لڑو‘ کہنہ نظام سے

منگل 31 دسمبر 2019

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

11دسمبر2019ء کو لاہورمیں وکلاء کی ایک بڑی تعداد نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پردھاوا بول کر دل کے امراض کے اس اسپتال میں توڑپھوڑکی اورمبینہ طور پر ہاتھ لگنے والے ڈاکٹرز،پیرا میڈیکل سٹاف اور دیگر عملے کو تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔یہ بلوہ کئی گھنٹے چلتا رہا اور اس موقع پر ”قانون نافذ“ کرنے والے ادارے تماشائی بنے رہے۔

اسی دوران پنجاب کے ایک وزیر فیاض الحسن چوہان کی مشکوک قسم کی انٹری ہوئی اور بالکل کسی فلم کے سین کی طرح ان کی نام نہاد ھنائی کی گئی بلکہ شائد ریکارڈ پر لانے کیلئے ہلکی پھلکی کھینچا تانی کی’ عکاسی‘ کی گئی۔اسکے بعد وکلاء کے خلاف پولیس ایکشن شروع کیا گیا اور پولیس نے اپنا روائتی تشدد پروگرام شروع کردیا۔ بعد ازاں وکلاء کے خلاف عدالتی اورمیڈیا ٹرائل کا لاامتناعی سلسلہ شروع کیا گیا۔

(جاری ہے)

اس سانحے کاپس منظروہ واقعہ ہے جس میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہی چند ہفتے قبل اسپتال کے عملے نے ایک وکیل کو اس وقت شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھاجب اس نے اپنی دل کی مریضہ ماں کیلئے مفت ادویات کا حق حاصل کرنیکی کوشش کی تھی اور ناکامی پر اپنے غم غصے کا اظہار کیا تھا۔کام کے بوجھ کی اکتاہٹ، رعونت اور روائتی بے حسی سے مرصع بپھرے ہوئے ڈاکٹرزنے اسپتال کے عملے کے ذریعے وکیل پر تشدد کراکے اسکے ”مفت علاج معالجے“کے مطالبے کاتدارک کیا۔

اس واقعے کے بعد وکلاء اور ڈاکٹرز کی طرف سے ہڑتالوں اور ایک دوسرے کے خلاف چارہ جوئی کی مہمات چلیں اور پھرصوبائی وزیر قانون کی طرف سے ایک ” مصالحت “کرائی گئی۔ جس کے بعد ڈاکٹرز کے ایک راہنماکی ایک ایسی ویڈیو وائیرل ہوئی جس میں انکی طرف سے وکلاء کی حق رسی کی کوششوں کاتمسخر اڑایا گیاتھا۔ یہ موقع طالع آزما ؤکیلئے موزوں تھا،چنانچہ اسپتال پر دھاوا بول دیا گیااور غریب مریضوں کیلئے ’جیسی تیسی‘ مفت امراض قلب کی علاج گاہ کو تاراج کردیا گیا۔

چند مشکوک شواہد واضع کرتے ہیں کہ احتجاجی ریلی سے ہٹ کر بھی کچھ لوگ دونواں اطراف اشتعال انگیزی کے لئے کوشاں تھے۔ چنانچہ ایک ایسا سانحہ رونما ہوا جس میں سب سے زیادہ نقصان مریضوں کا ہوا جن میں سے چند ایک کو زندگی جیسی بے نظیر نعمت سے محروم ہونا پڑا۔دل کے عارضے میں مبتلا مریضوں جن میں سے کچھ انتہائی نگہداشت میں رکھے گئے تھے‘ کو وکلاء اور ڈاکٹرز کے تصادم میں’اسپتال‘ سے بے دخل ہوکر خود کوحالات کے رحم وکرم پر چھوڑنا پڑا۔

دوردراز سے آئے بہت سے مریضوں اور لواحقین کی بے بسی اور زبوں حالی کا تصورکیا جاسکتا ہے جن کیلئے مرض اور درد سے بڑھ کر حملہ آوروں کی یورش سے بچنا محال ہوچکا تھا۔یہ واقعہ اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کے صدر مقام لاہور میں رونماہورہا تھا جہاں مزدوروں،کسانوں،طالب علموں اور معاشرے کے پچھڑے ہوئے حصوں کی کسی بھی سرگرمی کو کچلنے کیلئے ریاستی اہل کار ہر وقت مستعد اور چوکنا رہتے ہیں۔

    کچھ دورازکار تجزیہ نگاروں نے اسی وقت اس واقعے کو پرویز مشرف کے خلاف ممکنہ فیصلے سے قبل ہی مخصوص فضا پیدا کرنے کی کاوشش قراردیاتھا۔انکے مطابق عدلیہ اور’انتظامیہ ‘کے مابین تناؤ اور مخاصمت کی کیفیت میں بار اور جوڈیشیری کے خلاف عوامی رائے عامہ کواستوار کرنا مقصود ہے۔    مگر ہمیں ٹوٹتے اور مرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کی غلام گردشوں کی سازشوں،ریاستی بحران کی شدت میں حکمران طبقے کی باہمی لڑائیوں کے پہلو کے ساتھ کچھ دیگرزایوں سے بھی دیکھنا ہوگا۔

غیر ہموار معاشرتی زندگی کاردعمل دیگر مضمرات کی پیدائش کی صورت میں نکل رہا ہے۔بہت سی وجوہات جن کا تعلق معاشی اور سماجی دباؤ میں اضافے سے بنتا ہے ‘کی وجہ سے پورے سماج میں تشدد،جھگڑے،بے گانگی اور جھلاہٹ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اگردیکھا جائے تو پچھلے کچھ سالوں سے اسپتالوں میں بھی لڑائی جھگڑوں کے واقعات میں شدت آتی جارہی ہے۔پاکستان میں سترفیصد کے قریب لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

شدید ماحولیاتی آلودگی اورغربت کے ساتھ پست معیارزندگی اور خوراک کی قلت کا معاملہ جڑا ہواہے۔المیہ یہ ہے کہ دیگر شعبوں سمیت صحت اورعلاج معالجے میں ریاست اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے۔عام آدمی مضرصحت پانی اور ملاوٹ شدہ وناقص خوراک کھانے پر مجبور ہے۔اسی وجہ سے بیماریوں کی بہتات ہے۔اگریہ کہا جائے کہ تقریباََ ساری آبادی کسی نا کسی طرح کے صحت کے مسائل سے دوچار ہے تو مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔

ہر اسپتال خواہ نجی شعبے کا ہو یا سرکاری مریضوں سے اٹا ہو ملتاہے۔ آبادی کا غالب حصہ غربت کی وجہ سے سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتا ہے جہاں انہیں امید ہوتی ہے کہ انکا مفت علاج معالجہ ہوگا۔ صحت کے مراکز اور اسپتالوں کی آبادی سے عدم مطابقت کی وجہ سے ہر اسپتال میں اسکی بساط سے بہت زیادہ رش ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (2015) کے مطابق پاکستان میں ایک ہزارآبادی کیلئے0.98ڈاکٹرز ہیں،جبکہ فی ہزار آبادی کیلئے بیڈزکا(اس تعداد میں ہمہ قسم کے وارڈز کے بیڈ شامل ہیں) تناسب 0.6ہے۔

حکومتی وسائل (سامراجی اداروں کی گائیڈلائن کے مطابق) کاسب سے کم حصہ تعلیم اور صحت کے بنیادی شعبوں پر خرچ ہونے کی وجہ سے آبادی اور صحت کے انفراسٹرکچر کے مابین تناسب د ن بدن خراب ہوتا جارہا ہے۔اس صورتحال میں صحت کے شعبے کو نجی تحویل کے سپرد کرنے کی پالیسی نے خرابیوں کوبڑھاوا دیا ہے۔سرکاری اسپتال میں موجود ڈاکٹر کادماغ ہمہ وقت اپنے نجی کلینک کی آمدن بڑھانے میں مصروف کار ہوتا ہے،وہ سرکاری اسپتال میں آنے والے مریضوں کو وہ توجہ نہیں دے پاتا جسکے وہ مستحق ہوتے ہیں۔

اسی طرح بتدریج ادویات اور ٹسٹ کی مفت فراہمی کی سہولت کم سے کم کی جارہی ہے۔تکلیف دہ مسافت طے کرکے اسپتال آنے والے مریضوں اور لواحقین کی قوت برداشت لمبی لمبی لائینوں میں لگنے اور اہلکاروں کی ڈانٹ ڈپٹ سننے کے بعد ہی ختم ہوجاتی ہے۔سرکاری اسپتالوں کے باہر نجی اسپتالوں اورلیبارٹریز کو منافع بخش بنانے کی سوچ ’سرکاری اسپتال‘ کے اندر موجود سہولیات کی فعالیت اورافادیت کے آڑے آئے رہتی ہے۔

عموماََ الٹراساؤنڈ،ایم آرآئی ،گردے صاف کرنے والی سرکاری مشینیں ”خراب“رکھی جاتی ہیں۔صحت کے شعبے میں سرکارکی عدم دلچسپی یا دوسرے لفظوں میں اس بنیادی ضرورت سے جان چھڑالینے کی پالیسی نے ایک بہت بڑا سماجی ومعاشرتی بحران پیدا کیا ہوا ہے،جس کی نشاندہی آئے روز اسپتالوں میں لواحقین اور اسپتال کے عملے سے لڑائی جھگڑوں سے ہوتی چلی آرہی ہے۔

    سماجی اشتعال اپنی ابتدائی اورخام شکل میں اپنا فوری اظہار بسااوقات غیر ضروری ہدف پرکرتا پایا جاتاہے۔اس بے ربط اور اضطراری ردعمل کانشانہ سردست بالکل سامنے موجود اسی جیسے کمزوراہداف بن رہے ہیں۔ان کیفیات کی تفہیم سرکاری،کارپوریٹ پراپگنڈہ مشینری اپنے مذموم مقاصد کیلئے کرتی ہے اور بنیادی مسائل وجوہات اورتدارک کے ممکنات کی نشاندہی سے اجتناب برتا جاتا ہے۔

    جمود کوقائم رکھ کر موجودہ گھناؤنے نظام کو بچانے کی خواہشمند قوتیں‘ ہر سماجی تحرک سے خوفزدہ ہیں۔سماج کی مانگوں کوپورا کرنے کی بجائے سرکاری مشینری اور وسائل ’تحرک ‘کو جمود میں بدلنے یا پھر اسکوبے مقصد کرکے زائل کرنے کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی میں مصروف کار رہتے ہیں۔ وکلاء،ڈاکٹرز،طلباء،کسان تحریکوں میں یہ عمل کسی نا کسی شدت موجودنظرآتاہے۔

ماضی میں بطورخاص 68-69کے عوامی ابھار میں وکلاء تحریک کا کردار ترقی پسند رہا ہے۔تمام تر نظریاتی پراگندگی کے باوجود پرویز مشرف کے خلاف بھی وکلاء تحریک نے ایک منظم قوت کے طور پر خود کو منوایا تھا۔ مگر اس تحریک کی خودبالائی قیادت ہی اس تحریک سے خوفزدہ ہوکر”ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘مکارانہ ’لوریوں‘کے ذریعے وکلاء کو بہکانے میں مصروف رہی اوربالآخر غیرانقلابی راستوں پر استوار کرنے کی سازش میں کامیاب ہوگئی۔

اس تحریک کے بعدوکلاء ہی میں موجودعناصر‘ان کی قوت کا عمومی اظہار منفی مقاصد کے لئے کرانے میں کامیاب رہے،اس سے وکلاء تحریک کا تشخص مسلسل مسخ ہوتاگیا۔    ینگ ڈاکٹرز جن کی تنظیم کا وجود نئے ڈاکٹرز کی محرومیوں کے ازالے ،مسائل کے حل اور حقوق کے حصول کیلئے عمل میں لایا گیا تھا کو بھی ابتدائی کامیابیوں کے بعد مریضوں سے براہ راست متصادم کرادیا گیا۔

ڈاکٹرز کے مطالبات جتنے بھی صائب اور حقیقی ہوں جب وہ انکے حصول کیلئے علاج معالجے کا کسی بھی سطح پر بائیکاٹ کریں گے انکا تشخص منفی اور عوامی سطح پر ناقابل قبول ہوتا چلا جائے گا۔ ماضی میں ینگ ڈاکٹرز نے تواتر سے اپنی طاقت کا اظہارتمام مضمرات کو سامنے نارکھتے ہوئے کیا اور خود کو ناصرف عوامی حمائت سے محروم کیا بلکہ محنت کش طبقے کی دیگر پرتوں سے سے بھی دانستا یا غیر دانستا دوری اختیار کئے رکھی۔

ینگ ڈاکٹرز میں ترقی پسند عناصر کی موجودگی سے یہ توقع پیدا ہوئی تھی کہ وہ زرپرست ڈاکٹروں کی آلودگی کو اپنے انقلابی نظریات،آدرشوں اور انسان دوستی پر مبنی رویے سے دورکریں گے۔ ’ینگ ڈاکٹرز‘ تحریک سے یہ بھی توقع تھی کہ وہ خود کومظلوموں اور محروم طبقات کی تحریکوں کے ساتھ جوڑتے ہوئے قائدانہ کردار ادا کریں گے۔سردست اس خیال میں ضعف پیدا ہو ا ہے جسکی وجہ سے ینگ ڈاکٹر زتحریک سکڑ رہی ہے۔

اس صورتحال کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی قریب میں طلباء تحریک کی بے نظیر اٹھان نے حکمران طبقے کے ایوانوں میں بھونچال پیدا کردیا اور یکا یک انکے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ایک ہی دن کے ’تحرک ‘سے حکمران طبقے کے دانشوروں کی نیندیں حرام ہوگئیں،انکے ردعمل نے انکی حقیقی طاقت اور ہمت کو بھی ایکسپوز کیا۔یہ کاوش انقلابی نظریات رکھنے والے نوجوانوں کے قائدین کی بہت بڑی جیت ہے۔

اس تحریک کے آغاز میں ہی اسکو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ہم اس سازش کو لاشعوری یا اضطراری نہیں قراردے سکتے۔یہ ایک منظم سازش بھی ہوسکتی ہے۔     ماضی قریب میں قومی تحریکوں کے عظیم الشان تحرک کو مہم جوئی کے ذریعے ناقابل تلافی نقصان پہنچایاگیا ۔ان تحریکوں کی اپنی بے ربطی اور بے سمتی ”مداخلت اورسبوتاژ“ کیلئے کافی سازگار تھی ،چنانچہ اسکو نان ایشوز اور بے مقصد’ بیانیے ‘میں ہی زائل کرنے کی بڑی کوشش کی گئی۔

    سماج میں بے چینی زیادہ اور اسکا اظہار سردست بہت ہی کم ہے مگر یہ کم اظہار ہی دشمن طبقات کی کیفیت،قوت اور برداشت کو ایکسپوز کرنے کیلئے کافی ہے۔ اگر سماجی ،سیاسی اورطبقاتی بے چینی ذرا زیادہ شدت سے پھوٹ پڑی تو کم عرصے میں ہی فیصلہ ہوجائے گا۔
وکلاء اور ڈاکٹرز کی لڑائی حکمران طبقے کیلئے اطمنان بخش مظہر ہے،سماجی ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم سے بالادست قوتوں کواستحصال اور لوٹ مارکے نظام کو جاری رکھنے کیلئے آکسیجن فراہم ہوتی ہے۔

اپنے پس منظر اور زمینی حقائق سے جڑے ہونے کی وجہ سے وکلاء ،ڈاکٹرز اور طلباء لمبے عرصہ تک خود کو سماج میں موجودگہری طبقاتی تقسیم سے بالاتر نہیں رکھ سکتے ۔ایک وکیل کا اپنی ماں کیلئے مفت ادویات کا مطالبہ ہی دراصل وہ بنیادی نکتہ اور راہنمائی ہے جس کے اور دیگر بنیادی مطالبات کے گرد سماج کے تمام متحرک حصوں کو منظم ہونا پڑے گا۔اپنی نظریاتی اور سیاسی سمتوں کودرست کرکے پیش قدمی کرنا ہوگی۔انکو ایک دوسرے کا مقابل بننے کی بجائے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اس کہنہ نظام کے خلاف پیش قدمی کرنا ہوگی تاکہ سرمایہ داری کاخاتمہ کرکے محنت کش طبقے کا راج قائم کیا جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :