"بنی اسرائیل کے دو عروج اور دو زوال"

پیر 10 مئی 2021

Professor Shahid Ahmad Solehria

پروفیسر شاہد احمد سلہریا

بنی اسرائیل کی مختصر تاریخ اور ابتدا کے بارے میں گزشتہ کالم میں بیان کیا تھا۔
انبیاء علیہم السلام کی کثرت کا نزول نسل بنی اسرائیل میں ہوا ۔
اکابر و برگزیدہ انبیاء ورسل کی تبلیغ کے باوجود بنی اسرائیل میں اصلاح کی بجائے سرکشی بڑھتی چلی گئی۔
متعدد بار ان کی آزمائش بھی کی گئی۔
موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کی فرعون سے نجات کے بعد کوہ طور پر  چالیس روزعبادت کیلئے گئے تو اپنے پیچھے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی نگہبانی کیلئے چھوڑ گئے اسکے باوجود کہ اللہ ربّ العزت کے دو نبی ان میں موجود تھے اور فرعون کے صدیوں کے ظلم سے انہیں ابھی ابھی نجات ملی تھی بنی اسرائیل نے گائےکی پوجا شروع کر دی۔

اور شرک جیسے بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے۔

(جاری ہے)


(بنی اسرائیل میں سامری نام کے ایک شخص نے سونے کا ایک بچھڑا بنایا اور اسکے منہ میں وہ گھاس یا چیز ڈال دی جو اس نے تب اکٹھی کی تھی جب وہ جبریل کو وحی کے بعد جاتے دیکھتا تو وہ دیکھتا کہ فرشتے کے قدم جہاں جہاں لگتے ہیں صحرا میں وہاں وہاں گھاس اگتی جاتی ہے۔اسں نے اس سے یہ اخذ کیا کہ یہ مٹی یا گھاس مردہ کو زندگی عطا کر سکتی ہے۔

لہذا اس نے اس کا خوب عقلمندی سے استعمال کر کے بنی اسرائیل کو شرک پر آمادہ کر لیا)
علی ہذا القیاس بنی اسرائیل طرح طرح کی نافرمانیوں کی روش پر چلنا شروع ہو گئے
کبھی وہ اللہ سے استہزاء کرتے تو کبھی اسکے رسولوں اور فرشتوں سے۔
وہ اپنے آپ کو دوسری اقوام سے بہتر اور برتر خیال کرتے اور نئی نئی اختراعات اور تحریفات سے اللہ کے مغضوب ہوتے چلے گئے۔


تاریخی اعتبار سے بنی اسرائیل کو دو مرتبہ عروج ملا اور دو مرتبہ ہی ان پر شدید دور زوال آیا
   پہلا عروج(قریباً 857قبل مسیح)
بنی اسرائیل کا آغاز قریباً1800
قبل مسیح میں ہوا اور ان کا پہلا عروج 1350 قبل مسیح میں تب شروع ہوا جب موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے اللہ نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات عطا فرمائی۔اور ان پر تورات نازل فرمائی۔

اس طرح وہ پہلی امت مسلمہ بھی قرار پائے جن پر اللہ نے اپنی شریعت نازل کی۔
ان کا پہلا باقاعدہ دور عروج(قریباً857 قبل مسیح)تب شروع ہوا جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اول یوشع بن نون نے فلسطین کو فتح کیا۔
اس عروج کی انتہا حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی عظیم الشان سلطنتوں میں دیکھی اور پڑھی جا سکتی ہے۔
بنی اسرائیل کا یہ پہلا دور عروج قریباً 300سال پر محیط ہے۔


     
    پہلا زوال(قریباً 557قبل مسیح)
حضرت سلیمان علیہ جو حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ان کی وفات سے
بنی اسرائیل کا زوال شروع ہوا اور ان کی سلطنت دو حصوں میں منقسم ہو گئی۔شمال سے آشوریوں اور مشرق(اعراق) سے بخت نصر نے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔لاکھوں یہودیوں کو قتل کیا۔
تقریباً 6لاکھ یہودیوں کو قیدی بنا کر بابل(عراق)لے گیا اور 100 سال تک انہیں قیدی بنا کر رکھا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کی بنائی ہوئی عبادت گاہ ہیکل سلیمانی کی بنیادیں تک کھود ڈالیں۔
یہودی آج تک اسی ہیکلِ سلیمانی کی تلاش میں ہیں اور اسی کو تلاش کرتے کرتے انہوں نے موجودہ بیت المقدس یعنی مسجد اقصی کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ان کا دعویٰ ہے کہ مسجد اقصیٰ
ہیکلِ سلیمانی کے اوپر بنائی گئی ہے۔
(اس موضوع پر ہالی وڈ میں کئی فلمیں بھی بنائی جا چکی ہیں)
 
دوسرا دور عروج (400 قبل مسیح)
 
بنی اسرائیل کو دوسرا عروج تب حاصل ہوا جب بنی اسرائیل کو بابل(عراق) میں سو سالہ غلامی سے شہنشاہ فارس سائرس (کیخورس)یا کچھ روایات کے مطابق بادشاہ ذوالقرنین کے ہاتھوں نجات ملی۔


اس دور میں اللہ کے نبی
حضرت عزیر علیہ السلام کی رہنمائی میں ایک اور عظیم سلطنتِ بنی اسرائیل (قریباً170 قبل مسیح سے قریباً 63قبل مسیح تک) قائم ہوئی۔
دوسرا دور زوال (قریباً 63 قبل مسیح)
بنی اسرائیل کا دوسرا دور زوال
(قریباً 63 قبل مسیح میں) تب شروع ہوا جب رومی بادشاہ اور فاتح پومپئ کے ہاتھوں یروشلم فتح ہوا اور یہودیوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔

پھر 70 عیسوی میں رومی جرنیل ٹائٹس نے دوبارہ یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
ٹائٹس نے ہیکلِ سلیمانی کو دوبارہ مسمار کر دیا۔
لاکھوں یہودی مارے گئے۔
تقریباً 67ہزار غلام بنا لیے گئے۔
اس دن سے 1900سال بعد تک یہودیوں کو سر اٹھانے کا موقع نہ ملا۔600 سال تک یہودیوں کو فلسطین میں داخلے کی اجازت نہیں تھی۔اس کے بعد رومی شہنشاہ ہیڈریان نے یروشلم کو تعمیر کیا اور اسکا نام بھی بدل کر "ایلیاہ" رکھ دیا۔(جاری ہے)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :