانی بڑھ جائینگے۔ اس ملک میں کتنے بچے اور والدین کی خواہش اور تمنا اچھی تعلیم ہوتی ہیں۔ اس سے وہ محروم ، کتنے بچے یتیم ہیں، کتنے زن بیواؤں ہوچکی ہیں۔
ان کی حالت پوچھنے والاکوئی نہیں۔ کتنے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شادیوں کی تمنا و آرزو کے ساتھ بوڑھے ہوگئے۔
 آج ملک میں جو بے قراری، ظلم وستم ، دھشت گردی، قتل وغارت،دھوکہ بازی اور چوری ڈکیتی ہے یہ سب غربت کی پیداور ہیں۔

جن ممالک میں جرائم کی شرح کم ہیں تو وہاں غربت نہیں۔
ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تمام شہریوں کو تعلیم ،صحت اور روزگار مہیا کرے۔
ہمارے ملک کی آزادی کے بعد 73 سال ہوگئے لیکن ہم روز بروز غربت کی طرف چل رہے ہیں۔ہر نئی حکومت جب آتی ہے تو وہ غربت کے خاتمے کی اعلانات کرتی ہیں لیکن حقیقت میں وہ اپنے اعلانات کے برعکس چلتے ہیں۔ کوئی بینظیر انکم سپورٹ اور کوئی احساس پروگرام پیش کرتے ہیں۔

کیا ایسے پروگرامات سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے؟ اگر اس سے غربت ممکن نہیں تو کیا  صورت ہے جس سے غربت کا خاتمہ ہوجائے۔
یورپ پر پندرہ سو سال جاگیردارنہ نظام مسلط تھا۔اس نظام میں زمین جاگیردار کا اومحنت مشقت زمیندار کر رہا تھا اس کا آمد تین حصوں میں بانٹ جاتے تھے۔ ایک حصہ جاگیر دار دوسرا حصہ کلیسا اور تیسرا حصہ کاشتکار لیتے تھے اس نظام میں ساری محنت ومشقت  کاشتکار کرتا تھا لیکن ان کو بہت کم حصہ مل جاتا تھا۔


اس کے رد میں سرمایہ دارانہ نظام اگیا ۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر چیز رسد وطلب کا قانون میں ڈال دیا۔ جس چیز کا رسد زیادہ ہو اور طلب کم ہو توہ چیز خود بخود سستا دام سے فروخت ہوگا اگر برعکس ہو تو مہنگا ہوگا۔ تو یہ معیار انہوں نے مزدور کےلئے بھی مقرر کیا تھا اگر کوئی کام کےلئے مزدور کی ضرورت ہو تو اگر آپ کو زیادہ مزدور ملتے ہیں تو اس کا یومیہ اجرت کم دے دو ۔

تو اس نظام میں مزدوروں کے بہت استحصال ہوئے ہیں اس وجہ سے لوگ اس سے تنگ اگئے ۔
سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں سوشلزم نظام معرض وجود میں آیا۔  انہوں نے معاشی مساوات کا نعرہ لگا دیا تو بہت لوگ جو سرمایہ دارانہ نظام سے تنگ آچکے تھے اس نعرے کی وجہ سے ان کی طرف چل گئے۔لیکن اس میں بھی بہت سی قباحتیں تھیں اس وجہ سے لوگوں نے وہ بھی پسند نہیں کیا۔


یورپ آمریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے غربت اسلامی اصول کو اپناتے ہوئے غربت سے نجات دلائی ہے ۔ جیسے برطانیہ میں عمر Law موجودہے اس سے مطلب وہ قوانین ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں بنائے تھے۔
 افسوس یہ ہے کہ مسلمان غیر مسلم کے بنائے ہوئے فرسودہ نظام اپناتے ہیں اس نظام میں حرص لالچ دھوکہ اور سود شامل ہیں جو اس میں کھبی کامیابی نہیں ہیں۔


اسلامی نظام معیشت میں غربت کا خاتمہ موجود ہے یہ نظام افراط تفریط سے بلکل شفاف نظام ہے اس میں انسان کے استحصال نہیں نہ اس میں غلامیت کی تصور ہے ۔ سب افراد کے لئے موزون نظام ہے۔
سب سے پہلا فلاحی ریاست حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں قائم کی تھی۔ اس ریاست میں بیت المال بن گیا باقاعدہ اس سے غربا کو کھانے پینے حتی سفر کے لئے  سواری بھی مہیا کی جاتی تھی۔


حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں غریبوں کے لئے بہت قانون سازی کی تھی۔ ہر بچے کے پیدائس پر ان کے لئے بیت المال سے وظیفہ مقرر ہو جاتا تھا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سنہ 99 سے 101 ہجری تک خلیفہ تھا اس کا دارلخلافہ دمشق تھا ۔ اس نے بہت انصاف سے حکومت کی تھی ۔ ان کے عراق کا گورنر عبدالحمید تھا ۔
کتاب الاموال میں گورنر عراق عبد الحمید کے چار خطوط  ذکر موجود ہیں ۔

جو عمر بن عبدالعزیز کو لکھئے ہیں۔
پہلا خط میں گورنر نے لکھا کہ میرے صوبے کے ریونیو بجٹ سے زیادہ ہیں میرے ساتھ کافی بچت ہے میں اس کے ساتھ کیا کرو۔ خلیفہ نے جواب لکھا کہ آپ تمام غربا کے سروے کرو اس میں جتنے قرض دار لوگ ہیں ان کے قرضے اس سے ادا کرو۔پھر گورنر نے دوسراخط لکھا کہ سارے قرض دار لوگ کے قرضے ادا کیا پھر بھی میرے ساتھ بچت زیادہ موجود ہے۔

خلیفہ نے جواب دیا کہ آپ سروے کرو جتنے غریب غیر شادی شدہ لڑکے اور لڑکیاں ہیں ان کی شادیاں اس سے کرو۔
تیسرا خط گورنر نے خلیفہ کو روانہ کیا۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کی شادیاں کرا دیا۔پھر بھی بچت میرے ساتھ رہ گیا۔ تو خلیفہ نے جواب لکھا کہ  وہ شادی شادہ مرد جو اپنی بیویوں کے مہر ادا نہیں کرسکتے اس سے ان خواتین کی مہر بھی ادا کرو۔
چھوتھا خط لکھا کہ خواتین کو مہر بھی ادا کردی ۔ تو خلیفہ نے جواب دیا کہ غیر آباد زمین کے سروے کرکے زمینداروں کو آسان اقساط پر قرضے دیا جائے۔ تاکہ اس سے زمین آباد کیا جائے ۔
اسلام کے وہ علمگیر اصول پر عمل کرکے تاکہ اس ملک سے غربت وافلاس کا خاتمہ ہونے کے ساتھ وہ تمام شہریوں کو امن وسلامتی کی زندگی نصیب ہو جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :